"ARC" (space) message & send to 7575

مغربی معاشرے کی کشش

دسویں صدی عیسوی میں جب مسلمانوں کی تہذیب عروج پر تھی تو ہمیں بتایا جاتا ہے کہ سپین کی یونیورسٹیوں میں یورپ کے دیگر حصوں سے طالب علم آ کر علم حاصل کرتے تھے اور پھر واپس اپنے علاقوں میں جا کر اسی علم کی روشنی پھیلاتے تھے۔ اسی طرح یورپ تک یونانی فلاسفروں کی کتابیں پہنچیں کیونکہ مسلمانوں نے یونانی فلسفے کے عربی میں تراجم کر کے یہ فلسفہ محفوظ کیا ہوا تھا۔
یورپ نے تو دسویں صدی میں مسلمانوں کی تہذیب سے فائدہ اٹھا لیا مگر مسلمان مغربی تہذیب سے فائدہ اٹھانے میں تاحال ناکام ہیں۔ اس کی وجوہ کا جائزہ لیں تو ان کی نوعیت معاشرتی ہے۔ مغربی دنیا نے اپنے ہاں کی معاشرت اتنی پرکشش بنا رکھی ہے کہ ترقی پذیر مسلمان ملکوں سے جو کوئی حصول علم کی خاطر بھی کسی مغربی ملک میں جاتا ہے وہ وہیں کا ہوکر رہ جاتا ہے۔ بہت کم لوگ واپس آتے ہیں اور جو واپس آتے ہیں ان کا بھی اکثر اوقات حال یہ ہوتا ہے کہ وہ مغربی ملکوں میں اپنے قیام کے دور کو یاد ہی کرتے رہتے ہیں۔یہ صورتحال غالباً دسویں صدی کے سپین میں نہیں تھی۔ وہاں بڑی بڑی یونیورسٹیاں ضرور تھیں اور حصول علم کے ذرائع بھی موجود تھے مگر مسلمانوں کی معاشرت میں یورپی لوگوں کے لیے وہ کشش نہیں تھی جو آج کا مسلمان‘مغربی ممالک کے لیے محسوس کرتا ہے۔ لہٰذا اس دور میں کسی یورپی ملک نے Brain Drainکا الزام عائد نہیں کیا۔ آج کل یہ الزام عام ہے۔ مسلمان ملکوں یا کسی بھی ترقی پذیر ملک سے اکثر جب طلباء و طالبات تعلیم حاصل کرنے یورپ یا امریکہ کی یونیورسٹیوں میں جاتے ہیں تو ان میں جتنے طلباء و طالبات ہونہار ہوتے ہیں ان کو تو نوکریاں مل جاتی ہیں اور باقی دیگر طریقوں سے اس معاشرے میں گھس جاتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مغربی ملکوں کا علم و ہنر وہیں رہتا ہے اور ان کی معیشتوں ہی کو مضبوط کرتا رہتا ہے۔
مغربی معاشروں کے اس قدر پرکشش ہونے کے اسباب پر غور کیا جائے تو سب سے پہلے جو بات نئے آنے والے کو متاثر کرتی ہے وہ وہاں کے رہنے والوں کا حسن اخلاق ہے۔ متعصب لوگ دنیا میں ہر معاشرے میں ہوتے ہیں لہٰذا مغربی دنیا میں بھی ہیں مگر ان کی تعداد وہاں واقعتاً بہت کم ہے اور وہاں عام خوش اخلاق شہریوں کے مقابلے میں ایسے لوگ نہ ہونے کے برابر ہیں۔اکثر اپنے ہمسایوں میں‘ اپنے دفاتر اور شاپنگ سنٹرز میں جن جن لوگوں سے آپ کو واسطہ پڑتا ہے‘ ان کا اخلاق آپ کو متاثر کرتا ہے۔ گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد بھی عام امریکی کے حسن اخلاق میں کوئی خاص فرق نہیں آیا۔دوسری بات جو مغربی معاشروں کو دل آویز بناتی ہے وہ یہ کہ وہاں عمومی طور پر ایک آزادی کا احساس پایا جاتا ہے اور لوگوں کا حکمرانی کے سسٹم پر بہت اعتماد دیکھنے میں آتا ہے۔ یہ سب اس کے باوجود ہے کہ وہاں سیاہ فاموں اور ہسپانویوں وغیرہ کے خلاف امتیازی سلوک بھی ہوتا ہے مگر جو کوئی قانون کی گرفت میں آ جائے وہ بچ نہیں پاتا۔
وہاں کے نظام عدل میں ایسے واقعات بھی ہوتے ہیں کہ ایک سیاہ فام O.J.Simpsonکو سیاہ فاموں پر مبنی جیوری نے قتل کے الزام میں بری کر دیا تھا حالانکہ امریکہ کے سفید فاموں کی اکثریت Simpsonکو دو گورے لوگوں کا قاتل سمجھتی تھی‘ جن میں ایک Simpson کی سابقہ بیوی اور ایک اس بیوی کا دوست تھا۔ اسی Simpson پر کسی دوسری امریکی ریاست میں ایک اور مقدمہ چلا جہاں جیوری سفید فام افراد پر مشتمل تھی تو اس جیوری نے Simpson پر کئی ملین ڈالر جرمانہ عائد کر دیا تھا۔اس سب کے باوجود امریکہ میں اور دیگر مغربی ملکوں میں بھی عام لوگ ایسے مقدمات کو استثنائی نوعیت کے مقدمات باور کرتے ہیں اور اپنے اپنے ملک کے نظام عدل پر بھر پور اتحاد رکھتے ہیں۔
آپ کو یہ جان کر ممکن ہے حیرت ہو کہ امریکہ میں بچے کو سرکاری سکول میں داخل کروانے کے لیے صرف یہ دکھانا ہوتا ہے کہ وہ بچہ اس علاقے کا رہائشی ہے جہاں سکول واقع ہے۔ اس بارے میں کوئی سوال نہیں کیا جاتا کہ بچہ امریکہ میں قانونی طور پر مقیم ہے یا غیر قانونی طور پر رہ رہا ہے۔ بس رہائش کا ثبوت دیا‘ بچہ داخل۔ پھر کیا‘ ٹرانسپورٹ بھی مفت‘ کتابیں بھی مفت اور اگر بچے کے والدین چاہیں تو بچے کو دوپہر کا کھانا بھی مفت ملتا ہے۔ بارہویں جماعت تک جس کو وہاں گریجوایشن کہتے ہیں یہ تعلیم اسی طرح مفت ہے۔ کئی اور باتیں اس معاشرے کی ناقابل یقین حد تک متاثر کن ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ مغربی دنیا میں بڑی ایسی باتیں بھی ہیں جو ہماری معاشرتی اقدار کے حساب سے قابل نفرت ہیں۔ ہم محض ان کی مذمت کرتے رہتے ہیں اور وہاں جو اچھی چیزیں ہیں ان سے کوئی سبق حاصل نہیں کرتے۔
آج کل تو ہم دہشت گردی کا شکار ہیں اور اس سے جنگ کر رہے ہیں لیکن جب ہمارے ہاں امن وامان کا ماحول تھا تب بھی ہم نے اپنی معاشرتی اقدار کے اندر رہتے ہوئے کبھی اپنے معاشرے کو ایسا نہیں بنایا کہ اس میں باہر سے آنے والوں کے لیے کشش ہو۔ اور جس ڈگر پر ہم چل رہے ہیں معلوم ہوتا ہے کہ آئندہ بھی کوئی ارادہ نہیں ہے۔ 
