ہمارے ہاں جو سیاسی منظر ابھر رہا ہے اس کو دیکھ کر خوف محسوس ہونے لگا ہے۔ پوری دنیا کے جمہوری معاشروں میں ملکی سالمیت کی ضمانت ملک میں موجود کم از کم دو ایسی سیاسی جماعتیں فراہم کرتی ہیں جو پورے ملک کی نمائندہ ہوتی ہیں۔ ہمارے ہاں کچھ عرصہ پہلے تک مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی یہ کردار ادا کر رہی تھیں بلکہ پی پی پی کو تو چاروں صوبوں کی زنجیر بھی کہا جاتا تھا۔
تحریک انصاف کی سیاسی میدان میں بھرپور آمد سے یہ امید بندھی تھی کہ یا تو اب ملک میں تین ایسی جماعتیں ہو جائیں گی جو پورے ملک کی نمائندگی کی دعوے دار ہوں گی یا کم از کم دو جماعتیں تو لازماً رہ جائیں گی جو قومی جماعتیں ہوں گی۔ اب ظاہر ہوا ہے کہ پیپلز پارٹی تو صوبہ سندھ تک محدود ہو گئی اور اس جماعت کی بھی کوئی ایسی کوشش دکھائی نہیں دیتی کہ وہ دوسرے صوبوں میں اپنی کھوئی ہوئی سیاسی حیثیت دوبارہ حاصل کر رہی ہو۔ صرف تمنائوں اور امیدوں کا اظہار ہوتا ہے جو بے معنی بات ہوتی ہے۔
دوسری طرف حکمران جماعت مسلم لیگ ن ہزار دعوے کرے مگر پنجاب سے باہر اس جماعت کا وجود برائے نام ہے لیکن پھر بھی بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں تھوڑی بہت موجودگی اس جماعت کو قومی جماعت بنا دیتی ہے۔ اب باقی جماعتوں کا حال دیکھ لیں۔ متحدہ قومی موومنٹ سندھ ہی میں ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی خیبرپختونخوا ہی میں ہے۔ مذہبی جماعتوں کی مختلف صوبوں میں موجودگی تو ہے مگر ان کو قومی جماعتوں کا درجہ حاصل نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ پاکستان میں عوام کی اکثریت کی کبھی نمائندہ نہیں رہیں اور نہ ہی مستقبل میں اس کا کوئی امکان ہے کہ یہ ماضی کی پیپلز پارٹی کی طرح یا مسلم لیگ ن کی طرح کبھی بن پائیں گی۔ تحریک انصاف بھی خیبرپختونخوا اور پنجاب ہی میں ہے۔
کالم کے شروع میں ،میں نے جس سیاسی منظر سے خوف کی بات کی ، وہ منظر ہمارے صوبہ سندھ میں پیدا ہو رہا ہے۔ اس صوبے میں دیہی علاقوں میں پیپلز پارٹی اور شہری علاقوں میں ایم کیو ایم ہے۔ باقی وہاں جتنی جماعتیں ہیں، ہر چند کہیں کہ ہیں، نہیں ہیں۔اس صورتحال میں لازمی امر ہے کہ ان دونوں جماعتوں کا ایک نہ ایک دن ایسا سیاسی اتحاد بن جائے گا جو کسی بھی مرکزی حکومت کو کام نہیں کرنے دے گا۔
اس وقت تو کراچی میں رینجرز نے امن و امان قائم کرنے میں خاصی کامیابی حاصل کر لی ہے اور مزید کوششیں بھی ہو رہی ہیں مگر رینجرز کوئی سیاسی جماعت تو نہیں ۔ ان کو ایک روز تو شہر کا انتظام پولیس کے حوالے کرنا ہو گا۔ اس صورت حال سے بچنے کی ایک صورت تھی کہ پاکستان تحریک انصاف کراچی میں کم از کم ایک اہم سٹیک ہولڈر بن جائے۔ اس کے امکانات پیدا ہوئے بھی تھے لیکن اس جماعت کو ایسا ریورس گیئر لگا کہ یہ پیچھے ہی پیچھے چلی جا رہی ہے۔ یہ سیاسی منظر ہمارے ملک کے بڑوں کے لیے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔
سندھ سے جو یہ خبریں آ رہی ہیں کہ اب جرم کرنے والوں کے ساتھ ساتھ ان کے سہولت کاروں کو بھی پکڑا جائے گا جس سے واضح اشارہ ملتا ہے کہ وہاں متحدہ قومی موومنٹ اور پیپلز پارٹی کے بعض رہنما بھی گرفت میں آ سکتے ہیں۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ اس حد تک جانے سے پہلے، ہماری اسٹیبلشمنٹ حکمران جماعت کی حوصلہ افزائی کرے کہ وہ پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ سے الگ الگ مذاکرات کر کے صوبے کو مستقبل میں سیاسی طور پر پُرامن بنانے کی راہ ہموار کرے۔
اس وقت پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم دونوں، حکمران جماعت کے ساتھ مستقبل کے کسی بھی ایسے انتظام پر بخوشی مذاکرات پر آمادہ ہو جائیں گی جس کے تحت امن کی ضمانت فراہم ہو اور بدعنوانی کی روک تھام بھی ہو سکے۔
متحدہ قومی موومنٹ کے حوالے سے جو کچھ بھی گزشتہ مہینوں کے دوران سامنے آیا ہے اور جس وجہ سے وہ جماعت عتاب کا شکار ہے، اس بارے میں یہ بات بھولنی نہیں چاہیے کہ اس جماعت کی اکثریت نہیں بلکہ شاید پچانوے فیصد سے بھی زیادہ وہ لوگ جو اس جماعت کو ووٹ ڈالتے ہیں اور وہ اسی طرح محب وطن پاکستانی ہیں جس طرح ہم آپ ہیں۔ مٹھی بھر لوگوں کی بداعمالیوں کی سزا سو فیصد کو دینا کسی طور درست نہیں۔
اس جماعت کو ایک محب وطن جماعت سمجھ کر اس سے مذاکرات ہونے چاہئیں اور اس جماعت کے عسکریت پسند ونگ نے ایک زمانے میں جو کراچی کو یرغمال بنا رکھا تھا، اس بارے میں باہمی رضا مندی سے ایسا لائحۂ عمل طے ہونا چاہیے کہ پھر ماضی والی صورت حال نہ بن پائے۔ مذاکرات طویل اور تکلیف دہ ہوسکتے ہیں مگر یہ بات نا ممکن نہیں ہے۔
اسی طرح پیپلز پارٹی کے بارے میں بھی یہ تاثر درست نہیں ہے کہ یہ محض بدعنوانوں پر مشتمل ہے۔ ذرا سوچیں اندرون سندھ میں بھاری تعداد میں جن لوگوں نے پیپلز پارٹی کو ووٹ دیئے ہیں کیا وہ غریب لوگ بدعنوان ہیں؟ بدعنوان تو ان کے لیڈروں میں ہیں جو اب بھاگے پھر رہے ہیں۔ انہیں خوفزدہ کرنے، انہیں بھگانے سے یا ان کے خلاف مقدمے چلانے سے مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہوں گے۔
طریقہ وہی ہے کہ اس جماعت کی مرکزی قیادت کے ساتھ بھی مذاکرات ہونے چاہئیں اور اس جماعت کے کاریگروں نے جو لوٹ مچا رکھی تھی اس کو پس منظر میں رکھ کر مذاکرات کئے جائیں اور ایسا لائحۂ عمل طے کیا جائے کہ کوئی دوبارہ لوٹ مار کا بازار گرم نہ کر سکے۔ یہ مذاکرات بھی طویل اور تکلیف دہ ہی ہوں گے مگر یہ بھی نا ممکن نہیں ہیں۔
ہماری اسٹیبلشمنٹ کو اور ہماری حکمران جماعت کو بھی یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ سیاسی جماعتیں لیڈروں سے زیادہ ان لوگوں کی ملکیت ہوتی ہیں جو ان جماعتوں کو ووٹ دیتے ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ پر جتنا حق ان لوگوں کا ہے جو اس کو ووٹ دیتے ہیںاتنا حق کسی کا بھی نہیں۔ اسی طرح پیپلز پارٹی پر بھی حق اس کو ووٹ دینے والوں کا قائدین کی نسبت بہت زیادہ ہے۔تاریخ سے سبق یہی ملتا ہے کہ مسائل کا حل صرف بات چیت ہی میں ہے۔
فوجی آپریشن بھی بعض اوقات وقت کی ضرورت بن جاتے ہیں جیسا کہ کراچی میں ہوا۔ اب وہاں پر معاملات بات چیت سے حل ہونا چاہئیں۔ اگر کسی کا خیال ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ کو سیاسی جماعت کے طور پر ختم کیا جا سکتا ہے یا اس کی قیادت کو زور زبردستی بدلا جا سکتا ہے یا پھر باہر سے دبائو ڈال کر اس کو ٹکڑے کیا جا سکتا ہے تو یہ محض خام خیالی ہے۔
پیپلز پارٹی کا بھی یہی حال ہے۔ جنرل ضیاء الحق نے پیپلز پارٹی کو بے اثر بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا لیکن موصوف کو ناکامی ہوئی۔ لہٰذا ہوش مندی کا تقاضا ہے، کہ ماضی کے اسباق دہرانے اور غلطیوں کا اعادہ کرنے کے بجائے، طاقت اور آپریشن کی جگہ، کسی مختلف آپشن پر بھی غور کر لیا جائے۔ یہ آپشن اس کے سوا اور کوئی نہیں ہو سکتا کہ دونوں جماعتوں پی پی پی اور ایم کیو ایم سے مذاکرات کئے جائیں۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ مذاکرات یا مصالحتی کوششیں بارآور نہ ہوں تو بھی، ملک کی سلامتی اور قوم کی یکجہتی کو کوئی گزند نہیں پہنچتا۔!