مغربی دنیا عورتوں کے حقوق کا ڈنکا تو بجارہی ہے مگر یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ یہی ممالک ہیں جن میں پچھلی صدی کے شروع میں صورتحال یہ تھی کہ خواتین کو حقوق تو کیا حاصل ہوتے ان کے بارے میں ایسے مباحث بھی ریکارڈ پر ہیں جن میں عورتوں کا انسان ہونا بھی محل نظر ہوتا تھا۔ دانشوروں کے حلقوں سے ایسی آوازیں اٹھتی تھیں کہ '' عورت کو مرد کی مانند نہ سمجھا جائے یہ تو الگ ہی مخلوق ہے‘‘۔ پھر کچھ لوگ حد سے بڑھ جاتے اور یہ تک کہہ دیتے کہ Woman + man= Less Than a Manیعنی مرد کے ساتھ اگر عورت کو جمع کردیاجائے تو مرد میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔ ایسی سوچ رکھنے والوں کی انجمنیں بھی تھیں جو زندگی بھر شادی سے گریزاں رہتے تھے اور اپنے اس طرز عمل پر فخر بھی کرتے تھے۔
اگر ہم عورتوں کی صورتحال کے حوالے سے جنوبی ایشیا کا موازنہ مغربی ملکوں سے کریں تو پچھلی صدی میں یہاں تو خواتین کی حالت بالکل ہی ناگفتہ بہ تھی۔ جنوبی ایشیا میں گنے چنے کچھ پڑھے لکھے خاندانوں کو چھوڑ کر کہیں نظر ڈالیں عورت بیچاری کا کوئی مقام ہی نہ تھا۔ یہ بات تو ہر کوئی مانتا ہے کہ اسلام نے خواتین کو پندرہ صدی پہلے جو حقوق عطا کیے وہ ایک انقلابی اقدام تھا۔ مگر بعدازاں وہ حقوق کتابوں میں ہی دب گئے۔ نہ تو عصری تقاضوں کے حساب سے ان میں علما اور مجتہدین کوئی اضافہ کرسکے نہ ہی بڑ ی بڑی خلافتیں اور سلطنتیں اس ضمن میں کوئی پیش رفت کرسکیں۔نتیجہ یہ ہوا کہ قبائلی روایات غالب آگئیں۔یعنی گزشتہ صدی میں عورت مغرب میں ہو یا مشرق میں ستم رسیدہ تھی۔
مغربی دنیا میں صنعتی انقلاب میں عورت کو اپنی اہمیت کا احساس ہوا اور پھر خواتین جو اپنے حقوق کے لیے کھڑی ہوئی ہیں تو آج تک ان کی جدوجہد جاری ہے اس کے باوجود کہ وہ مغربی معاشروں میں اپنے حساب سے بہت سی کامیابیاں حاصل کرچکی ہیں۔ ہمارے ہاں نہ صنعت ہے اور نہ ہی صغتی انقلاب لہٰذا صورتحال جوں کی توں ہے۔اس جوں کی توں صورتحال کو مصنوعی طریقے سے بدلنے کے لیے ایسی غیر ملکی انجمنیں (این جی اوز)کوشاں ہیں جنہیں باہر سے مالی امداد ملتی ہے۔حکومت پر مغربی ممالک کا اس ضمن میں دبائو رہتا ہے۔ جنرل مشرف کے دور میں اسی دبائو کی وجہ سے خواتین کی اچھی خاصی تعداد انتخاب میں حصہ لیے بغیر قومی و صوبائی اسمبلیوں میں پہنچا دی گئی ۔مگر جیسا میں نے کہا کہ یہ طریقہ مصنوعی ہے اور مصنوعی طریقے سے ٹھوس نتائج حاصل نہیں ہوتے۔خواتین کا عالمی دن ہم مناتے ہیں۔ صدر اور وزیراعظم کے پیغامات تمام دن ذرائع ابلاغ پر چلائے جاتے ہیں۔ ریڈیو اور ٹیلی وژن خصوصی پروگرام پیش کرتے ہیں۔ دستاویزی پروگرام نشر ہوتے ہیں جن میں خواتین کے حقوق کی بات ہوتی ہے۔ مذہبی رہنما تقاریر میں،اسلام نے خواتین کو جو حقوق دیے ہیں،ان کی بات کرتے ہیں مگر اس سب کے باوجود معاشرے میں کوئی قابل ذکر تبدیلی دیکھنے میں نہیں آتی۔
بیٹی پر بیٹے کو فوقیت دی جاتی ہے۔ بیٹی کے پیدا ہونے پر اکثر گھروں میں سوگ کی فضا ہوتی ہے۔ بیٹا پیدا کرنے کے چکر میں چھ چھ بیٹیاں پیدا کرکے پھر ان تمام بیچاریوں کے ساتھ جانوروں کا سا سلوک کیا جاتا ہے۔ بیٹی کو جائیداد میں عملاً حصہ نہیں دیا جاتا۔ بہت کچھ کہا جاتا ہے مگر بس اتنا ہوتا ہے کہ ماں کی وفات پر زیور کا کچھ حصہ بیٹیوں تک پہنچ پاتا ہے۔ وہ بھی ان گھرانوں میں جہاں کچھ خوف خدا ہوتا ہے وگرنہ بیٹی گھر سے رخصت ہوئی تو ہر شے سے کٹ گئی۔
یہ صورت تو شہروں اور بڑے قصبوں میں ہے تاہم دیہات میں صورتحال اور بھی بری ہے وہاں تو خواتین کو باقاعدہ Abuseکیا جاتا ہے۔ قرآن سے شادی کردینا کہ اس کو جائیداد میں حصہ نہ دینا پڑے۔ کاری قرار دے کر قتل کردینا۔ بھائی کوئی جرم کرے تو صلح کی شرط پر اس کی بہن کو عمر رسیدہ شخص سے بیاہ دینا۔ غصے میں آکر منہ پر تیزاب ڈال دینا۔ اسی طرح خواتین پر ظلم کی داستان بہت طویل ہے۔ کیا مغربی دنیا ہمارے ان مسائل کو حل کرسکتی ہے۔ ہرگز نہیں۔
یہ ہمارے اپنے مسائل ہیں جنہیں خود ہی حل کرنا ہوگا۔ غیر ملکی امداد سے چلنے والی غیر سرکاری تنظیمیں اس خود میں نہیں آتیں۔ یہ اپنی جگہ جو کرتی ہیں کرتی رہیں کیونکہ سطحی طور پر ان کے کام سے تھوڑا بہت فائدہ ہی ہوتا ہے مگر اس مسئلے کا حل یہ انجمنیں نہیں ہیں۔ ویسے بھی مغربی ممالک کے ایجنڈے کو ہمارے ہاں بوجوہ شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس مسئلے کا حل کیا ہے۔
اس مسئلے کا حل خواتین کی تعلیم میں پوشیدہ ہے اور یہ کام حکومت کے کرنے کا ہے۔ حکومت خواتین کی تعلیم یا پھر عمومی طور پر تعلیم کے جتنے منصوبے بناتی ہے ان میں سے بیشتر کے پس منظر میں غیر ملکی امداد ہوتی ہے۔ Education for Allاور Adult Educationیا پھر Each One Teach Oneجیسے پروگراموں کے نام سامنے آتے ہیں۔ یہ تمام پروگرام امداد دینے والے ملکوں کی طرف سے آتے ہیں۔ ہماری حکومتوں کی نظر محض ان رقوم پر ہوتی ہے جو ان پروگراموں کے نام پر حاصل ہوتی ہیں۔ مجھے نہیں یاد کبھی کسی مرکزی صوبائی یا ضلعی حکومت نے غیر ممالک کی امدادی رقوم کا صحیح استعمال کیا ہو۔ جہاں تک ملکی وسائل کا تعلق ہے تو خود حکومت کا یہ حال ہے کہ قرضوں میں جکڑی ہوئی ہے ۔تعلیم اور صحت کے شعبوں کو مکمل طور پر نظر انداز کیا ہوا ہے۔ ترجیحات یہ ہیں کہ ایسے منصوبوں پر اربوں خرچ کردیے جاتے ہیں جو دکھائی دیں اور جن سے آئندہ انتخابات کو جیتا جاسکے۔
صدر پاکستان خواتین کے عالمی دن پر ایک تقریب میں کہہ رہے تھے کہ پرائمری تک تعلیم کا سارا نظام خواتین کے حوالے کردینا چاہیے۔ میڈیا پر کہہ ہے تھے حالانکہ اصل ضرورت ہے کہ یہ بات وزیراعظم سے کہیں اور ان کو مجبور کریں کہ وہ ایسا کردیں۔اسی طرح بہت سی تجاویز لوگ دے چکے ہیں جن پر عملدرآمد کرکے خواتین سمیت عام لوگوں تک تعلیمی سہولیات پہنچائی جاسکتی ہیں ۔میں اعدادو شمار دے کر کالم کو بوجھل نہیں کرنا چاہتا مگر آپ کسی صوبے کے کسی شہر سے محض آٹھ دس میل دور جاکر دیہی آبادی میں صورتحال دیکھیں آپ کو حیرت ہوگی کہ وہ لوگ آج کے دور میں ایسی زندگی گزار رہے ہیں جیسی زندگی کا تذکرہ چند صدیاں پہلے برصغیر کے دیہات کے حوالے سے کتابوں میں ملتا ہے۔
جنوبی افریقہ میں نسلی تفریق و امتیاز والی حکومت جب قائم تھی تو پوری دنیا اس کی مذمت کرتی تھی مگر ہم نے اپنے آزاد ملک میں اپنے ہی دیہی عوام کے ساتھ ایسی تفریق و امتیاز کا برتائو جاری رکھا ہوا جس کا کوئی نوٹس نہیں لیتا۔سیاسی جماعتوں نے منشور جاری کررکھے ہیں مگر کوئی جماعت دیہی عوام میں جاکر سیاسی کام نہیں کررہی۔بے چاری خواتین کو وڈیروں ، زمینداروں ، نوابوں اور سرداروں وغیرہ کے رحم و کرم پر چھوڑا ہوا ہے۔اس صورتحال میں نہ عوام کو حقوق مل سکتے ہیں اور نہ ہی خواتین کو جتنے مرضی دن منالیں۔ ابھی دیکھیں بھارت اپنے آپ کو بڑی جمہوریت کے طور پر پیش کرتا ہے مگر وہاں صورتحال غالباً ہم سے بھی زیادہ خراب ہے کیونکہ وہاں ابھی ذات پات کی لعنت بھی موجود ہے۔ India's Dagshterکے نام سے ایک غیر ملکی نشریاتی ادارے نے نئی دہلی میں ہونے والے ایک لڑکی کی آبرو ریزی اور موت کے واقعہ پر جو دستاویزی فلم بنائی اس کو بھارت کی حکومت نے Banکردیا ہے۔
غریب خاندان کی لڑکی ،پڑھائی کے ساتھ آٹھ گھنٹے روزانہ کال سنٹر میں کام کرکے ڈاکٹر بننے والی تھی ایک رات چار غنڈوں کے ہتھے چڑھ جاتی ہے ۔وہ لڑکی اور اس کے بوائے فرینڈ پر تشدد کرتے ہیں۔ پھر لڑکی کی آبرو ریزی کرکے دونوں کو چلتی بس سے نیچے پھینک دیتے ہیں۔ دستاویزی فلم میں اس جرم میں موت کی سزا پانے والے ان چار غنڈوں میں سے ایک کا انٹرویو شامل ہے جو ڈھٹائی سے کہتا ہے کہ مرنے والی لڑکی اگر مزاحمت نہ کرتی تو زندہ رہتی اور پھر کہتا ہے کہ رات کے وقت لڑکی کا کیا کام کہ گھر سے باہر نکلے۔ جن وکلا نے ان مردوں کی وکالت کی ان کے بھی یہی خیالات دستاویزی فلم میں موجود ہیں۔ چاروں غنڈے ان پڑھ ہیں جبکہ لڑکی غریب ہونے کے باوجود اپنی ہمت سے پڑھ لکھ گئی تھی۔ بھلا ایسی کہانی بھارت کے حکمرانوں کو کیسے قابل قبول ہوسکتی ہے جو ان کے سماج کو آئینہ دکھاتی ہو۔