"ARC" (space) message & send to 7575

تاریخ اور مغالطے… (2)

تاریخ اور مغالطے کے عنوان سے میرے گزشتہ کالم کے حوالے سے سعودی عرب میں مقیم ہمارے قاری ندیم شہزاد نے بذریعہ ای میل ایک تحریر بھیجی۔ پہلے اسے پڑھ لیجئے: ''مغلوں نے کبھی بھی ہندوستان کو اپنا ملک نہ سمجھا ہو گا وگرنہ دو صدیوں سے زائد عرصہ کروفر کے ساتھ حکومت کے بعد بھی آج کے ہندوستانی مسلمان جھونپڑیوں میں رہنے پر مجبور نہ ہوتے۔ نہ تعلیمی پسماندگی ہوتی اور نہ ہندوستان میں ان کی حالت اچھوتوں سے بھی بدتر ہوتی۔ مغل ہندوستان کو مفتوحہ ملک ہی سمجھتے رہے اور مدرسوں کی سرپرستی سے کچھ اوپر اٹھ کر تعلیمی اور فنی ادارے نہ قائم کر سکے۔ نتیجتاً مٹھی بھر انگریز سارے ہندوستان پر قابض ہو گئے۔ غالباً مغلوں کی فوج بھی ویسی ہوگی اور نظم و ضبط سے عاری ہوگی کہ ہندوستان اور مسلمانوں کی ناموس تو کیا آخری بادشاہ اپنا خاندان تک نہ بچا سکا۔ اگر 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد مسلمانوں کی قابل رحم حالت دیکھ کر قومی رہنما سکول، ادارے اور یونیورسٹیاں نہ بناتے تو شاید پاکستان بننے کی بھی نوبت نہ آتی۔
پورے ہندوستان میں مغلوں سے منسوب کوئی ایسی یونیورسٹی، جامعہ یا تدریسی ادارہ نہیں جو آج بھی موجود ہو۔ انگریزوں نے اچھا کیا، یا برا‘ سب کے سامنے موجود ہے۔ تعلیمی میدان میں لگتا ہے‘ مغلوں کا کوئی وژن تھا ہی نہیں، نہ ہی وہ پوری طرح باہر کی دنیا سے آگاہ تھے‘ یا آگاہ ہونا ہی نہیں چاہتے تھے؛ حالانکہ بیرونی سیاح (مثلاً یورپین) ہندوستان آتے رہتے تھے‘‘۔ 
''مغل غالباً فیوچرسٹ (Futurist) نہیں تھے۔ نہ تو ان کی آرمی جدید خطوط پر استوار تھی اور نہ ہی وہ سائنسی اور جدید اداروں کے معمار تھے‘‘۔ 
میری رائے میں ہمارے قاری ندیم شہزاد کا تبصرہ اس سوچ کی بالکل درست نمائندگی کرتا ہے جو مغل دور حکومت کے بارے میں ہمارے ہاں کے تعلیم یافتہ حضرات میں پائی جاتی ہے۔
میں نے اسی تناظر میں اپنے گزشتہ کالم میں تحریر کیا تھا کہ اکثر مغل بادشاہ عیاش طبع تھے، صرف اورنگزیب ان سے مختلف تھا اور جس طرح اکبر کو مغل اعظم کہنا ایک تاریخی مغالطہ ہے‘ اسی طرح اورنگزیب پر ہر پہلو سے تنقید بھی ایک تاریخی مغالطہ ہے۔ اورنگزیب کے اس طرح ذکر پر مجھے کئی دوستوں کے ایس ایم ایس پیغامات موصول ہوئے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ بعض لوگ کسی حوالے سے بھی اورنگزیب کا ذکر پسند ہی نہیں کرتے۔
ہمارے ہاں تو موصوف پر کٹر مذہبی رجحانات اور فرقہ واریت کے حوالے سے تنقید ہوتی ہے لیکن سب سے زیادہ تنقید تو اورنگزیب پر انگریز اور ہندو تاریخ دانوں نے کی ہے۔ غالباً برصغیر کے کسی حکمران پر بھی اتنی تنقید نہیں ہوئی جتنی اورنگزیب عالمگیر پر ہوئی ہے۔
ہندو مؤرخین نے لکھا ہے کہ اورنگزیب ہندوئوں کا دشمن تھا، اس نے ہندوئوں پر ٹیکس لگائے، ان کو مسلمان بنانے کی کوشش کی، بڑے بڑے عہدوں کے حوالے سے ہندوئوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا؛ حتیٰ کہ ہندوئوں کے مذہبی معاملات میں مداخلت کرتا رہا۔ یہ وہ داستان ہے جو تقسیم ہند کے بعد بھارت کی نصابی کتابوں میں اورنگزیب عالمگیر کے متعلق پڑھائی جاتی ہے۔ 
اب آپ خود سوچیں کہ اگر بادشاہ کی سطح پر ہندوئوں کو جبری مسلمان بنانے کی پالیسی پر کبھی عمل ہوتا تو کیا ہندوستان میں ہندو، مسلمانوں سے تعداد میں چار گنا رہ سکتے تھے؟ منطق کی بنیاد پر ہی یہ الزام رد ہو جاتا ہے۔
اورنگزیب دور کی تاریخ دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ موصوف نے صرف ہندو عورتوں سے شادیاں وغیرہ نہیں کیں وگرنہ اکبر کے دربار میں جتنے منصب دار ہندو تھے، ان کی نسبت کئی گنا زیادہ ہندو منصب دار اورنگزیب کے دربار میں تھے۔اورنگزیب کی افواج کا کمانڈر انچیف بھی ہندو تھا۔ اس نے اپنا محکمہ خزانہ بھی دو ہندو شخصیات کے ذمے کر رکھا تھا اور جب مسلمان ان پالیسیوں پر اعتراض کرتے تھے تو اورنگزیب جواب میں شرعی حوالہ پیش کرتا تھا کہ عہدے کے لیے اس پر صحیح شخص تعینات ہونا چاہیے۔ اورنگزیب پر ہندوئوں کے مندر گرانے کا الزام آج تک بھارت میں بھی ثابت نہیں ہو سکا۔ پھر آپ سوچیں کہ ہندوستان پر کئی عشروں تک حکمران رہنے والا اورنگزیب اگر مندر گرانے پر اتر آتا تو کوئی مندر سلامت رہ سکتا تھا؟ غیر ملکی سیاحوں نے جو اورنگزیب کے دور حکومت میں ہندوستان آئے، واضح طور پر لکھا ہے کہ ہر ایک کو اپنے اپنے مذہب کے مطابق عبادت کی اجازت تھی۔اورنگزیب نے البتہ غیر مسلموں پر جو جزیہ عائد کیا تھا اس پر بہت تنقید ہوئی ہے حالانکہ موصوف نے مسلمانوں پر زکوٰۃ اور عشر کے جو شرعی ٹیکس عائد کئے تھے ان کا جزیے کی نسبت بوجھ بہت زیادہ تھا۔ جزیہ تو نسبتاً بہت معمولی ٹیکس تھا۔
اب آپ دیکھیں صحیح العقیدہ مسلمان ہونے کے ساتھ ساتھ اورنگزیب نے اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کیلئے اپنی سمجھ بوجھ کے حساب سے بہترین اقدامات کیے۔ اب مسئلہ یہ ہوا کہ موصوف کی سمجھ بوجھ اس نقطۂ نظر سے محدود نکلی کہ مستقبل کی کوئی منصوبہ بندی دکھائی نہیں دیتی۔ یہاں ان کا اقتدار ویسا ہی تھا جیسا دیگر مغل بادشاہوں کا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ کافی تاریخ دان کہتے ہیں کہ مغلوں کی سلطنت کے زوال کے بیج تو اورنگزیب سے بہت پہلے بوئے جا چکے تھے۔
میری یہ تحریر کسی طور پر تاریخ درست کرنے کی خاطر نہیں ہے۔ تاریخ میں کئی بڑی بڑی اور نامور شخصیات پائی جاتی ہیں جو اچھائیوں اور برائیوں کا مجموعہ تھیں اور ان کے دونوں پہلوئوں کی وجوہ بھی موجود ہیں۔ 
اکبر نے دین الٰہی جاری کیا تو مجدد الف ثانی ؒ نے اس کے خلاف تحریک چلائی۔ جس وقت اورنگزیب جوان ہو رہا تھا اس وقت وہ مجدد الف ثانی ؒکی تحریروں کا گرویدہ ہوگیا‘ اس کے بعد باقی تاریخ کا حصہ ہے۔ مذہب کے بارے میں اس کا کٹر رجحان ایک قدرتی امر تھا اور اس کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ لیکن اس کی ذاتی بہادری، پاک صاف کردار اور حکومت کرنے کی بے مثال صلاحیت ایسی باتیں ہیں جن کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ نصف صدی تک حکمران رہنا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ باقی جہاں تک تعلیمی میدان کا تعلق ہے تو اس میں اورنگزیب کا دور کیا پورے مغل دور حکومت میں کوئی وژن دکھائی نہیں دیتا۔ عمارتوں کے علاوہ کوئی اور چیز مغل دور کی یادگار کے طور پر موجود نہیں ہے۔ مغلوں کے تحت ہندوستان اس قابل ہی نہیں رہ گیا تھا کہ وہ یورپ کی فوجی اور ثقافتی برتری کے چیلنج کا مقابلہ کر سکے۔
مغلوں نے کسانوں پر بھاری ٹیکس عائد کئے تھے۔ وہ مقامی زبان استعمال نہیں کرتے تھے۔ انہوں نے تواپنی زبان متعارف کروائی اور اس میں مقامی آبادی کے لیے بوجھل الفاظ شامل کیے اور یہ سب اس کے باوجود تھا کہ وہ انگریزوں کی طرح دور دراز دارالحکومت سے کنٹرول نہیں ہوتے تھے بلکہ ان کا اوڑھنا بچھونا ہندوستان ہی تھا۔ یعنی یہاں رہتے ہوئے بھی بتیس دانتوں میں زبان کی طرح تھے۔
مغلوں کی ان کمزوریوں سے انگریزوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور پھر مغلوں کے اقتدار کی تاریخ سے یہ سبق حاصل کیا کہ ہندوستان میں رہنا نہیں ہے بس اس ملک کے وسائل کو برطانیہ منتقل کرنا ہے۔ مغلوں کے دور میں ہندوستان میں بہت اچھی کوالٹی کی مصنوعات تیار ہوتی تھیں مگر انگریزوں کے آتے ہی وہ ختم ہونے لگیں اور باہر سے درآمد پر زور رہا۔ مغلوں کو پتہ تھا کہ انہوں نے ہندوستان ہی میں رہنا ہے لہٰذا ان کو 1857ء کی جنگ لڑنا پڑی جبکہ انگریزوں کو شروع سے معلوم تھا کہ ایک دن گھر جانا ہے لہٰذا وہ 1947ء میں بغیر رسوا ہوئے یہاں سے نکل گئے۔قانون قدرت ہے کہ عمل اور ردعمل برابر ہوتے ہیں۔ اس قانون کو پس منظر میں رکھ کر تاریخی واقعات کا جائزہ لینا چاہیے۔ مغلیہ سلطنت کا جیسا عمل تھا ویساہی ردعمل ہوا۔ اورنگزیب عالمگیر کا جیسا عمل تھا ویسا ردعمل ہوا جبکہ عالمگیر خود بھی ایک ردعمل کی پیداوار تھا۔ اکبر اگر دین الٰہی کا پنگا نہ لیتا تو اس کے ردعمل میں اورنگزیب جیسا کردار سامنے نہ آتا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں