"ARC" (space) message & send to 7575

آئندہ انتخابات کا تصوراتی احوال

تصور کیجیے کہ نئے انتخابات کا اعلان ہو چکا ہے۔ اپنے ملک کی سیاسی صورتحال کے پیش نظر چشم تصور سے آپ کو جو نقشہ دکھائی دے گا وہ کیسا بھی ہو مجھے یقین ہے جو کچھ مجھے دکھائی دے رہا ہے اس سے وہ کوئی زیادہ مختلف نہیں ہوگا۔ میں جب آئندہ انتخابات کا تصور کرتا ہوں‘ بھلے وہ اگلے برس ہوں یا 2018ء میں ،مجھے تو اس قسم کے مناظر دکھائی دیتے ہیں۔ 
ایک منظر یہ نظر آتا ہے کہ لندن میں جس مقام پر بے نظیر بھٹو اور نوازشریف نے میثاق جمہوریت پر دستخط کیے تھے اسی مقام پر آصف زرداری اور میاں نوازشریف نے طویل مذاکرات کے بعد فیصلہ کیا ہے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو ایک دوسرے میں مدغم کردیا جائے۔ نئی پارٹی کا نام کیا ہوگا۔ اس کا منشور کیا ہوگا اور اس نوعیت کے دوسرے غیر ضروری سوالات کا جواب تیار کرنے کے لیے دونوں رہنمائوں نے اعتزاز احسن اور چودھری نثار علی خان پر مبنی دو رکنی کمیٹی قائم کردی ہے البتہ نئی جماعت میں ٹکٹوں کی تقسیم جو پینل کرے گا اس کے ارکان میاں شہبازشریف‘ فریال تالپور‘ بلاول بھٹو اور حمزہ شہبازشریف ہوں گے۔ پینل کا اگر کسی مقام پر آپس میں جھگڑا ہو گیا تو صلح صفائی کے لیے پھر میاں نوازشریف اور آصف زرداری آگے بڑھیں گے۔ یہ سب اور دیگر چھوٹے موٹے امور طے کرنے کے بعد مجھے آصف زرداری اور نوازشریف مشترکہ پریس کانفرنس کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اپنے ابتدائی بیان میں دونوں رہنما تفصیل سے باری باری اس تاثر کو رد کریں گے کہ ان کا اتحاد محض اس وجہ سے عمل میں آیا ہے کہ اس وقت تحریک انصاف سے مقابلہ کرنا ان دونوں جماعتوں کے لیے الگ الگ رہ کر ممکن نہیں رہا۔میاں نوازشریف اپنے مخصوص انداز میں اس بات پر زور دیں گے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے کی حریف ضرور رہی ہیں مگر دونوں جمہوریت پرست ہیں۔ اس وقت جب کہ پاکستان تحریک انصاف جیسی جماعت سے جمہوریت کو خطرہ لاحق 
ہوگیا ہے ، یہ اتحاد ناگزیر ہو گیا ہے۔ اس کے بعد زرداری صاحب مسکراتے ہوئے ایک صحافی کے سوال کے جواب میں کہیں گے کہ مرکز میں تو ہم ایک ہوں گے مگر صوبوں کے بارے میں ہم نے طے کیا ہے کہ سندھ میں مسلم لیگ ن مداخلت نہیں کرے گی اور پیپلز پارٹی ،پنجاب میں مسلم لیگ ن کو فری ہینڈ دینا جاری رکھے گی۔ یہ مناظر مرحلہ وار میرے ذہن میں اجاگر ہو رہے تھے کہ مجھے خیال ہوا کہ تحریک انصاف انتخابات کے اعلان کے بعد کیا کر رہی ہوگی۔ جو تصوراتی خاکہ میرے ذہن میں ابھرا وہ یہ تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کے کارکن شہر شہر گلی گلی پھر رہے ہیں اور اپنی آنے والی فتح کا اعلان کر رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے بینر اور پرچم جگہ جگہ دکھائی دے رہے ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ واضح طور پر گروپ بندیاں انتہائی نچلی سطح پر دکھائی دے رہی ہیں۔ ہر گروپ میں کئی امیدوار ہیں جو صوبائی اسمبلی یا قومی اسمبلی کا ٹکٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ٹکٹ حاصل کرنے کے امیدوار ماضی میں تحریک انصاف کے لیے دی گئی اپنی قربانیوں کی داستانیں ہر ایک کو سنا رہے ہیں۔ اخباری انٹرویوز میں تاثردے رہے ہیں کہ اگر وہ نہ ہوتے تو تحریک انصاف کب کی غرق ہو چکی ہوتی۔ عمران خان جہاں کہیں میڈیا میں دکھائی دیتے ہیں ،معلوم ہوتا ہے کہ گہری سوچوں میں گم ہیں۔ کبھی ان کے ساتھ جہانگیر ترین دکھائی دیتے ہیں اور کبھی شاہ محمود قریشی۔ کہیں بھی یہ دونوں عمران خان کے ہمراہ اکٹھے دکھائی نہیں دیتے۔ میڈیا میں خبریں لیک (Leak) ہو رہی ہیں کہ شاہ محمود قریشی خود وزیراعظم بننا چاہتے ہیں اور ساتھ ہی باخبر ذرائع کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ عمران خان سنجیدگی سے سوچ رہے ہیں کہ وہ الطاف حسین کی طرح پس منظر میں رہ کر حکومت چلائیں۔ دوسرے دن جہانگیر ترین میڈیا سے گفتگو میں ان قیاس آرائیوں کی سختی سے تردید کرتے دکھائی دیتے ہیں اور ساتھ ہی اس بات کا اشارہ بھی دے دیتے ہیں کہ شاہ محمود قریشی تو پنجاب کے وزیراعلیٰ بننا چاہتے ہیں۔ 
اب چونکہ دکھائی دے رہا ہے کہ تحریک انصاف اقتدار میں آنے والی ہے تو اس جماعت کے ترجمان کے طور پر شیریں مزاری اور شفقت محمود کی خفیہ کھینچا تانی شروع ہو چکی ہے۔ عمران خان کئی مرتبہ صلح کرا چکے ہیں ،چونکہ وہ دونوں میں سے کسی ایک کے حق میں فیصلہ نہیں کرپاتے لہٰذا کشیدگی جاری رہتی ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ‘ جماعت اسلامی‘ جمعیت علمائے اسلام (ف) اور عوامی نیشنل پارٹی سمیت دیگر پارٹیاں انتخابات میں الگ الگ حصہ لے رہی ہیں اور ان کے رہنما یہ کہتے سنائی دیے ہیں کہ کس جماعت سے اتحاد کرنا ہے ۔اس کا فیصلہ وہ انتخابات کے نتائج آنے کے بعد کریں گے۔ گویا حسب معمول اسمبلیوں میں اپنی عددی طاقت کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جائے گی۔ 
انتخابات کی معینہ تاریخ سے کوئی ایک ماہ پہلے جبکہ عوامی آرا کے تمام جائزے یہ دکھا رہے تھے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے اتحاد کے باوجود تحریک انصاف کا انتخاب جیتنے کا امکان زیادہ ہے‘ میاں شہبازشریف کے ہمراہ علامہ طاہرالقادری ہنگامی پریس کانفرنس کرتے مجھے دکھائی دیئے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ ماڈل ٹائون کے واقعے سے میاں شہبازشریف کا کوئی تعلق نہیں تھا اور یہ سب کارستانی ان قوتوں کی تھی جو نہیں چاہتے تھے کہ منہاج القرآن اور عوامی تحریک کی طاقت مسلم لیگ ن کے ساتھ شامل ہو جائے۔ وہ یہ انکشاف بھی کرتے دکھائی دیے کہ جب 2014ء میں انہوں نے پاکستان آنے کا اعلان کیا تو ان کا اصلی بنیادی مقصد مسلم لیگ ن کے ساتھ مل کر قوم کی خدمت کرنا تھا مگر کچھ ملک دشمن قوتوں نے غلط فہمیاں پیدا کردی تھیں۔ اس کے بعد قادری صاحب تحریک انصاف اور عمران خان کے ایسے ایسے پول کھولتے دکھائی دیے کہ چپ ہی بھلی۔ اس پریس کانفرنس میں جب پیپلز پارٹی کے حوالے سے سوال کیا گیا تو قادری صاحب نے اپنا بیان دہرایا کہ بے نظیر بھٹو بھی تو منہاج القرآن کی رکن تھیں۔ اس پریس کانفرنس کے بعد مجھے دکھائی دیا کہ عمران خان اور طاہرالقادری کی لفظی جنگ شروع ہو گئی ہے جس میں ایک دوسرے کو ایسے ایسے طعنے دیے گئے جو لڑاکو قسم کی ہمسایاں ایک دوسرے کو دیتی ہیں۔ اس دھواں دھار سیاسی ماحول میں مجھے یہ بھی دکھائی دیا کہ سابق چیف جسٹس افتخار چودھری بھی اپنی ایک سیاسی جماعت بنا کر انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ چودھری صاحب کے اس اقدام پر سابق صدر جنرل مشرف مجھے اس قدر بدمزہ دکھائی دیے کہ انہوں نے اعلان کر دیا ہے کہ وہ پاکستانی سیاست سے تائب ہو گئے ہیں اور اپنی جماعت کو ختم کرنے کا اعلان کرتے ہیں۔ 
اس گرما گرم ماحول میں چودھری برادران ایک پریس کانفرنس کرتے دکھائی دیے جس میں ان کے اردگرد محض ان کے کچھ ذاتی ملازمین ہی دکھائی دیے ۔اس پریس کانفرنس میں وہ کہہ رہے تھے کہ انہیں انتخابات میں چونکہ دھاندلی کا اندیشہ ہے لہٰذا وہ انتخابات کا بائیکاٹ کرتے ہیں۔ اس اعلان کے بعد جب ان سے سوال و جواب کا موقع آیا تو تمام ٹی وی چینلوں نے پریس کانفرنس کو دکھانا ہی بند کردیا۔ 
ایک گہرا سانس لے کر میں نے جب دیگر قومی امور کے بارے میں سوچا تو مجھے دکھائی دیا کہ ہماری افواج اسی طرح چوکس مشرقی سرحد پر بھارت کی شرارتوں کا مقابلہ کر رہی ہیں۔مختلف دہشت گرد گروپوں کے خلاف آپریشن جاری ہیں‘ آئی ڈی پیز گھروں کو جانا شروع ہو چکے ہیں۔ کراچی کی صورتحال جوں کی توں ہے اور فوج کو وہاں بھی الرٹ رہنا پڑتا ہے۔ بلوچستان میں بغاوت کو دبا لیا گیا ہے مگر بھارت وہاں حرکتیں کرنے سے باز نہیں آ رہا۔ اتنی سخت مصروف فوج کو ،میں نے دیکھا کہ ہر سیاسی جماعت کہہ رہی ہے کہ وہ پولنگ بوتھوں پر فوجی جوان متعین کرے۔ 
جی ایچ کیو میں ارباب اختیار اس سوچ میں ہیں کہ آخر ان سیاستدانوں کو کب عقل آئے گی۔ ہم اتنی بڑی تعداد میں فوج پولنگ سٹیشنوں پر لگانے کے لیے کہاں سے مہیا کریں۔ کیا ان کو معلوم نہیں کہ بجٹ میں دفاع کے لیے کتنی رقم رکھی جاتی ہے۔ 
یہاں پہنچ کر مجھے خیال آیا کہ انتخابات پر جو اربوں روپیہ خرچ ہو رہا ہے وہ اگر دفاع کے لیے دے دیا جائے اور سیاستدان آپس میں اقتدار لاٹری کے طریقے سے طے کر لیں تو کس قدر فائدہ ہو۔ آخر اقتدار میں آ کر یہ سب ایک جیسے ہی تو ہو جاتے ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں