مبالغہ آرائی اگرچہ انسان کی فطرت میں ہی کچھ حد تک موجود ہوتی ہے مگر بعض لوگ گپ لگانے اور ہوائی باتیں کرنے میں کچھ زیادہ آگے نکلے ہوتے ہیں۔ اس قسم کے کرداروں کی نفسیات کے بارے میں تو کوئی ماہر نفسیات ہی بتا سکتا ہے مگر میں اتنا جانتا ہوں کہ ایسے لوگ کسی وجہ سے مجبور ہوتے ہیں کہ وہ دیدہ دلیری سے ناقابل یقین باتیں بیان کرتے رہیں بھلے ان کی یہ گپ بازی ان کے لیے رسوائی کا سبب بنتی رہے۔ لاہور ریڈیو پر ہمارے ایک انائونسر ہوتے تھے جن کی گپیں بہت مشہور تھیں اور ان کا ذہن اس قدر تخلیقی تھا کہ ایسی بات کرتے تھے جو پورے ریڈیو سٹیشن میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل جاتی تھی۔
ایک مرتبہ اخبار میں خبر چھپی کہ نیپال میں آتشزدگی سے کسی علاقے میں درجنوں کے حساب سے مکان اور دکانیں جل گئیں۔ اب جناب صبح صبح یہ انائونسر اخبار ہاتھ میں لیے باہر ریڈیو سٹیشن کی سیڑھیوں پر افسردہ بیٹھے ہوئے ہیں۔ جو کوئی افسردگی کی وجہ پوچھتا‘ اس کو دکھ بھری آواز میں کہتے ''دیکھیے سم صاحب پورے نیپال میں اگر آگ لگنی تھی تو ہماری ہی پراپرٹی کو لگنی تھی۔سب کچھ خاک ہو گیا۔ انشورنس بھی نہیں کروا رکھی تھی‘‘ ۔ سم صاحب‘وہ سمجھے صاحب کے مخفف کے طور پر بولتے تھے اوریہ ایک طرح سے موصوف کا تکیہ کلام تھا۔
ایک روز ڈیوٹی پر آنے میں دیر ہو گئی تو دیر سے آنے کی وجہ یہ بیان کی کہ ریلوے کے انجن نیلام ہو رہے تھے۔ وہاں بولی دے کر تین انجن خرید لیے تھے ان انجنوں کو اپنے گودام پہنچانے کی وجہ سے دیر ہو گئی۔
اس قسم کی باتیں موصوف ایسے پکے منہ سے کرتے تھے کہ کسی کو ہنسنے کی یا مذاق اڑانے کی جرأت نہیں ہوتی تھی۔
انجن نیلامی والے دن کے بعد اگلے روز بھی موصوف جب دیر سے آئے تو انائونسروں کی میٹنگ میں ان سے سوال ہوا۔ ابھی موصوف اپنے ذہن میں کوئی نئی گپ تخلیق کر رہے تھے کہ ایک دوسرے انائونسر نے آواز لگا دی''اپنے کچن میں انجن مانجھ رہے تھے‘ جس کی وجہ سے دیر ہو گئی‘‘
اس کے بعد وہ ہنگامہ ہوا کہ آخر انچارج افسر کو میٹنگ ہی ختم کرنا پڑ گئی۔
اسی طرح ہمارے ایک سینئر پروڈیوسر ہوتے تھے جو بعد میں کافی بڑے عہدے تک پہنچ کر ریٹائر ہوئے۔ دنیا کا کوئی کام نہیں جو موصوف نے نہ کیا ہو۔ زرعی ماہر وہ تھے ۔ آئن سٹائن کا نظریہ ... چپڑاسیوں کو سمجھایا کرتے تھے‘ تقسیم ہند کے وقت جب ہجرت کر کے پاکستان آ رہے تھے تو راستے میں سکھوں کے حملے میں ایک ساتھی کی گردن کٹ گئی۔ موصوف چونکہ سرجری کے بھی ماہر تھے لہٰذا فرمایا کہ بڑے سائز کی سوئی اوردھاگے کی مدد سے گردن جوڑ دی۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ پسی ہوئی ہلدی کی مدد سے انہوں نے دھاگے کو Sterilizeکر لیا تھا۔ جب کوئی ایسی نظروں سے دیکھتا کہ اس کو یقین نہیں آ رہا تو فرماتے کہ وہ آدمی زندہ ہے۔ بیڈن روڈ پر کباب بیچتا ہے۔ جائو دیکھ لو۔ تھوڑی سی گردن ایک طرف ٹیڑھی ہے۔ پروگرام میٹنگ (Meeting) میں ایک مرتبہ فٹ بال کے کسی میچ پر رواں تبصرے کا ذکر آیا تو موصوف نے انکشاف کر دیا کہ انہوں نے فٹ بال کی امپائرنگ کا بین الاقوامی معیار کا کورس کیا ہوا ہے۔
ایک روز دوستوں کی محفل میں ہم چار پانچ ساتھی اس بارے میں بات کر رہے تھے کہ ان دونوں میں سے کون بڑا گپ باز ہے۔ کچھ انائونسر کے حق میں تھے اور کچھ سینئر پروڈیوسر کے حق میں تھے۔ فیصلہ نہ ہو سکا۔ بعدازاں قدرت کی طرف سے اس کا فیصلہ یوں ہو گیا کہ ایک روز ہمارے انائونسر ‘ سینئر پروڈیوسر کے کمرے سے یہ کہتے ہوئے باہر نکلے''سم صاحب ‘ بڑا ہی گپ باز آدمی ہے یہ‘‘۔
ہمیں نہیں معلوم کہ ہمارے سینئر پروڈیوسر بھائی نے کیا بات سنائی ہو گی کہ وہ انائونسر جو گپ لگانے کا بادشاہ تھا مجبور ہو گیا کہ اس سینئر پروڈیوسر کی برتری تسلیم کر لے۔
یہ اس دور کے قصے ہیں جب ہمارے پاکستان ٹیلی وژن کے پروگرام بڑے شوق سے دیکھے جاتے تھے۔ ایک ہی چینل تھا اور پھر پروگرام بھی کوالٹی کے ہوتے تھے۔ پی ٹی وی کے لیے مختلف لوگ جو ڈرامے وغیرہ لکھتے تھے ان میں میرا نام بھی شامل تھا۔ میں نے اپنے ریڈیو کے گپ بازوں کے بارے میں ٹی وی کے لیے ایک 25منٹ کا کھیل لکھا۔ جب یہ کھیل نشر ہوا تو ٹیلی وژن کے کچھ پروڈیوسروں نے جو ہمارے دوست تھے‘ یہ استفسار کیا کہ ٹیلی وژن کے گپ بازوں کا احوال آپ کو کس نے بیان کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ تو ہمارے سٹاف کے لوگوں کے قصے ہیں۔
گویا پی ٹی وی کے پاس بھی گپ بازوں کی اپنی بٹالین موجود تھی۔ٹی وی پر خاکے میں میں نے چونکہ فرضی گپیں شامل کی تھیں اور ان گپوں کو شامل کرنے سے گریز کیا تھا جن کی مدد سے ان گپوں کے مصنفین کی شناخت ہو جائے لہٰذا بعد میں بہت سے محکموں کے لوگوں کا کہنا تھا کہ ان کے ہاں بھی ایسے لوگ موجود ہیں۔
یہ گپ باز بیچارے تو اس قدر تخلیقی صلاحیتوں کے مالک ہونے کے باوجود کبھی کوئی عزت کا مقام نہ پا سکے لیکن ان سے ذرا مختلف کچھ لوگ ایسے ضرور ہوتے ہیں جو ادھر ادھر سے باتیں سن کے‘ پڑھے لکھے لوگوں کی محفلوں میں بیٹھ کے ہر فن مولا سے ہو جاتے ہیں۔
ریڈیو کی نوکری کے دوران ایسے لوگوں سے ہمیں اکثر واسطہ پڑتا رہتا تھا۔ یہ لوگ گفتگو میں تو آپ کو فوراً متاثر کر لیتے تھے مگر جب کبھی ان سے کہا جائے کہ کسی موضوع پر کوئی تحریر لکھ لائیں تو وہاں سے یہ لوگ بھاگ جاتے تھے۔ ان لوگوں کو ہم زبانی دانشور کہا کرتے تھے۔ ہمارے زمانے میں تو ان لوگوں کی کوئی خاص پذیرائی نہیں ہوتی تھی لیکن آج کل جو کچھ ہمارے الیکٹرانک میڈیا پر ہو رہا ہے اس میں ان ہر فن مولاقسم کے لوگوں کی خاصی مانگ ہے۔
دنیا کا کوئی موضوع نہیں جن پر ان لوگوں کو مہارت حاصل نہ ہو۔ سپریم کورٹ کوئی فیصلہ دے دے تو ان سے بڑا کوئی قانونی ماہر نہیں۔ ڈینگی کی وباء پھیلے تو ان سے بڑا کوئی میڈیکل ایکسپرٹ نہیں‘ سیاست میں تو یہ تمام ہی انتہائی ماہر ہوتے ہیں۔ حقوق انسانی ہو یا تاریخ انسانی ان کو سب پتہ ہوتا ہے۔ کسی نامور شخصیت کا انتقال ہو جائے تو ان میں سے ہر ایک اس نامور شخصیت کے سوانح پر مکمل عبور رکھنے کا مظاہرہ کرتا ہے‘ ملک میں پولیو کیوں ختم نہیں ہوا‘ اس کی وجوہ بھی یہ لوگ ایسے بیان کرتے ہیں کہ جیسے یہ ویکسین کی ایجاد ہے‘ اسامہ بن لادن ایبٹ آباد میں کیوں چھپا تھا ان کو سب معلوم ہے۔ گویا کوئی موضوع نہیں جس کے یہ لوگ ماہر نہ ہوں اور کھل کر اپنی آراء بیان نہ کرتے ہوں۔
اس پس منظر میں ان لوگوں کا لہجہ ایسا ہوتا ہے کہ خود اعتمادی ہر سانس میں جھلکتی ہے اور جھنجھلاہٹ اس بات پر محسوس کرتے ہیں کہ جب انہوں نے ایک بات فرما دی ہے تو آخر لوگ مانتے کیوں نہیں اور پھر جب انہوں نے ایک فیصلہ کن رائے دیدی ہے تو پھر کیا ضرورت رہ جاتی ہے کہ کسی اور سے رائے لی جائے۔
سوشل سائنٹسٹ کہتے ہیں کہ انحطاط پذیر معاشروں کی ایک پہچان یہ بھی ہوتی ہے کہ ان میں علم تک پہنچنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ درمیان میں جہالت کی رکاوٹیں ہوتی ہیں۔ اب آپ خود اندازہ لگا لیں کہ ہمارا معاشرہ کیا ہے۔ اور کس طرف رواں دواں ہے۔ ہمارے ہاں صاحب علم لوگ دبکے بیٹھے ہیں اور جعلی دانشوروں کی گفتگو روز سن کر زیر لب مسکرانے کے سوا اور کچھ نہیں کر سکتے۔
وطن عزیز میں جہالت کی اس قدر کثیر تعداد میں رکاوٹوں کے سب سے بڑے حامی ہمارے سیاستدان ہیں‘ ہمارے سیاستدان ہی ان ہر فن مولا قسم کے زبانی دانشوروں کے سرپرست ہیں۔ کیونکہ ہمارے سیاستدانوں کو نہ علم راس آ سکتا ہے اور نہ سچائی راس آ سکتی ہیں۔
اب تو ہو سکتا ہے کہ شیطان بھی دھوکہ دینے کا فن ہمارے سیاستدانوں سے سیکھتا ہو۔ آج ہمیں ایسی قیادت میسر آ جائے جو صحیح معنوں میں محب وطن ہو‘ علم کی قدر کرے‘ سچ کی قدر کرے اور ان مداری قسم کے دانشوروں کے ہاتھوں میں کھلونا نہ بنے تو چند برسوں ہی میں ہماری قوم کی قسمت سنور سکتی ہے۔ لیکن خبر نہیں اللہ کو کیا منظور ہے۔ ہم جہالت کی طرف اتنی تیزی سے سفر کر رہے ہیں کہ
نے ہاتھ باگ پر ہے‘ نہ پا ہے رکاب میں