ہمارے خطے میں خارجہ امور کے حوالے سے جتنی تبدیلیاں انتہائی تیزی سے واقع ہو چکی ہیں وہ اس امر کا تقاضا کرتی ہیں کہ پاکستان کی خارجہ حکمت عملی کا ازسر نو جائزہ لے کر نئے حالات کے مطابق ایسی پالیسی وضع کی جائے جو ہمارے قومی مفادات کا کماحقہ‘ تحفظ کر سکے۔ ہمارے سیاستدان عام طور پر تاثر یہ دیتے ہیں کہ خارجہ حکمت عملی پر ان کا کوئی کنٹرول نہیں ہے اور یہ کہ ملک کے دفاعی ادارے ہی خارجہ پالیسی مرتب کرتے ہیں۔ یہ تاثر حقیقت پر مبنی نہیں ہے۔ یہ درست ہے کہ ملک کے دفاعی ادارے ملکی خارجہ حکمت عملی پر گہری نظر رکھتے ہیں اور اگر کوئی اقدام ان کی نظر میں قومی مفادات کے خلاف ہونے جا رہا ہو تو وہ اس کو روکنے کے لیے سیاسی حکومت پر دبائو بھی ڈالتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ دفتر خارجہ کے مختلف شعبوں میں اور بیرون ملک ہمارے سفارتخانوں میں ملکی خارجہ پالیسی کے ضمن میں معمول کا تمام کام سیاسی حکومتوں ہی کے ذمے رہتا ہے۔
مثال کے طور پر بھارت کے ساتھ تجارت کے معاملے میں ابتدائی ہوم ورک اور مختلف سطحوں پر بات چیت سب سیاسی حکومت کی ہدایات پر ہوتی ہے؛ تاہم جب ایسا معلوم ہو کہ بھارت کو تو افغانستان اور وسطی ایشیا تک رسائی کی سہولت کی بات ہو رہی ہے اور جواب میں پاکستان کے تحفظات کو نظر انداز کیا جا رہا ہے تو پھر دفاعی اداروں کو آگے آنا پڑتا ہے۔اس عمل کو آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ خارجہ پالیسی دفاعی ادارے چلا رہے ہیں۔ہمارے ہاں جمہوریت کے بعض کم فہم پرستاروں کی طرف سے یہ سننے کو ملتا ہے کہ آخر فوج کا ان کاموں سے کیا تعلق ہے۔ ان لوگوں کا یہ تاثر ان کی کم علمی پر مبنی ہوتا ہے۔ اس وقت دنیا کے بڑے بڑے جمہوری ممالک میں ایک بھی ایسا نہیں جن کے ہاں ملک کے اور قومی سلامتی سے متعلق حساس ادارے اپنے اپنے ملکوں کی خارجہ حکمت عملی پر ایسا اثر و رسوخ نہ رکھتے ہوں کہ جس پالیسی کو چاہیں ویٹو کر دیں۔امریکہ جیسے ملک میں جس کو جمہوریت کا چمپئن کہا جاتا ہے‘ ملک کا صدر کچھ کر لے وہاں پینٹاگان اور سی آئی اے کے آگے بے بس ہوتا ہے۔ صدر اوباما نے جب اقتدار سنبھالا تو وہ اپنے انتخابی وعدے کے مطابق گوانتاناموبے کے جیل خانے کو بند کرنا چاہتے تھے مگر پینٹاگان نے اجازت نہیں دی۔ آج تک وہ جیل خانہ قائم ہے۔لہٰذا میری نظر میں ہماری سیاسی حکومت یہ کہہ کر نئے حالات میں خارجہ حکمت عملی کا ازسرنو جائزہ لینے کی ذمے داری سے بچ نہیں سکتی کہ سب کچھ تو دفاعی اداروں کے ہاتھ میں ہے۔
حکومت کی اس ضمن میں بے عملی کا پہلا ثبوت تو یہ ہے کہ وزیر اعظم نے خارجہ امور کا محکمہ اپنے پاس رکھا ہوا ہے اور کچھ غیبی وجوہ کے سبب وہ اہل شخصیت کو وزیر خارجہ کا منصب تفویض کرنے سے گریزاں ہیں۔دوسرے جن شخصیات سے خارجہ امور کی نگرانی کرائی جا رہی ہے ان کے لیے انگریزی میں Spent forcesکی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ محترم سرتاج عزیز صاحب جو ایک دور میں مالی امور کے ماہر سمجھے جاتے تھے پھر وزارت خارجہ کے نگران بھی رہے اب عمر کے اس حصے میں ہیں جس کے بارے میں ہر کوئی جانتا ہے کہ قویٰ مضمحل ہو جاتے ہیں۔ وہ مشیر خارجہ کے طور پر گزشتہ دو برسوں سے کام کر رہے ہیں اور ابھی تک صرف یہ تاثر مل رہا ہے کہ جو dynamismایک وزارت خارجہ کے نگران میں ہونا چاہیے وہ اس ہستی میں بالکل نہیں ہے۔
دوسرے صاحب طارق فاطمی صاحب ہیں۔ وہ دیکھنے میں سرتاج عزیز صاحب سے عمر میں کچھ کم لگتے ہیں مگر مجھے یاد ہے کہ جب میں اسیّ کے عشرے میں امریکہ میں ایک ادارے میں ملازم تھا‘ یہ ان دنوں امریکہ میں پاکستانی سفارتخانے میں انتہائی سینئر افسر کے طور پر جانے جاتے تھے اور اُن کی ریٹائرمنٹ قریب تھی۔ اب ان کی عمر کا بھی آپ خود اندازہ کر لیں۔ طارق فاطمی صاحب کے ایک چھوٹے بھائی ریڈیو پاکستان میںکنٹرولر ہوتے تھے‘ وہ تقریباً بیس برس پہلے ساٹھ سال کی عمر پوری کر کے ریٹائر ہو گئے تھے۔
ہمارے ملک کے خارجہ امور سے متعلق یہ دونوں شخصیات انتہائی عمر رسیدہ ہونے کے ساتھ ساتھ اخباری رپورٹوں کے مطابق ایک دوسرے کے ساتھ اس انداز میں نہیں چلتے کہ ہم آہنگی کا تاثر مل سکے۔ ہم آہنگی نہ ہو تو چیلنجز سے کیسے نمٹا جا سکتا ہے؟ افغانستان کے ساتھ ہمارے تعلقات میں نشیب و فراز آ رہے ہیں۔ ایران اور امریکہ کے مابین جوہری معاہدے کے بعد ہمارے ہمسائے میں کیا کچھ ہونے جا رہا ہے‘ یمن کے تنازعے کے پس منظر میں مشرق وسطیٰ کے کئی ملک ہم سے دل ہی دل میں ناراض ہیں۔ متحدہ عرب امارات کے ایک وزیر نے پہلے دھمکی آمیز بیان داغ دیا اور اب متحدہ عرب امارات نے ہمارے ازلی دشمن بھارت کے اُس وزیر اعظم کی میزبانی کی جو مسلمانوں کا قاتل مشہور ہے۔ عوامی جمہوریہ چین کے تعاون سے جو راہداریاں ہم بنا رہے ہیں اس کے خلاف سازشوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ان حالات میں ہماری حکومت کو ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں اور خارجہ حکمت عملی کو نئی شکل دینی چاہیے۔
دنیا کے مختلف ملکوں میں ایسے پاکستانی موجود ہیں جو عالمی سیاست پر گہری نظر بھی رکھتے ہیں اور عالمی سطح پر حالات حاضرہ کے میدان میں سکالر مانے جاتے ہیں۔ ملک کے اندر بھی ایسے لوگ موجود ہیں‘ ان سے مدد لی جا سکتی ہے۔ابھی حال ہی میں اقوام متحدہ میں مستقل پاکستانی مندوب کے طور پر ریٹائر ہونے والے مسعود خان جیسے لوگ بھی موجود ہیں۔ مسعود خان جب وزارت خارجہ کے ترجمان ہوتے تھے تو آپ کو یاد ہو گا کہ ان کی شخصیت کی وجہ سے یہ منصب کس قدر باوقار دکھائی دیتا تھا۔ہمارے ہاں انسانی وسائل کی کوئی کمی نہیں‘ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کوئی تلاش میں نہیں نکلتا۔دنیا کے حالات پر نظر ڈالیں تو اب وہ پرانا زمانہ نہیں رہا کہ ایک اجلاس منعقد کیا‘ اس میں کچھ باتیں طے کیں اور پھر مہینوں ان پر عملدرآمد ہوتا رہا۔ آج کل کے حالات تقریباً روزانہ کی بنیاد پر اپنے اقدامات پر پیش رفتوں کا جائزہ لینے کا تقاضا کرتے ہیں تاکہ اپنے اہداف حاصل کرنے کے لیے اپنے اقدامات کی روز بروز Fine Tuningکی جا سکے۔ ایسے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے کہ خارجہ امور کے میدان میں ہماری سیاسی حکومت نے جو ٹیم بنا رکھی ہے وہ بہت قابل احترام ہے مگر اسی طرح قابل احترام ہے جیسے چیف الیکشن کمشنر کے طور پر فخر الدین جی ابراہیم تھے۔ ان کے زیر سایہ جیسے انتخابات ہوئے وہ سب کے سامنے ہیں۔
خطے میں تیزی سے جو تبدیلیاں ہو چکی ہیں وہ ہمارے ملک کے لیے ایک ایسا چیلنج بن چکی ہیں جس کی ماضی میں مثال موجود نہیں ہے‘ لہٰذا ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے حکومت کو بھی ایک بے مثال نئی ٹیم کا اہتمام کرنا چاہیے اور یہ کہہ کر ذمے داری سے بچنانہیں چاہیے کہ ان کے تو اختیار میں ہی کچھ نہیں ہے۔