یمن کی صورتحال اگرچہ پہلے ہی سے پیچیدہ چلی آ رہی تھی مگر اب پیچیدہ تر اس قدر ہو چکی ہے کہ غالباً سعودی عرب کو بھی معاملات کو اپنی گرفت میں رکھنے کے لیے انتہائی دشواری کا سامنا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ حالات اب خود ہی آپے سے باہر ہو رہے ہیں۔ پاکستانیوں کی ایک غالب اکثریت سعودی عرب کی حمایت میں ہے مگر ان کو حالات کی جو تصویر دکھائی جا رہی ہے وہ بہت دھندلی رکھی گئی ہے لہٰذا عوامی سطح پر کوئی واضح ردّ عمل سامنے نہیں آ رہا۔ ایک دو مذہبی جماعتوں نے سعودی عرب کی حمایت میں جلسے جلوس کیے مگر حالات کی واضح تصویر وہ بھی پیش نہیں کر سکے‘ لہٰذا عام لوگوں کے لیے اسی طرح کنفیوژن موجود ہے۔
سعودی عرب سے مسلمانوں کی محبت کی بڑی وجہ تو وہاں حرمین شریفین کی موجودگی ہی ہے مگر دنیا بھر میں زیادہ سے زیادہ اسلامی شریعت اگر کسی ملک میں نافذ ہے تو وہ سعودی عرب ہی ہے ۔ اس وجہ سے بھی عام مسلمان سعودی عرب کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں‘ اور اس ملک کی حفاظت کا جذبہ اپنے دلوں میں رکھتے ہیں۔یہ جذبہ کارآمد ہو سکتا ہے اگر عام مسلمانوں پر یمن کی صورتحال کا دھندلا پن ختم کر کے ان کو واضح طور پر بتا دیا جائے کہ وہاں کیا ہو رہا ہے اور سعودی عرب وہاں کیا کرنا چاہتا ہے۔
یمن کی صورتحال کے حوالے سے دیگر مسلمان ملکوں کا طرز عمل بھی کسی واضح صورتحال کی نشاندہی کرنے سے قاصر ہے۔ ہمارے ملک کی مثال تو کم از کم ہم پاکستانیوں پر واضح ہے۔ ہماری حکومت نے مجال ہے اپنے عوام کو اس حوالے سے کوئی ایسی بات بتائی ہو جو سمجھ میں بھی آتی ہو۔
سب سے پہلے ڈیڑھ ارب ڈالر بطور عطیہ موصول ہوئے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ دوست ملک کا تحفہ ہے۔ کچھ نہیں بتایا جاتا کہ اس تحفے کی کیوں ضرورت پیش آئی۔ مبصرین نے اندازے لگانے شروع کر دیے ۔ بعض نے یہ تک کہا کہ یہ عطیہ وغیرہ نہیں‘ بس کچھ وقت کے لیے ہماری معیشت کو سہارا دینے کی خاطر یہ خطیر رقم ہمارے اکائونٹ میں "park"کر دی گئی ہے‘ بالکل اسی طرح جیسے کوئی اپنی گاڑی کسی اور کے گیراج میں پارک کر جاتا ہے اور جب اسے ضرورت ہوتی ہے تو وہ آ کر اپنی گاڑی سٹارٹ کر کے لے جاتا ہے۔ جب تک یمن کا تنازع شدت اختیار نہ کر گیا اس وقت تک یہ اندازہ بھی کوئی نہ لگا سکا کہ ممکن ہے کہ ڈیڑھ ارب ڈالر کا یمن کی صورتحال سے تعلق ہو۔ ہماری حکومت اب تک بھی اس رقم کے حوالے سے خاموش ہے اور ریکارڈ پر وہی موقف ہے یعنی دوست ملک کا عطیہ ہے۔
اس کے بعد جب حال ہی میں یمن تنازع میں شدت آ گئی اور سعودی عرب کی قیادت میں وہاں باغیوں کے خلاف ایک اتحاد بن گیا تو بین الاقوامی خبروں میں کہا جانے لگا کہ پاکستان بھی اس اتحاد کا حصہ ہے۔ہماری حکومت نے البتہ وہی پالیسی برقرار رکھی۔ صاف چھپتے بھی نہیں ۔ سامنے آتے بھی نہیں۔
عام توقعات کے برعکس حکومت یہ معاملہ پارلیمنٹ میں لے گئی۔ وہاں ہونے والی کارروائی اس امر کی غماض ہے کہ حکومت خود ہی وہ قرار داد منظور کروانے کی خواہاں تھی جو پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر منظور کی اور جس میں ایک ایسے تنازع میں نیو ٹرل رہنے اور ثالثی کروانے کی بات کی گئی جس کا کوئی پہلو بھی واضح نہیں ہے۔
پارلیمنٹ کاریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں‘ کسی رکن کی تقریر سے بھی یہ پتہ نہیں چلتا کہ یمن کا تنازع اصل میں ہے کیا۔ بس اس پر زورتھا کہ ہمیں پرائی آگ میں نہیں کودنا چاہیے۔ کسی نے نہیں بتایا کہ یمن کی صورتحال کو کیوں آگ کہا جا رہا ہے۔ یہ بھی کوئی واضح نہ کر سکا کہ یمن ایک برادر اسلامی ملک ‘ سعودی عرب برادر اسلامی ملک‘ پرائے کیسے ہو گئے۔پھر یہ بھی معلوم نہ ہو سکا کہ کودنے سے کیا مراد ہے۔ یعنی کسی کے کہنے پر کودنے کی کوشش ہو رہی ہے یا خود ہی جوش جذبات میں چھلانگ لگنے کا خدشہ ہے۔ مزید برآں پاکستان کی یمن کے حالیہ تنازع کے ضمن میں حکمت عملی سے ہلکا سا یہ شائبہ بھی پڑتا ہے کہ کہیں ہماری حکومت اپنا بھائو بڑھانے کے لیے یہ دائو پیچ تو نہیں کھیل رہی‘ کیونکہ قبل ازیں واضح خبریں آ چکی تھیں کہ پاکستان کم از کم سعودی عرب کی سرحدوں کی حفاظت میں براہ راست فوجی تعاون پر تیار ہے۔ اب آگے کیا ہو گا؟ شاید کچھ منظر اور نظر آئیں مگر مجھے یقین ہے کہ صورتحال کو دھندلا ہی رکھا جائے گا۔
اگر سعودی عرب یہ چاہتا ہے کہ وہ اسی طرح جائز حکومت کو باغیوں سے بچانے جیسے گول مول بیانات دیتے ہوئے یمن کے حوالے سے اپنے مقاصد پوری کر لے تو پھر پاکستان تو کیا کوئی ملک بھی اس کی وہ مدد نہیں کر پائے گا جس کی ضرورت ہے۔ میرے خیال میں اس مقصد کے لیے سعودی عرب کو اپنی بنیادی پالیسیوں میں کچھ تبدیلی کرنا ہو گی۔ایک بڑی تبدیلی تو یہ کرنا ہو گی کہ ان نوجوانوں کو شہریت دینا ہو گی جو مسلمان ہونے کے ساتھ ساتھ حرم کی پاسبانی کا جذبہ بھی رکھتے ہوں۔
ہماری فوج بڑی آسانی سے ہزاروں نوجوان پاکستانیوں کو چند ماہ کی فوجی تربیت دے کر سعودی عرب اس شرط پر بھجوا سکتی ہے کہ وہ نوجوان پھر سعودی عرب ہی کے شہری ہوں گے اور سعودی کمانڈروں کے تحت وہاں ڈیوٹی دیں گے۔ جب تک سعودی عرب یمن میں اپنے مقاصد حاصل نہیں کر لیتا‘ یہ سلسلہ جاری رہ سکتا ہے۔ مگر نصب العین کے حصول کے بعد بھی سعودی عرب کو اپنے ان شہریوں کو وہیں رکھنا ہو گا بھلے ان کے لیے ایک دو شہر آباد کرنا پڑیں۔ اور بھلے ان کی تعداد کئی لاکھ ہو جائے‘ جزیرہ نما عرب بہت بڑا خطہ ہے۔ یہی ایک طریقہ ہے جو ان حالات میں قابل عمل دکھائی دیتا ہے۔
دوسری صورت وہی ہے کہ کھل کر بات کی جائے۔ بتایا جائے کہ اگر ایران حوثی لوگوں کی حمایت کر رہا ہے تو اس کے کیا شواہد ہیں۔ پھر یہ بھی واضح کیا جائے کہ یمن کی آبادی میں جو مختلف گروہ موجود ہیں وہ کیا چاہتے ہیں۔ اس بات کی بھی وضاحت ہونی چاہیے کہ سعودی عرب میں یمنی نژاد باشندے اس معاملے میں کیا سوچ رکھتے ہیں۔ اسی طرح درجنوں سوالات ہیں جو جواب طلب ہیں اور جن کا جواب میرا اندازہ ہے کہ کبھی نہیں دیا جائے گا۔ تاہم فی الوقت جس نہج پر یمن کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے کوشش کی جا رہی ہے وہ تو درست سمت محسوس نہیں ہوتی۔ اپنی مرضی کا نتیجہ حاصل کرنے کی کوشش ہورہی ہے مگر طاقت بہت کم ہے۔
امریکہ نے عراق میں کچھ حد تک ہی سہی اپنی مرضی کا نتیجہ حاصل تو کیا مگر اندازہ لگائیں کہ کتنی طاقت صرف ہوئی۔ سعودی عرب اگر اسی راستے پر چلنا چاہتا ہے تو پھر میری رائے میں لاکھ دو لاکھ مسلمان نوجوانوں کو شہریت دے کر اپنی فوج کا حصہ بنانا ہو گا۔ ان کی تربیت کے اخراجات اٹھانا ہوں گے اور مقصد حاصل کرنے کے بعد ان کو سعودی عرب میں آباد کرنا ہو گا۔ کم ازکم پاکستان میں ایسے نوجوانوں کی کمی نہیں ہے جو فوجی تربیت حاصل کر کے سعودی شہریت لینے اور پھر سعودی فوج کا حصہ بن کر ڈیوٹی دینے پر تیار نہ ہوں۔