"ARC" (space) message & send to 7575

تخلیق اور تقلید

ساٹھ کے عشرے میں لاہور کے مختلف ریستورانوں میں روزانہ علمی و ادبی بحثیں ہوا کرتی تھیں۔ان بحثوں کے دوران کہا یہ جاتا تھا کہ ہمارے کرہ ارض میں ماضی میں کوئی تخلیقی دور گزر چکا ہے اور اب جو جدید دور ہے وہ محض تقلیدی دور ہے۔ جو صاحب اس موقف کے حامی تھے وہ جدید دور کی ہر شے کا ناتا ماضی سے کسی نہ کسی طرح جوڑ دیتے تھے۔ موصوف کے ساتھ اگر کوئی بحث کرنے بیٹھ جاتا تو سامعین تک کواپنا سر لکڑی کا محسوس ہونے لگتا تھا۔ ان کا ایک جملہ مجھے یاد ہے۔ کہا کرتے تھے تقلید کرنا ایک فن ہے؟ اگر کوئی اس فن میں ماہر ہو تو اس کی تقلید ، تخلیق دکھائی دے گی وگرنہ کوئی اناڑی ایسا کرے تو سرقہ معلوم ہوگا۔
یہ دور تخلیقی ہے یا تقلیدی، اس بارے میں میری کوئی رائے نہیں ہے۔ یہ بحث بھی مجھے فضول معلوم ہوتی ہے مگر آج کے دور میں جب اپنے اردگرد دیکھتا ہوں کہ کس طرح موسیقی میں چوری ہورہی ہے، ڈراموں کی کہانیاں غیر ملکی ادب سے ماخوذ ہوتی ہیں مگرطبعِ زاد کہلاتی ہیں، تو مجھے ان صاحب کی بات یاد آتی ہے کہ تقلید کرنے کے لیے اس کام میں مہارت ہونی چاہیے وگرنہ آپ کی کاوش سرقہ معلوم ہوگی۔ 
مجھے یاد ہے کہ کراچی میں ہمارے ایک جاننے والے تھے جو بے دھڑک کسی اہم شخصیت کا لکھا ہوا کوئی پرانا مضمون اپنے نام سے اخبار میں چھپوا لیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ شب معراج سے متعلق مولانا مودودی کی تحریر اپنے نام سے چھپنے کے لیے دے آئے۔ اخبار میں جو (Page Incharge)تھے انہوں نے صفحے کے ایک طرف دو کالم میں مولانا مودودی کے نام سے وہی مضمون شائع کردیا اور اسی صفحے پر دوسری طرف دو کالم میں ان صاحب کے نام سے وہی مضمون شائع کردیا۔
اب کیا تھا جناب پورے کراچی میں منہ چھپاتے پھرتے رہے۔ آخر ایک روز وہ ہمارے ایک دوست کے قابو آگئے۔ ہمارے دوست نے ان سے کہا:'' بھئی ہم مولانا مودودی کو پڑھا لکھا آدمی سمجھتے تھے مگر اب معلوم ہوا وہ تو آپ کے مضمون چوری کرکے چھپواتے ہیں۔‘‘اس پر موصوف ہلکا سا شرمندہ ہوئے اور بولے نہیں صاحب '' وہ تو بڑے آدمی ہیں۔ ہم نے استفادہ کیا ہے۔‘‘ چوری کے لیے استفادہ کا لفظ استعمال کرنا بھی خوب تھا اور برسوں ہم دوستوں کی محفل میں چوری کے لیے استفادہ کا لفظ استعمال کرتے اور ہنستے تھے۔اسی طرح ہمارے ایک اور ساتھی ہوتے تھے جو ریڈیو میں مجھ سے سینئر عہدہ پر ملازم تھے۔ ان کا کمال یہ تھا کہ وہ ریڈیو میں موجود مختلف لکھنے والوں کے مشوروں کی مدد سے کتاب تصنیف کرکے اپنے نام سے چھپوا دیتے تھے۔ ریڈیو پاکستان کوئٹہ میں تعینات تھے تو اسی طرح سٹیشن پر موجود بلوچی ادب سے متعلق مسودات پر مبنی ایک کتاب شائع کروالی۔ ہمارے ایک سینئر افسر ہوتے تھے بشیر بلوچ صاحب جو بعدازاں ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر بھی رہے۔ انہوں نے موصوف کی یہ چوری پکڑ لی مگر کیا کرتے کتاب تو چھپ چکی تھی تاہم موصوف نے کشمیری ادب و ثقافت پر اسی طرح جو کتاب چھپوائی اس سے بہت رسوائی ہوئی۔
قصہ یوں ہوا کہ موصوف آزاد کشمیر ریڈیو مظفر آباد پر تعینات تھے اور اسی طرح وہاں موجود مختلف لوگوں کے مسودات کی مدد سے کشمیر ادب وثقافت کے آئینے میں، کے عنوان سے ایک کتاب مرتب کرلی۔ چونکہ موصوف کو کشمیری ادب اور ثقافت کے بارے میں کوئی خاص معلومات نہیں تھیں تو اس کتاب میں کچھ ایسی باتیں بیان کرگئے جن کا کشمیری ادب وثقافت سے کوئی دور کا تعلق بھی نہیں بنتا تھا۔
کاریگر آدمی تھے اپنی کتاب کا مسودہ لے کر، قدرت اللہ شہاب صاحب کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔ وہ اس زمانے میں سیکرٹری انفارمیشن ہوتے تھے۔ روز ان کے دفتر کے باہر بیٹھے رہتے تھے آخر پذیرائی ہوگئی۔ جیسا کہ بڑے لوگوں کا شیوہ ہوتا ہے اپنے کسی واقف کار کو کہا کہ ان کی طرف سے چند سطریں لکھ دے۔
سیکرٹری انفارمیشن کی طرف سے چند سطروں کی مدد سے ہمارے ریڈیو کے اس افسر نے اپنی تصنیف کو نہ صرف سرکاری خرچے پر چھپوا لیا بلکہ پبلک سروس کمیشن کے ایک اعلیٰ عہدے کے انٹرویو کے دوران وہ کتاب اور اس پر سیکرٹری انفارمیشن کی سطوردکھا کر اسسٹنٹ ریجنل ڈائریکٹر منتخب ہوگئے۔
اب جناب جس وقت یہ کتاب چھپ کے باہر آئی اور کشمیریوں کو معلوم ہوا کہ اس میں ان کے ادب وثقافت کی دھجیاں بکھری ہوئی ہیں تو نام نہاد مصنف کا تو وہ کچھ نہ بگاڑ سکے مگر شامت آگئی قدرت اللہ شہاب صاحب کی۔
شہاب صاحب جس تقریب میں جائیں وہاں کشمیری ایک وفد کی شکل میں ان کے پیچھے پڑ جائیں کہ یہ آپ نے کیا کیا۔ شہاب صاحب خود بھی کشمیری تھے مگر غلطی ان سے سرزد ہوچکی تھی۔ پھر کیا ہوا کہ ایک اہم شخصیت سے شہاب صاحب کو خط لکھوایا گیا جس میں مذکورہ کتاب میں موجود غلطیوں کی نشاندہی کی گئی تھی۔
شہاب صاحب نے بڑا Diplomaticجواب بھجوایا جس کا متن کچھ یوں تھا '' ...نے کتاب تصنیف کی ہے اور آپ لوگ اس پر تنقید کررہے ہیں، دونوں ہی ادب کی خدمت کررہے ہیں۔‘‘
مگر جناب جن لوگوں کے ادب اور ثقافت پر حملہ ہوا ہو وہ بھلا اس طرح خاموش ہوتے ہیں۔ خیر اس سلسلے میں مزید بھی بہت سے واقعات ہیں مگر یہ کہ اخیر اس کا اس طرح ہوا کہ قدرت اللہ شہاب صاحب نے سرکاری طورپر شائع ہونے والی اس تصنیف کو سرکاری طور پر ہی کالعدم قرار دلوایا۔
تو بات یہاں سے شروع ہوئی تھی کہ جس طرح نقل کے لیے عقل چاہیے اسی طرح تقلید کرنے کے لیے بھی ہنر چاہیے لیکن کیا کیاجائے، ہمارے ہاں کاپی رائٹ وغیرہ کا کوئی تصور تو شروع ہی سے بہت کم کم دیکھنے میں آتا ہے مگر اب تو معلوم ہوتا ہے کہ لوگ بالکل بے حس ہوگئے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں پہلے کم از کم سرقہ کرنے والوں کا مذاق تو اڑایا جاتا تھا، ان کی مزاحمت بھی کی جاتی تھی مگر اب ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا۔ اب کمپیوٹر کے دور نے Cut & Pasteکی سہولت بھی بہم پہنچادی ہے لہٰذا تخلیقی دور اگر کبھی کوئی تھا بھی تو وہ قصۂ پارینہ ہوچکا ۔ اب یہ دور تقلیدی بھی نہیں رہا بلکہ سرقے کا دور ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں