بھارتی مقبوضہ کشمیر میں حریت رہنما مسرت عالم نے قید سے رہائی پانے کے بعد ایک انٹرویو میں اپنی رہائی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ پہلے وہ ایک چھوٹی جیل میں تھے اور اب رہائی کے بعد ایک بڑی جیل میں آ گئے ہیں۔ ظاہر ہے بڑی جیل سے اُن کی مراد بھارت کے زیر قبضہ کشمیرہے ۔
کہنے کو تو یہ ایک بیان ہے مگر دراصل یہ ایک ایسی تلخ حقیقت کا اظہار ہے جس سے کون واقف نہیں۔ ''ارتھ شاستر‘‘ میں بدنام زمانہ مفکر چانکیہ نے جو دائو پیچ بیان کیے ہیں‘ بھارت نے ان پر عملدرآمد کرتے ہوئے کشمیر پر قبضہ کیا ہوا ہے اور یہ قبضہ صرف اور صرف طاقت سے چھڑوایا جا سکتا ہے کیونکہ چانکیہ کہتا ہے کہ جب آپ دشمن کے مقابلے میں کمزور ہوں تو پھر امن کی پالیسی ہی اپنانی چاہیے۔ لہٰذا کشمیر کا قبضہ چھڑوانے کے لیے ہمیں طاقتور ہونا ہوگا یا پھر کشمیریوں کو طاقتور ہونا ہوگا۔ زیادہ امکان یہی ہے کہ کشمیری خود ہی اتنے طاقتور ہو جائیں گے کہ بھارت کو مجبوراً انہیں آزاد کرنا ہوگا۔ پاکستان میں ہمارا المیہ یہ رہا ہے کہ ہم نے اپنی قوت بڑھانے کی طرف توجہ کم دی اور جتنی تھوڑی بہت قوت موجود تھی اس کو جذباتی ہو کر بھارت کے خلاف جنگوں میں جھونک کر رسوائیاں اٹھاتے رہے۔ ساٹھ کے عشرے میں پاکستان بڑی تیزی سے ترقی کر رہا تھا۔ اگر اس وقت ہماری قیادت کو پروردگار یہ شعور دے دیتا کہ اپنے سے کئی گنا بڑے ملک سے کشمیر کا قبضہ چھڑوانے کے لیے پہلے اقتصادی ترقی کی منزلیں طے کرنا ہوں گی اور پھر مضبوط معیشت کو پس منظر میں رکھ کر فوجی طاقت کے ذریعے بھارت کو مجبور کرنا ہوگا
کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیر میں استصواب رائے کرائے تو ہمیں کامیابی مل سکتی تھی۔ مگر ایسا نہ ہو سکا اور ہم نے 1965ء کی جنگ لڑ لی۔ اس جنگ میں ہم نے بے مثال قومی یکجہتی کا مظاہرہ دیکھا۔ اپنی بہادر افواج کے کرشمے دیکھے مگر کشمیر کا معاملہ اور بھی بگڑ گیا۔ ساتھ ہی ہم جس رفتار سے اقتصادی ترقی کر رہے تھے وہ یکدم رک گئی۔ پاکستان‘ جس کے بارے میں سویڈن کے معروف سوشل سائنٹسٹ (Gunnar Myrdal) نے اپنی معرکہ آرا تصنیف Asian drama: An inquiry into poverty of nations میں ایک انتہائی اچھے مستقبل کی پیش گوئی کر رکھی تھی‘ وہ پیش گوئی بھی دھری کی دھری رہ گئی اور ہم تنزلی کی طرف مائل ہو گئے۔ یحییٰ خان کے دور نے تو اس ملک کو ایسا جھٹکا دیا کہ ہم آدھے سے بھی کم ہو گئے۔ بھٹو صاحب کو پاکستانیوں کی کشمیر سے وابستگی کا علم تھا مگر وہ کیا کرتے۔ شملہ معاہدے میں پہلے ہی کشمیر کے مسئلے کو دوطرفہ طور پر طے کرنے کی شق پر دستخط کر آئے تھے جس کے سبب اقوام متحدہ کی قراردادیں پس منظر میں چلی گئی تھیں۔ اپنے دورِ حکومت میں انہوں نے کشمیر پر شور بہت مچایا مگر وہ سب سیاسی شور تھا۔ موصوف کو معلوم تھا کہ اس طرح کشمیر ملنے والا نہیں ہے۔ اس اثناء میں بھارت نے ایٹمی دھماکہ کر دیا تو پھر بھٹو صاحب کی توجہ اس طرف ہو گئی کہ پاکستان کو بھی جوہری طاقت بنانا ہوگا کیونکہ اگر ایسا نہ ہو سکا تو بھارت‘ پاکستان کے وجود کو ختم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گا۔
جنرل ضیاء الحق کے طویل دور میں کشمیر کے ضمن میں ہمیں کوئی پیش رفت دکھائی نہیں دیتی۔ موصوف نے سقوط ڈھاکہ کا بدلہ لینے کے لیے بھارت میں خالصتان تحریک کی مدد کی اور ہمسایہ ملک کو کافی اذیت میں رکھا مگر چونکہ زیادہ توجہ جہاد افغانستان پر تھی لہٰذا اس طرف جنگ سے گریز کرتے رہے۔ حتیٰ کہ جب بھارت نے خود جنگی شقوں کی آڑ میں جنگ کا ماحول بنانے کی کوشش کی تو جنرل صاحب نے راجیو گاندھی کو ایٹم بم کی دھمکی دے کر ہی کام چلا لیا۔ جب جنرل ضیاء الحق کا دور ختم ہو رہا تھا جس کا کہ موصوف کو خود کوئی اندازہ نہیں تھا تو انہوں نے افغانستان میں سوویت یونین کی شکست کے بعد وہاں سے فارغ ہونے والے مجاہدین کو کشمیر کی طرف لگا دیا تھا۔ ان مجاہدین نے بھارت کے لیے بہت سے مسائل پیدا کیے لیکن اس کے پیچھے کوئی حکمت عملی نہیں تھی۔ ایک علاقے میں محض بدامنی پیدا کر دینا کوئی حکمت عملی نہیں ہوتا۔ بدامنی پیدا کرنا پہلا مرحلہ ہوتا ہے جس طرح بنگلہ دیش کے معاملے میں ہوا تھا کہ پہلے بدامنی پیدا کی گئی پھر اندرا گاندھی نے سوویت یونین سے گٹھ جوڑ کر لیا۔ اپنی افواج کو تیاری کا حکم دیا۔ اس طرح ایک کے بعد دوسرا مرحلہ پھر تیسرا مرحلہ اور آخر کار اپنا نصب العین حاصل کر لیا اور ہم منہ دیکھتے رہ گئے۔
ہمارے پاس بدقسمتی سے ایسی کوئی پالیسی نہیں تھی۔ لہٰذا صرف اتنا ہو سکا کہ بھارت کو لاکھوں کی تعداد میں فوج کشمیر میں تعینات کرنا پڑی جو اب تک وہاں ہے۔ اور اسی کی وجہ سے مقبوضہ کشمیر ایک بہت بڑی جیل کا منظر پیش کرتا ہے جس کا برملا اظہار مسرت عالم نے اپنے انٹرویو میں کیا ہے۔ گزشتہ پندرہ بیس برسوں کے دوران کشمیر پر ہم لوگوں نے بہت کچھ سنا ہے۔ بھارتی وزیراعظم واجپائی بس پر بیٹھ کر لاہور آتے ہیں۔ نوازشریف جو اس وقت بھی وزیراعظم تھے ان کے ساتھ مل کر کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کے لیے آگے بڑھتے ہیں۔ دونوں امن کا نوبیل انعام پانے کے چکر میں تھے اور اس بات کا ادراک نہیں تھا کہ کشمیر کا مسئلہ اس طرح حل نہیں ہو سکتا۔
کارگل کا واقعہ تو ایک قدرتی ردعمل تھا۔ اگر یہ واقعہ نہ ہوتا تو کوئی اور اسی قسم کا واقعہ ہو جانا تھا۔ پھر جب جنرل مشرف کا زمانہ آیا تو انہوں نے کہا کہ اب میں وہی کروں گا جس کو میں نے نوازشریف کے دور میں ہونے نہ دیا۔ بھارت کا دورہ بھی کیا جس کے بعد واجپائی کے ساتھ لائن آف کنٹرول پر فائر بندی وغیرہ کے معاہدے اور بھارت کے ساتھ People to people contact کی پالیسی چلائی۔ مگر کوئی نتیجہ نہ نکل سکا۔ محض ہم یہ بیان بار بار سنتے ہیں خاص طور پر سابق وزیر خارجہ خورشید قصوری کی زبانی کہ پاکستان اور بھارت کشمیر پر معاہدے کے بہت قریب پہنچ چکے تھے۔
مجھے تو لگتا ہے یہ سب کہانیاں ہیں۔ بنیادی بات یہی ہے کہ کشمیر میں چانکیہ کے فرمودات کی روشنی میں بنائی گئی پالیسی چل رہی ہے جس میں پاکستان اور کشمیریوں کو مسلسل دھوکے میں رکھا جاتا ہے۔ بھارت کا رتی برابر ارادہ نہیں ہے کہ کشمیر کا مسئلہ حل کیا جائے۔ ہمارے پاس محض ایک راستہ ہے کہ ہم کشمیر پر اپنے موقف میں بالکل نرمی نہ کریں مگر ساتھ ہی مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کو خود ہی بھارت سے اپنے حقوق کی جنگ لڑنے دیں۔ ہماری مدد ان کو فائدہ نہیں دے سکتی۔ ہماری مدد یہی ہے کہ ہم مدد نہ کریں خاص طور پر وہ جو ہم 1989ء میں کر رہے تھے۔ ویسے بھی ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں اور ساتھ ہی اقتصادی ترقی کے لیے کوشاں ہیں۔ اگر ہم آئندہ برسوں میں دہشت گردی کو شکست دے کر اپنے آپ کو اقتصادی طور پر مضبوط کر لیتے ہیں تو ہمارے لیے یہی کافی ہے۔ کشمیری جب کبھی بھی ہوں گے اپنی تحریک آزادی کے نتیجے میں آزاد ہوں گے۔
اس وقت تو مقبوضہ کشمیر ایک بہت بڑی جیل میں تبدیل ہو چکا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ایسی صورتحال ہمیشہ قائم نہیں رہتی۔ بھارت کو کشمیر کے اندر شکست صرف اور صرف کشمیری دے سکتے ہیں۔ باہر کی کوئی طاقت اگر کوشش کرے گی تو اس سے کشمیریوں کی تحریک آزادی کو نقصان ہی پہنچے گا۔