گزشتہ کچھ برسوں سے دہشت گردی کی وجہ سے قومی سطح پر جو ہم کچھ سہمے ہوئے نظر آتے تھے اب وہ صورتحال تبدیل ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ اگرچہ خطرات موجود ہیں مگر توقع کی جا رہی ہے کہ اس برس 23مارچ کو اسلام آباد میں روایتی فوجی پریڈ کا انعقاد ہو گا۔ حکام نے غالباً یہ سوچا ہے کہ کب تک ہم ان دہشت گردوں کے خوف سے بند دروازوں کے پیچھے بیٹھے رہیں گے۔ حکومت کی اس سوچ کا ایک اظہار آج کل لاہور میں ہارس اینڈ کیٹل شو کے انعقاد کی شکل میں بھی سامنے آ رہا ہے۔
اس سے پہلے لاہور ہی میں ایک تین روزہ بین الاقوامی ادبی میلہ منعقد کیا گیا۔ الحمرا آرٹ سنٹر کے مختلف ہالز میں درجنوں نشستوں میں بھاری تعداد میں لوگ شریک ہوئے جن میں اکثریت نوجوانوں کی تھی۔ لاہور لٹریری فیسٹیول کے ضمن میں بھی حکومت نے حوصلے سے کام لیا‘ وگرنہ منتظمین اس میلے کے انعقاد سے ایک روز پہلے تک بھی تذبذب کی حالت میں تھے۔ رات ساڑھے گیارہ بجے حکومت نے حتمی طور پر اس میلے کے منتظمین کو اجازت دی تھی‘ کیونکہ سکیورٹی کے ضمن میں خدشات تھے۔
میرا خیال ہے حکومت پر یہ واضح ہو چکا ہے کہ ملک کا ثقافتی ماحول اب ہر قیمت پر بحال کرنا ہو گا۔ دہشت گردی ایک مسئلے کے طور پر اگر موجود رہتی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کے مکمل خاتمے تک ہم ثقافتی میدان میں دبکے بیٹھے رہیں۔ ان حالات میں اب حکومت کو سنجیدگی سے سوچنا چاہیے کہ کون کون سی سرگرمیوں کو وہ اپنی کوشش سے اتنا رنگین اور دلکش بنا سکتی ہے کہ اس میں زیادہ سے زیادہ لوگ شریک ہوسکیں۔
لاہور چونکہ ایک ثقافتی مرکز کی حیثیت رکھتا ہے لہٰذا اگر اس حوالے سے اس شہر کی سرگرمیوں کا ذکر کریں تو ابھی کچھ دنوں بعد میلہ چراغاں شروع ہو رہا ہے۔پنجاب حکومت نے جس طرح ہارس اینڈ کیٹل شو کے لیے سکیورٹی کے خصوصی انتظامات کرنے کے ساتھ مختلف مقامات سے شٹل بس سروس بھی اس میلے کے لیے شروع کی ہے ویسی ہی سہولت میلہ چراغاں میں آنے اور جانے کے لیے بھی دی جانی چاہیے مزید برآں اس علاقے میں مادھو لال حسین کے مزارات تک پہنچنے کے راستے کو بھی اس انداز سے درست کرنا چاہیے کہ زائرین بآسانی آ جا سکیں۔ اس برس بسنت تو ویسے ہی گزر گئی اور اس تہوار پر پابندی کے باوجود ڈورسے لوگوں کے زخمی ہونے کی خبریں ملتی رہیں تاہم اگلے برس کے لیے حکومت اس کی منصوبہ بندی کرسکتی ہے۔ اگرچہ ہمارے ہاں مذہبی گروپوں کی طرف سے بسنت منائے جانے پر اعتراضات کئے جاتے ہیں مگر عمومی طور پر لوگ اس تہوار کے مخالف نہیں ہیں۔ اس بارے میں اگر بے لاگ سروے کروایا جائے تو بھاری اکثریت بسنت منانے کے حق میں ہوگی مگر اس شرط کے ساتھ کہ حکومت دھاتی اور کیمیکل ڈور کو ‘ جس سے ماضی میں ہلاکتیں ہوئی ہیں‘ بسنت کے تہوار میں گھسنے نہ دے۔ حکومت یہ کام کر سکتی ہے مگر اس کا انداز یہ ہو گا کہ پہلے سال تھوڑے بہت ایسے لوگ ضرور سامنے آئیں گے جو قانون شکنی کریں گے اور جب ان کے خلاف موثر کارروائی ہو گی تو پھر اس سے اگلے سال یہ معاملہ اور دب جائے گا اور آہستہ آہستہ ختم ہو جائے گا۔
اسی طرح داتا گنج بخشؒ کے عرس کے موقع پر جو ایک عظیم الشان میلہ لگتا تھا حکومت اس کو بھی بحال کر سکتی ہے۔ ضروری تو نہیں کہ وہ میلہ بھاٹی درازے ہی میں لگایا جائے۔ عرس کے موقع پر میلے کے لیے کوئی بھی کھلا میدان مختص ہو سکتا ہے۔پھر لاہور میں ہر سال صنعتی اور تجارتی نمائش لگا کرتی تھی۔ اس روایت کو بھی حکومت بحال کر سکتی ہے۔ قبل ازیں یہ نمائش فورٹریس سٹیڈیم کے قریب لگائی جاتی تھی لیکن اب اس مقام پر کوئی سٹور وغیرہ بن گئے ہیں۔ حکومت کے لیے کوئی نئی جگہ تلاش کرنا مشکل نہیں ہو گا۔ نمائش شہر سے کچھ دور بھی لگائی جا سکتی ہے اور نمائش کے دنوں میں ٹرانسپورٹ کا خصوصی انتظام بھی کیا جا سکتا ہے۔
ہماری دیہی آبادی کو چھوٹے موٹے میلوں ٹھیلوں کا موقع تو دیہات اور قصبوں میں ملتا رہتا ہے مگر شہروں میں ہمارے دیہات کی ثقافتی نمائندگی کرنے والے اجتماعات کم کم ہوتے ہیں۔ ہارس اینڈ کیٹل شو اس لحاظ سے ایک منفرد میلہ ہے۔ اس میں دیہی آبادی کی شمولیت کے کافی مواقع اور امکانات ہوتے ہیں۔ آج کل یہ شو چونکہ گیارہ برس بعد منعقد ہو سکا ہے لہٰذا دیہی آبادی کی شمولیت اتنی نہیں دکھائی دی جتنی 2004ء یا اس سے پہلے ان میلوں میں ہوتی تھی۔ پنجاب حکومت مختلف وزارتوں کی مدد سے مزید ایسے پروگرام ترتیب دے سکتی ہے جن میں ہماری دیہی آبادی کو شہروں میں آ کر ثقافتی پروگراموں میں شرکت کا موقع مل سکے۔ ان میں شہری اور دیہی ثقافتوں کا امتزاج بہت خوش کن ہو گا۔
اسی طرح آپ سوچتے جائیں تو آپ کو مزید بہت کچھ سجھائی دے گا جو اس ضمن میں ہو سکتا ہے مگر اس کا کیا کیجیے کہ جن لوگوں نے کرنا ہے ان کو جگانے والا کوئی نہیں ہے۔ ہمارے ہاں جو یہ کلچر بن گیا ہے کہ جو کچھ کرنا ہے وہ وزیر اعلیٰ ہی نے کرنا ہے‘ باقی سب نے ہاتھ پر ہاتھ دھر کے بیٹھے رہنا ہے۔ اس سے ایک ایسی جامد صورتحال پیدا ہو جاتی ہے جو ثقافت کے لیے زہر قاتل ہے۔ حکومت کی ہر وزارت ‘ ہر محکمہ اپنے طور پر اس قابل ہو تا ہے کہ وہ ثقافتی سرگرمیوں کا انعقاد کرسکے‘ مگر یہاں سب اپنے اپنے دفتروں میں بیٹھے اوپر سے آنے والے احکامات کے منتظر رہتے ہیں۔جب کوئی توجہ دلائے تو جواب یہ ملتا ہے کہ فنڈز نہیں ہیں یا پھر یہ کہا جاتا ہے کہ جی اگر ہم اپنے طور پر کچھ کر لیں تو وزراء اور وزیراعلیٰ ناراض ہو جاتے ہیں کہ ان سے اجازت نہیں لی۔ تاہم یہی افسران جب بدعنوانی کے ذریعے لاکھوں کروڑوں اپنے اپنے بنک اکائونٹ میں منتقل کرتے ہیں تو اس عمل میں وہ اپنے آپ کو کسی کی اجازت کا محتاج نہیں پاتے۔ یہ بات درست ہے کہ سیاسی رہنمائوں کو پبلسٹی کا شوق ہوتا ہے‘ مگر مختلف وزارتوں کے سیکرٹری یا دیگرسینئر افسران اپنے طور پر بھی تو کوئی Initiativeنہیں لیتے۔
اس مسئلے کو برسر اقتدارسیاسی رہنما ہی حل کر سکتے ہیں۔ مسلم لیگ ن کی قیادت نے جس طرح لاہور لٹریری فیسٹیول کو سکیورٹی فراہم کر کے ممکن بنایا اور جس طرح ہارس اینڈ کیٹل شو کے انعقاد میں محنت سے کام کیا ہے‘ اسی جذبہ کے تحت‘ جن ثقافتی سرگرمیوں کا حوالہ دیا گیا ہے ان پر بھی توجہ دی جا سکتی ہے۔ بیورو کریسی کو فنڈز دے کر باقاعدہ ایسے ثقافتی کاموں پر مامور کیا جا سکتا ہے‘ اس اندازسے کہ ان کی مسلسل نگرانی بھی ہو اور ان کی حوصلہ افزائی بھی کی جاتی رہے۔ واضح رہے کہ ثقافتی پروگراموں کے لیے فنڈز زیادہ سے زیادہ کروڑوں تک ہی پہنچ پاتے ہیں لہٰذا جہاں اربوں اور سینکڑوں اربوں کے بجٹ ہوں وہاں کروڑ کوئی مسئلہ نہیں ہوتے۔