میں نے کالم کے شروع میں دسویں صدی عیسوی کے سپین میں اس مسلم ترقی یافتہ معاشرے کا ذکر کیا ہے جہاں تعلیم کی غرض سے یورپ بھر سے لوگ آتے تھے۔ یہ مسلم سپین کے تعلیمی معیار کی کشش تھی جو اپنی طرف کھینچتی تھی۔ تاہم چونکہ اس زمانے کی معاشرتوں کے ڈھانچے بہت مختلف تھے لہٰذا یورپی لوگ تعلیم حاصل کر کے واپس چلے جاتے تھے اور مسلم سپین کی معاشرت میں اپنے لیے کوئی کشش نہیں پاتے تھے۔
آج کل مغربی دنیا نے ایسی معاشرت قائم کر رکھی ہے جو ایک طرح مکڑی کا جال ہے۔ اس معاشرت میں ایک سے ایک اچھائی ہے اور ایک سے ایک برائی بھی۔ جس کو جو چاہیے‘ وہ مل جاتا ہے۔ میں نے بڑے لوگ دیکھے ہیں جن کے مغربی معاشرے نے دل بدل ڈالے۔ایک واقعہ سناتا ہوں ۔ میرا ایک بہت عزیز دوست ہوتا تھا۔ اس کی محبت کی شادی ہوئی یہاں لاہور میں۔میں اپنے اس دوست کی خاطر اس کی ہونے والی بیوی کو ٹیوشن پڑھاتا تھا جس کی وجہ سے میں پوری ذمہ داری سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ لڑکی بھی میرے دوست کے ساتھ جی جان سے محبت کرتی تھی۔ اس لڑکی کا ایک بھائی امریکہ میں ڈاکٹر تھا۔ اس نے وہاں اس لڑکی کو ایک تعلیمی ادارے میں داخل کروا کے ضروری کاغذات اور ٹکٹ وغیرہ بھجوا دیا۔ میرے دوست اور اس لڑکی کا ابھی نکاح ہوا تھا‘ باقاعدہ رخصتی نہیں ہوئی تھی۔ طے ہوا کہ ایک سال بعد لڑکی جب امریکہ سے واپس آئے گی تو باقاعدہ شادی ہو جائے گی۔اس کے چھ ماہ بعد اس لڑکی نے اپنے شوہر کو خط میں لکھا کہ وہ بھی امریکہ آ جائے۔ میرا دوست جانا نہیں چاہتا تھا۔ اس نے کہا‘ نہیں تم واپس آئو۔ پہلے تو پیار کے انداز میں ایک دوسرے پر دونوں زور دیتے رہے اور وقت گزرتا رہا۔ سال گزر گیا۔ دو سال گزر گئے۔ پھر بدمزگی شروع ہو گئی۔ آخر کار لڑکی نے الٹی میٹم دے دیا کہ یا تو چھ ماہ میں امریکہ آ جائو یا پھر طلاق بھجوا دو۔جب طلاق ہوئی تو واقعتاً مجھے یقین نہیں آتا تھا کہ دونوں کی اتنی گہری محبت بھی اس کشش کو شکست نے دے سکی جو امریکہ میں اس لڑکی کے دل میں گھر کر گئی تھی۔ لہٰذا ہمارے دانشور یہ باتیں تو کرتے ہیں کہ ہمیں مغرب سے علم سیکھ کر اپنے معاشروں کو ترقی یافتہ بنانا چاہیے مگر اس کا کوئی علاج نہیں بتاتے کہ جس فرد کو اپنے ہاں سے کسی مغربی ملک میں علم حاصل کرنے بھیجیں اس کو مغربی معاشرے کی کشش سے کس طرح چھٹکارا دلوا کر واپس لائیں۔
صرف پاکستان کی مثال لے لیں تو ہمارے جتنے لوگ حکومت کے خرچ پر باہر کے ملکوں میں جا کر واپس نہیں آئے‘ اگر وہ سب واپس آ جاتے تو کیا ہماری صورتحال میں انقلابی تبدیلی نہ آ گئی ہوتی۔ مگر کیا کریں مغربی معاشرہ یونانی دیو مالا کی دیوی سرسی(Circe)کی طرح کا ہو گیا ہے جس کے جزیر ے پر جو جاتا تھا اس دیوی کے جادو کا شکار ہو جاتا تھا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں