ہمارے عوام کی بھی عجیب قسمت ہے۔ ان کے پاس ووٹ تو ہے مگر پورے ملک میں کوئی سیاسی جماعت ایسی موجود نہیں جس پر وہ دل سے بھروسہ کر سکیں کہ واقعتاً ان کے مسائل حل کرے گی۔ ہمارے ووٹر پاکستان پیپلز پارٹی پر غور کریں تو ان کو مسلم لیگ ن بہتر لگنے لگتی ہے۔ مسلم لیگ ن پر غور کریں تو پاکستان تحریک انصاف اچھی لگنے لگتی ہے اور تحریک انصاف کی طرف بڑھیں تو عمران خان کی طرف سے ان کو بجلی کے ایسے جھٹکے لگتے ہیں کہ دوبارہ انہی جماعتوںپر غور کرنا پڑتا ہے جو بلاشبہ پاکستان کو محض نقصان ہی پہنچاتی رہی ہیں۔
جس طرح علامہ اقبال کی زندگی کی راتیں سوزوسازِ رومی اور پیچ و تابِ رازی کی کشمکش میں گزرتی تھیں، اسی طرح ہمارے عوام کی راتیں کبھی ایک جماعت کے سوزو ساز میں گزرتی ہیں، کبھی دوسری جماعت کے پیچ و تاب میں بسر ہوتی ہیں۔
دنیا ٹی وی کے ایک پروگرام میں ایک سندھی دیہاتی سے جب پروگرام کے میزبان کامران شاہد نے پوچھا کہ جب پیپلز پارٹی تمہارے علاقے کے مسائل حل نہیں کرتی تو پھر اس جماعت کو ووٹ کیوں دیتے ہو۔ اس دیہاتی نے پروگرام کے میزبان کی طرف ایک عجیب نظر سے دیکھا اور کہا ''تو بابا کیا کریں۔ اگر ان کو ووٹ نہ دیں تو کیا ووٹ کو کھا جائیں؟‘‘۔ اس سندھی دیہاتی کے جواب ہی میں ہمارے پورے پاکستانی عوام کا المیہ ہے۔ ہر کوئی سوچتا ہے کہ ان جماعتوں کے علاوہ کوئی اور آپشن ہی نہیں ہے تو کیا کریں۔ سچی بات یہی ہے جو واپڈا کے ایک سابق چیئرمین شمس الملک نے ایک روز دکھ بھری آواز میں کہی تھی۔ اس سوال کے جواب میں کہ جب کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے خلاف کوئی بھی دلیل ایسی موجود نہیں جو منطقی طور پر درست ہو تو پھر کیوں یہ ڈیم نہیں بن سکا۔ محترم شمس الملک کا کہنا تھا۔ ''ہمارے عوام کی کوئی لابی (Lobby) نہیں ہے‘‘۔
کیسی پتے کی بات ایک سچے پاکستانی کے منہ سے نکلی ہے۔ واقعتاً یہ حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں مختلف طبقوں کی لابیوں موجود ہیں۔ کوئی جاگیرداروں اور زمینداروں کی لابی ہے، کوئی تاجروں، صنعتکاروں اور دکانداروں کی لابی ہے، مختلف مافیاز کی اپنی اپنی لابیوں ہیں۔ بینکوں اور سرمایہ داروں کی اپنی لابی ہے۔ اسی طرح گنتے جائیں۔ اگر کوئی لابی نہیں ہے تو عوام کی کوئی بھی لابی نہیں ہے۔ ان کے مفاد کی بات حقیقی معنوں میں کوئی نہیں کرتا۔ سیاسی جماعتیں عوام کے مفاد کی باتیں محض کہتی ہیں۔ اپنے منشور میں لکھتی ہیں مگر کرتی وہی کچھ ہیں جن میں دیگر لابیوں کا مفاد ہوتا ہے۔ ہم زیادہ پرانی تاریخ میں نہیں جاتے، یہ جو سات برس پہلے ہماری نام نہاد جمہوریت بحال ہوئی اسی کے تحت ہونے والی حکمرانی کو دیکھ لیتے ہیں۔
زرداری صاحب پاکستان کھپے کا نعرہ لگا کر خدمت کے ایک نئے جذبے کا اعلان کر کے جو حکومت پر طاری ہوئے تو موصوف نے سب کو تارے دکھا دیے۔ جاتے جاتے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے کان میں پھونک مار گئے کہ یہ ریٹرننگ افسروں یعنی آر اوز کا الیکشن تھا۔ یہ بھی کہا کہ اگر مجھے ایسے آر اوز مل جاتے تو میں دوبارہ صدر بن جاتا۔
میں نے اپنی ریڈیو کی ملازمت کے دوران کافی الیکشن کوریج کی ہوئی ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ جب پریزائیڈنگ افسروں کی سطح پر مرتب ہونے والے نتائج کے مطابق آر اوز کے دفاتر سے نتائج جاری ہوئے تو کیسے کہا جا سکتا ہے کہ آر اوز کی سطح پر دھاندلی ہوئی۔ 1977ء کے انتخابات میں نیچے نتائج اور تھے اور اوپر کچھ اور تھے۔ 2013ء کے انتخابات میں بھی دھاندلی ضرور ہوئی ہو گی مگر وہ نچلی سطح پر ہوئی ہو گی۔ پتہ نہیں زرداری صاحب کو کس نوعیت کا الہام ہوا۔ پھر یہ بھی دیکھیں کہ ہمارے ہاں صدر کا انتخاب تو براہ راست ووٹروں کے ذریعے نہیں ہوتا۔ لہٰذا موصوف کا یہ کہنا کہ مجھے ایسے آر اوز مل جاتے تو میں دوبارہ صدر بن جاتا ایک ناقابل فہم بیان بن جاتا ہے۔ اگر ان کا مطلب تھا کہ پہلے وہ ان آر اوز کی مدد سے اسمبلیوں میں اکثریت حاصل کرتے اور پھر اس کے زور پر دوبارہ صدر بنتے تو یہ تو بہت ہی بالواسطہ قسم کی بات ہے۔
بہرحال میری رائے میں زرداری صاحب کا عمران خان کو یہ کہنا کہ یہ آر اوز کا الیکشن تھا، دراصل تحریک انصاف کے چیئرمین کو گمراہ کرنے کی ایک کوشش تھی جس میں وہ کافی حد تک کامیاب رہے۔
زرداری صاحب کے بعد محترم میاں نواز شریف برسر اقتدار آئے تو ان کی اب تک کی حکمرانی عوام دیکھ چکے ہیں۔ بجلی کے بارے میں ابھی تک منصوبوں کی خبریں ہی آ رہی ہیں اور راولپنڈی میں اربوں روپے سے میٹرو بس کھڑی بھی کر دی۔یہ پالیسی بالکل ایسی ہے کہ کسی کو کینسر کا مرض لاحق ہو اور اس مریض کی پلاسٹک سرجری کرتے رہیں۔
پاکستان میں پانی کا بحران آ سکتا ہے، لہٰذا اب لازماً ڈیم بننے چاہئیں۔ ذرا دیکھیں بجٹ میں اسحاق ڈار صاحب نے نئے ڈیموں کے لیے کتنی قلیل رقم رکھی ہے۔ صاف ظاہر ہے نیت ہی نہیں ہے۔ حالانکہ اگر ڈیم بن جاتے تو ہماری قدرتی گیس بھی بچ جاتی جو بجلی بنانے کے کام میں برباد کر دی گئی ہے۔ پاکستان کو سستے سفر کے لیے ریل کے اچھے نظام کی ضرورت ہے۔ اس بارے میں بس باتیں ہی باتیں ہیں۔ جب کبھی موقع آتا ہے تو انجن پل کو توڑ کر خود بھی دو ٹکڑے ہو جاتا ہے۔ ریلوے عشروں سے ہماری حکومتوں کے ہاتھوں برباد ہو رہی ہے۔
سٹیل مل ہے، پی آئی اے اور دیگر کئی ادارے ہیں، جن کو درست کرنے کی باتیں ہم سنتے ہی چلے آ رہے ہیں، ہوتا کچھ نہیں۔ ہمارے عوام کو جو سب سے بڑی تکلیف ہے وہ یہ ہے کہ ان کو انصاف نہیں ملتا۔ ان حکومتوں کی طرف سے بارہا کہا جاتا ہے کہ ہم تھانہ پٹواری کلچر ختم کر دیں گے مگر یہ محض سیاسی بیانات ہوتے ہیں۔ ہمارے عوام کو انصاف نہ ملنا ہمارے ملک میں سب مسائل کی جڑ ہے۔ اگر کوئی حکومت ایسی اصلاحات کرے کہ عوام کو عمومی طور پر انصاف ملنا شروع ہو جائے تو عام لوگوں میں تھانوں کی تھانیداری ختم ہو جائے اور پھر ہی دیانتداری کے کلچر کا آغاز ہو سکتا ہے۔ جن قوموں میں دیانتداری کا کلچر جڑ پکڑ جاتا ہے، ان کے دیگر مسائل بھی آہستہ آہستہ حل ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ دیانتداری کا کلچر ہی ایسی سیاسی جماعتوں کو جنم دیتا ہے جو عوام کو سکھ پہنچاتی ہیں اور وہ کام کرتی ہیں جن سے ملک وقوم صحیح معنوں میں ترقی کرے۔
اس پس منظر میں سوچیں کہ کیا ہمارے ہاں ایسی کوئی ایک بھی جماعت ہے؟۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ فوج کی طرف دیکھتے ہیں، وگرنہ نہ عوام کو شوق ہے کہ فوج حکومت میں آئے اور فوج کی بھی یہی کوشش اور خواہش ہے کہ سیاسی حکومتیں ہی سیدھے رستے پر آ جائیں۔ اس وقت دکھائی یہ دے کہ رہا ہے کہ عوام کی صحیح معنوں میں اگر کوئی لابی ہے تو وہ پاک فوج ہی ہے۔