"ARC" (space) message & send to 7575

ریسرچ اور ڈویلپمنٹ

دنیا کے مختلف حصوں سے ہم ایسی خبریں سنتے رہتے ہیں کہ ایک دو نوجوان اٹھے اور اپنی ذہانت کے زور پر سائنس یا انفارمیشن ٹیکنالوجی کی دنیا میں کوئی ایسا کارنامہ کر دکھایا کہ سب عش عش کر اٹھے اور وہ نوجوان خود بھی کروڑ پتی اورارب پتی بن گئے۔ ہم اپنے ہاں ایسی کسی خبر کو ترستے رہتے ہیں۔ہمارے نوجوانوں میں ذہانت یا جذبے کی کمی نہیں۔ میں ایک پرائیویٹ یونیورسٹی میں ماسٹر لیول کے طلباء و طالبات کو پڑھاتا ہوں۔ ان کے تعلیمی معیار سے اگرچہ میں غیر مطمئن رہتا ہوں مگر ان کی ذہانت پر مجھے کبھی معمولی سا شک بھی نہیں ہوا۔اگر کسی کام میں ان طالب علموں کی دلچسپی پیدا کر دی جائے تو ان کا جذبہ بھی قابل دید ہوتا ہے۔ لیکن بعدازاں جب ان طالب علموں کو اپنے پراجیکٹ کے لیے کسی بھی سطح پر مالی معاونت نہیں مل پاتی تو پھر ان نوجوانوں کی مایوسی بھی قابل دید ہوتی ہے۔
ہمارے ملک میں دو سو کے قریب یونیورسٹیاں ہیں اوران میں ایک بھی یونیورسٹی ایسی نہیں جس کے مالی وسائل اتنے ہوں جتنے ان ملکوں کی یونیورسٹیوں کے، جن کے نوجوان آئے دن کوئی نہ کوئی کارنامہ کر کے دکھاتے ہیں۔اس ضمن میں حکومت کے مایوس کن کردار کا ذکر کرنے سے پہلے میرا دھیان اپنی صنعت کی طرف جاتا ہے۔ ملک کے صنعتی شعبے کی طرف دیکھیں تو ان کی طرف سے حکومت سے مطالبات تو بہت کیے جاتے ہیں اور حکومت ان کے مطالبات کو کافی حد تک قبول بھی کرتی رہتی ہے، خاص طور پر مسلم لیگ ن کی حکومت کیونکہ اس جماعت کے کرتا دھرتا خود بھی بزنس مین ہی ہیں ، لیکن ہمارے صنعت کار ہمیشہ درآمدات پرہی انحصار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اشیاء اور ٹیکنالوجی کو مقامی طور پر ترقی دینے کی طرف بالکل توجہ نہیں دی جاتی۔ کئی ملکوں میں قوانین کی مدد سے درآمدات کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے مگر ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا، درآمدات پر انحصارکر کے صنعتوں کو چلاناہمارے حکومتی نظام میں کافی آسان ہو چکا ہے اوراس آسانی کی وجہ سے ہر برس ہماری درآمدات، برآمدات کی نسبت کئی ارب ڈالر زیادہ ہوتی ہیں۔اس کو عام فہم زبان میں تجارتی خسارہ کہتے ہیں جو ہمارے تاجروں یا صنعت کاروں کو نہیں ہوتا بلکہ ملکی ہماری معیشت کو ہوتا ہے۔ 
ہماری یونیورسٹیوں کو مالی وسائل کی ضرورت ہے اور ہمارے صنعتکاروں کے پاس جو مالی وسائل ہیں ان کو وہ درآمدات پر خرچ کر رہے ہیں۔اس صورت حال میں یہ نتیجہ نکالنے کے لیے کسی فطانت کی ضرورت نہیں ہے کہ اگر ہمارا صنعتی شعبہ یونیورسٹیوں کو ساتھ ملا کر آگے بڑھے تو یہ ایک Win- Winصورت حال ہو گی، صنعت کو فائدہ ہو گا، یونیورسٹیاں بھی فعال ہوں گی اور ملک کی قسمت کسی حد تک سنورنے لگے گی۔ اور پھراس شراکت کے نتیجے میں یہ بھی ممکن ہے ہم کبھی کبھی اپنے کسی نوجوان کے بارے میں ایسی خبر سن پائیں کہ اس نے ایسا کارنامہ سرانجام دیا ہے کہ پوری دنیا اس کارنامے کو تسلیم کر رہی ہے۔ہماری نئی نسل جو یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہوتی ہے اس میں Innovationیعنی نئی نئی باتیں سوچنے کی کمی نہیں ہوتی بلکہ مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ ان کو سپورٹ نہیں ملتی۔ ہمارا تعلیمی شعبہ کافی کمزور ہے۔ پہلے تو بیشتر اساتذہ نئی سوچ کو مسترد کر دیتے ہیں، جو اساتذہ برسوں سے ایک موضوع پر ایک ہی لیکچر دیتے چلے آرہے ہوں ان سے اور توقع بھی کیا کی جا سکتی ہے۔ اور پھر جب کوئی اکا دکا استاد ایسا ہو جو طالب علموں کی نئی نئی باتیں سوچنے کی حوصلہ افزائی کرتا ہو تو مسئلہ مالی وسائل کا آ جاتا ہے۔
یہاں حکومت کا کردار سامنے آتا ہے۔ اصولاً حکومت کو تعلیمی معیار بہتر کرنے اور ریسرچ اور ڈویلپمنٹ کی حوصلہ افزائی کے لیے جامع انداز میں کارکردگی دکھانی چاہیے مگر عملی صورت حال ہے بہت مختلف ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ حکومت کے طرز عمل سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس کی ترجیحات میں تعلیمی معیار کی بہتری اور ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ ہے ہی نہیں۔ ہمارے ایک وزیر خزانہ ہیںجن کی ٹی وی پر شکل دیکھ کر مجھے ساتھ ہی ان لوگوں کے چہرے دکھائی دیتے ہیں جن کی تعداد بہت زیادہ ہے اور جو محترم وزیر خزانہ کے حالیہ بجٹ کے متاثرین کہلا سکتے ہیں۔ موصوف نے سیکڑوں ارب روپے بجلی فراہم کرنے والی کمپنیوں کوادا کیے مگر ساتھ ہی بجلی کی قیمت میں ایسا ہوشربا اضافہ کر وادیا کہ مسلم لیگ ن کے ووٹر تک منہ چھپاتے پھرتے ہیں اور عام آدمی روتا پھر رہا ہے۔ 
وزیر موصوف نے اتنا وسیع و عریض بجٹ پیش کیا مگرانہیں اتنی توفیق نہ ہوئی کہ پانچ سات ارب روپے انجینئرنگ کے طالب علموں اور انجینئرز کے لیے مختص کر کے ان سے کہتے کہ پاکستان میں ضرورت کی اشیاء اور ٹیکنالوجی مقامی طور پر ڈویلپ کریں۔ بھارت کی مثال دیتے ہوئے شرم آتی ہے مگر اس کی حکومتیں اور ان کے وزرائے خزانہ کبھی اپنے اس فرض سے غافل دکھائی نہیں دیے، مقامی ضرورت کی اشیاء اور ان کے لیے درکار ٹیکنالوجی کو مقامی طور پر ہی ڈویلپ کیا جاتا ہے۔سول حکومتوں کا المیہ یہ ہے کہ جب بھی ان کے ساتھ یہ معاملہ اٹھایا جائے کہ فلاں کام کے لیے بجٹ کی ضرورت ہے تو دبے لفظوں میں ہمارے ملک کے دفاعی بجٹ کو ہدف تنقید بنایا جاتا ہے؛ حالانکہ جو ہماری صورت حال ہے اور جس طرح ہم بھارت اور افغانستان سے اپنی عزت بچاتے رہتے ہیں ،
اس کو پیش نظر رکھا جائے تو ہمیں دفاعی بجٹ میں مالی وسائل زیادہ سے زیادہ فراہم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، لیکن کیا کیا جائے کہ گردشی قرضوں میں چار سو اسی ارب روپے یکدم ادا کر دینا تو آسانی سے گوارا کر لیا جاتا ہے مگر ملک کا وجود برقرار رکھنے کے لیے درکار دفاعی بجٹ برا لگتا ہے۔ بہرحال جب بات دفاعی بجٹ سے ہٹتی ہے تو پھر حکومت غربت کا رونا روتی ہے اور پھر لوگوں کو مالی امداد دینے کے پروگرام سامنے لے آتی ہے جس کے لیے خطیر رقم رکھی جاتی ہے۔اسی طرح آپ حکومت کی ترجیحات گنتے جائیے۔
اس کے علاوہ سیاست چمکانے کے لیے مختلف سکیموں پر بھی اربوں خرچ کر دیے جاتے ہیں۔نہیں خیال آتا تو اس بات کا کہ ہماری جو نوجوان نسل ہے اس کی صلاحیتوں کو ابھارنے اور ان سے فائدہ اٹھانے کے لیے اور کچھ نہیں تو انجینئرنگ یونیورسٹیوں کے ذریعے وہاں انجینئرز اور طالب علموں تک پانچ سات ارب روپے کا فنڈ پہنچا دیا جائے۔
ممکن ہے شروع میں یہ فنڈ ضائع ہوتا دکھائی دے اور فوری نتائج نہ مل سکیں مگر یہ کام پھلدار درخت لگانے جیسا ہوتا ہے۔ شروع میں بس پانی دیا جاتا ہے‘ کھاد ڈالی جاتی ہے اور انتظارکیا جاتا ہے کہ کب یہ تناور درخت بن کر پھل دینا شروع کرے۔ اس کے لیے صبر کرنا پڑتا ہے اور ایسا کرنے کے لیے جذبہ حب الوطنی کی ضرورت ہوتی ہے اور اس جذبے کی ضرورت نہیں ہوتی جو صرف ان کاموں پر ابھارتا ہے جو آئندہ الیکشن جیتنے کا امکان پیدا کرتے ہوں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں