آج کے دور میں جب اس کرۂ ارض پر زندگی کی رفتار ازحد تیز ہوچکی ہے اور صاف دکھائی دے رہا ہے کہ مغربی دنیا اپنی ثقافت سب ملکوں پر طاری کرنے کے لیے دن رات محنت کررہی ہے، ہم جیسے ملکوں کو اپنی ثقافت کی حفاظت کرنے سے متعلق سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔
مغرب کی سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی نے ہماری آنکھیں چندھیا دی ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا اور مغرب، جس راستے پر ہمیں چلا رہا ہے، اس پر ہم اندھا دھند چلتے جارہے ہیں۔ ہماری حکومتوں کے پاس تو کبھی وقت ہوا ہی نہیں کہ وہ اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے ہتھکنڈوں کے علاوہ اور کچھ سوچ سکیں لیکن ہمارے ہاں جس کو سول سوسائٹی کہا جاتا ہے وہ بھی اس ضمن میں مسلسل غفلت کا مظاہرہ کرتی رہی ہے۔ ہماری سول سوسائٹی کا ایک حصہ تو ویسے ہی مغرب کا ہمنوا ہے۔ انہی کے پیسوں سے مغرب اپنی غیر سرکاری تنظیمیں چلاتا ہے اور انہی کے ایجنڈے پر خلوص دل سے کاربند رہتا ہے۔ سول سوسائٹی کا دوسرا حصہ مذہب کے ایک ایسے رنگ میں ڈوبا ہوا ہے جس میں اپنے سوا کسی دوسرے کو برداشت ہی نہیں کیا جاتا۔ ملک علامہ اقبال کو مصور پاکستان کہتا ہے مگر مغرب زدہ این جی او اور ہمارے بعض تعلیمی ادارے اور مدارس وغیرہ بڑی کامیابی سے اپنے آپ کو علامہ اقبال فکر سے دور رکھے ہوئے ہیں۔ دو انتہائیں تو ہمارے موجود ہیں مگر وہ درمیان راستہ کہیں دکھائی نہیں دیتا جس کو ہمارے دین نے ہمارے لیے پسند کیا ہوا ہے۔
اس صورتحال میں اگر ہم آج کے دور میں بطور مسلمان جینے کے لیے اس درمیانی راستے کی تلاش میں نکلیں جو ہماری ثقافت کا محافظ ہوسکتا ہے تو سب سے پہلے ہمیں ان دونوں انتہائوں کو مسترد کرنا ہوگا۔ اس کے بعد ہمیں اپنے دین سے رہنمائی اس انداز میں حاصل کرنا ہوگی کہ ہم جدید دنیا کو دکھا سکیں کہ ہماری اپنی ثقافت ہے جس کی حدود میں رہتے ہوئے بھی ہم آج کی دنیا کے ساتھ چل سکتے ہیں۔
یہ انداز کیسا ہوگا، میں ایک مثال سے واضح کرتا ہوں۔
جس وقت ہمارے نبی ؐ نے دین اسلام کی تبلیغ کا آغاز کیا تو اس حوالے سے ایک مشہور واقعہ بیان کیا جاتا ہے جو دینیات کی تمام کتابوں میں آپ کو ملے گا۔ اس واقعہ کے مطابق حضور ؐ نے ایک پہاڑی پر چڑھ کر خاص انداز میں اردگرد کے لوگوں کو پکارا تو لوگ جمع ہوگئے اور پھر ان تک اپنا پیغام پہنچایا۔
اس دور میں رواج تھا کہ جب کسی کو کوئی اہم خبر پورے قبیلے کو دینا ہوتی تو وہ اپنی ہیئت تبدیل کرلیتا اور پہاڑی کی چوٹی پر کھڑا ہوکر پکارتا تھا۔ لوگ جمع ہوجاتے تھے اور اس شخص کی بات سنتے تھے۔
لیکن غور کریں کہ جب نبی کریم ؐ نے اس دور کے کمیونیکیشن کے اس طریقے کو استعمال کرنا چاہا تو انہوں نے اپنی ظاہری ہیئت تبدیل نہیں کی ؛البتہ باقی وہی طریقہ اختیار کیا جو رائج تھا۔ اس سے ہمیں واضح سبق ملتا ہے کہ اس وقت کمیونیکیشن کے جتنے بھی وسیلے موجود ہیں جن میں ریڈیو، ٹی وی ، کمپیوٹر، انٹرنیٹ وغیرہ سب کچھ شامل ہے ان کو ہم بلا جھجک استعمال کرسکتے ہیں مگر ان تمام وسیلوں میں جہاں جہاں متنازعہ عناصر موجود ہیں، انہیں مسترد کرنا ہوگا۔ بالکل اسی طرح جیسے نبی پاک ؐ نے کیا۔ اسی طرح ہمارے دین میں اور خاص طور پرقرآن پاک اور رسول کریم ؐ کی سنت میں ہمیں زندگی کے تمام پہلوئوں میں باآسانی ایسی رہنمائی مل جاتی ہے کہ ہم جدید دور میں سر اٹھا کر جی بھی سکتے ہیں، دنیا کی تمام اقوام کے شانہ بہ شانہ ہر شعبے میں کام بھی کرسکتے ہیں اور بطور مسلمان زندگی بھی گزار سکتے ہیں۔
یہی ایک طریقہ ہے جس پر چل کر ہم بطور مسلمان اپنی ثقافت کی بھی حفاظت کرسکتے ہیں۔ مغربی دنیا میں آپ کو بہت سی ایسی مثالیں مل سکتی ہیں کہ مسلمان اپنی تہذیب و ثقافت کے دائرے میں رہتے ہوئے وہاں بطور ڈاکٹر ، بطور سائنسدان، بطور استاد، بطور تاجر کام کررہے ہیں اور کسی کو ان کے ساتھ کام کرنے میں کوئی تکلیف نہیں ہے۔
مغربی دنیا میں ان کے اکابرین بھی بے حیائی کو دل سے پسند نہیں کرتے مگر ان کے ساتھ مسئلہ یہ ہوگیا ہے کہ ان کے ہاں چرچ کی کوئی ساکھ نہیں رہی ہے لہٰذا سیکولر ازم کے نام پر ہر کوئی اپنے آپ کو مادر پدر آزاد سمجھتا ہے۔ چرچ کی ساکھ تو اس وجہ سے تباہ ہوئی کہ اس میں دم ہی نہیں تھا۔ مذہبی کتابوں میں تحریف ہوچکی تھی اور اہم مذہبی شخصیات من مانے فتوے جاری کیا کرتی تھیں لہٰذا پندرھویں صدی میں ردعمل ہوا اور آہستہ آہستہ مغرب اپنے ہاں اس خود ساختہ مذہب کے شکنجوں سے آزاد ہوگیا۔
اب اس آزادی میں آگے بڑھتے ہوئے مغرب ایک ایسے سرپٹ دوڑتے گھوڑے میں تبدیل ہوچکا ہے جس کو اپنی منزل معلوم نہیں۔ حیا کا دامن تارتار ہوچکا ہے اور قوم لوط پر جس وجہ سے عذاب آیا تھا، اس کو مغرب انسانی زندگی ہی کا ایک پہلو باور کرنے لگا ہے۔ مگر بطور مسلمان ہمیں تو اپنی منزل معلوم ہے اور ہماری اپنی مستحکم اقدار ہیں اور ہمارا دین ایک توانا دین ہے۔
اگر ہم اپنی اقدار کے دائرے میں رہتے ہیں تو مغربی تہذیب کی ایک خوبی یہ ہے کہ اس میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے۔ ہم اگر اصرار کریں کہ ہم اپنی ثقافت کے دائرے میں رہتے ہوئے اور اپنے دین کی پاسداری کرتے ہوئے جدید دور میں دیگر اقوام کے ساتھ مل کر چلیں گے تو مجھے یقین ہے کہ مغربی ممالک کو تو کیا دیگر کسی اور تہذیب کے ماننے والے ملک کو بھی کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ اپنے ملک میں بھی اگر ہم اس طرف بڑھیں کہ ہم نے مغرب زدہ این جی اوز کے اس کلچر کو نہیں اپنانا جس میں مغرب کی بے لگام آزادی کا تصور اس وجہ سے پنہاں ہے کہ ان کا خود اس پر کوئی کنٹرول نہیں ہے اور نہ ہی ہمیں مذہب کی اس تشریح کو اپنانا ہے جس کا ہمارے دین کی حقیقی روح سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے تو ہماری کایا پلٹ سکتی ہے۔ ہمارے دین کا نہ تو بے حیائی سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی جہالت سے۔
یہی پیغام تھاجو اقبال ؒ نے دیا اور اسی پیغام کی روشنی میں قائداعظم محمد علی جناح نے پاکستان کی تحریک چلائی، جس میں نہ تو مذہبی بنیاد پرست موجود تھے اور نہ ہی اس تحریک میں مغربی دنیا کے ایجنٹ کسی شکل میں پائے جاتے تھے۔
آج کے دور میں اگر ہم نے بطور مسلمان اپنی ثقافت کو بچا کر رکھتا ہے تو ان دونوں گروپوں سے ملک کو چھٹکارا دلاکر ہمیں ایک درمیانی راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ اگر ہم ایسا کرپائے تو مجھے یقین ہے کہ مغربی دنیا بھی ہمارے خلاف وہ اقدامات بند کردے گی جن کو ہم اپنے مذہب کے خلاف سازشیں سمجھتے ہیں۔ ان کو جب اسلام کی ایسی شکل نظر آئے گی جو ان کو خوفزدہ کرنے کے بجائے کرۂ ارض پر ساتھ مل کر جینے کا پیغام دے گی تو وہ بھلا کیوں ہمارے خلاف سازشیں کریں گے؟