"ARC" (space) message & send to 7575

ڈاکٹر فقیر محمد سے ایک انتہائی مختصر ملاقات

بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ آپ کی کسی شخصیت سے کسی کام کے سلسلے میں مختصر سی ملاقات ہوتی ہے۔ برسوں بعد بھی وہ مختصر سی ملاقات آپ کے حافظے میں اس طرح محفوظ ہوتی ہے جیسے کل کی بات ہو۔ میری رائے میں یہ صرف اور صرف اس شخصیت کا اعجاز ہوتا ہے جس سے آپ کی بوجوہ مختصر ملاقات ہوئی ہوتی ہے۔
ریڈیو کی اپنی سروس کے دوران میں مجھے ایسی مختصر ملاقاتوں کے بہت سے تجربات ہوئے کیونکہ جس دور میں ریڈیو میں پروڈیوسر تھا یہ ادارہ ہر ایک کی مرکز نگاہ بنا ہوا تھا۔ ٹی وی نے ابھی اپنا سکہ نہیں جمایا تھا۔ لہذا ہماری قومی زندگی کی بڑی شخصیات بڑی خوشی سے ریڈیو کے پروگراموں میں شرکت کے لیے تشریف لاتی تھیں۔ پروڈیوسروں کا کام ایسا ہوتا ہے کہ ایک پروگرام پیش کیا تو ساتھ میں دوسرا پروگرام سر پر سوار ہو جاتا ہے لہذا ہوش ہی نہیں ہوتا کہ کیسی کیسی شخصیات آتی ہیں ‘پروگرام ریکارڈ کرتی ہیں اور چلی جاتی ہیں۔ تاہم اس ذہنی افراتفری میں بھی بعض شخصیات سے ہوئی مختصر ملاقاتیں حافظے میں محفوظ ہو جاتی ہیں اور جیسا میں نے کہا یہ اُن شخصیات کا اعجاز ہوتا ہے۔
اس حوالے سے اپنی ایک یادداشت پیش کرتا ہوں۔
1971ء کے اوائل میں کراچی ریڈیو سے ٹرانسفر ہو کر میں لاہور ریڈیو پہنچا تو مجھے تقریروں کا شعبہ ملا جس میں ماضی کی اہم شخصیات کی برسیوں پر پروگرام کرنے شامل تھے۔ بابا بلّھے شاہ کا عرس آ رہا تھا اور اس موقع پر بابا بلّھے شاہ کے بارے میں ایک تقریر نشر ہونا تھی۔ میں بالکل نیا پروڈیوسر تھا لاہور میں۔ میں نے اپنے ایک ساتھی محترم عبدالشکور بیدل سے مشورہ کیا۔ ان کی شہرت اُن کا موسیقی کا علم تھا۔ بھارتی میوزک ڈائریکٹر خیام کے وہ بھائی تھے اور سلطان باہو کا کلام اُس دُھن میں گاتے تھے جس کی نقل کر کے موسیقی کے فنکار اقبال باہو نے شہرت پائی تھی۔ ہم لوگ چونکہ موصوف سے کچھ چھیڑ چھاڑ بھی کر لیتے تھے لہٰذا پہلے تو وہ سمجھے کہ میں مذاق کر رہا ہوں۔ لیکن میری سنجیدگی دیکھ کر انہوں نے مشورہ دیا کہ اگر زبردست تقریر کروانی ہے تو پھر گوجرانوالہ سے ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کو بُک کر لو۔ میں نے اُنہیں گوجرانوالہ کنٹریکٹ بھجوا دیا۔ اس زمانے میں ٹیلی فون کا رواج بہت کم تھا۔ ڈاک کے ذریعے ہی ایسے کام انجام پاتے تھے۔ چند دن بعد ڈاکٹر صاحب نے کنٹریکٹ دستخط کر کے بھجوا دیا۔
جس روز موصوف نے ریڈیو ریکارڈنگ کے لیے آنا تھا اس روز میں دفتر پہنچا اور اپنے کمرے میں جانے کے بجائے میٹنگ ہال میں گیا جہاں روزانہ صبح ہماری میٹنگ ہوتی تھی۔ میں اس طرف جا رہا تھا کہ ایک سازندہ جو میرے کمرے کی طرف آ رہا تھا‘ مجھے دیکھ کر بولا : ''اک شرمیلا جیا بابا تہاڈے کمرے وچ بیٹھا ہویا اے‘‘ یعنی ایک شرمیلا سا بابا آپ کے کمرے میں بیٹھا ہے۔ 
میں واپس مڑا اور کمرے کی طرف چل دیا۔ وہاں میں نے دیکھا کہ انتہائی دبلا شخص شلوار قمیض پہنے آنکھوں میں اس انداز کا سرمہ لگائے جو لوگ سنت نبویؐ سمجھ کر انتہائی وضاحت سے لگاتے ہیں اور عمر رسیدہ ہونے کے باوجود دیکھنے اور بات کرنے ایسا حیادار انداز کہ مجھے اس سازندے کے جملے کی داد دینی پڑی‘ یہ ڈاکٹر فقیر محمد فقیر تھے۔ پنجابی ادب میں ان کا انتہائی اہم نام تھا مگر طبیعت میں نام کی رعایت سے فقیری نمایاں تھی۔ تقریر کا مسودہ انہوں نے بچوں کے سے انداز میں تھاما ہوا تھا۔میں نے مسودہ اُن سے لیا۔ اس غرض سے کہ ایک نظر دیکھ لوں اور پھر ڈاکٹر صاحب سے گزارش کروں گا کہ وہ انتظار کریں اور میں میٹنگ سے ہو کر آتا ہوں۔
مگر ہوا یہ کہ میں نے مسودہ پڑھنا شروع کیا تو پہلے جملے ہی سے دلچسپی بڑھنا شروع ہو گئی۔ تھوڑی دیر بعد میں اُس تحریر میں اس قدر گم ہو گیا کہ مجھے میٹنگ میں جانے کا ہوش بھی نہ رہا۔ کوئی سات آٹھ منٹ میں میں نے وہ مسودہ ختم کیا تو مجھے سمجھ میں نہیں آتا تھا میں کیا کہوں۔
ڈاکٹر صاحب اپنے شرمیلے لہجے میں بولے۔ ٹھیک ہے نا‘ کچھ طویل تو نہیں‘ میں نے کہا : بہترین ہے۔ ساتھ ہی میں سوچ رہا تھا کہ ایک ایسی کمال کی تحریر لکھنے والے شخص کو اگر میں یہ کہوں کہ وہ انتظار کریں اور میں میٹنگ سے ہو کر آتا ہوں تو یہ اُس مسودے کی بھی توہین ہو گی۔ لہذا میں نے میٹنگ میں جانے کا ارادہ ترک کر دیا۔ ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ چلیں اس کو ریکارڈ کر لیتے ہیں۔ اُن کو ساتھ لے کر میں سٹوڈیو پہنچا۔ موصوف کو سٹوڈیو میں بٹھایا اور کنٹرول روم میں جا کر ایک انجینئر کی خوشامد کر کے اس کو ریکارڈنگ پر رضامند کیا اور تقریر ریکارڈ کر لی۔ سٹوڈیو سے نکلتے ہوئے میں نے مسودہ ڈاکٹر صاحب سے لے لیا تو ساتھ ہی مجھے یہ احساس ہوا کہ وہ مسودہ مجھے دینا نہیں چاہتے تھے۔ میں نے عرض کی کہ یہ تو ریڈیو کے ریکارڈ کا حصہ بن چکا ہے۔تھوڑی دیر خاموش رہے اور بولے مجھے کچھ دیر کے لیے دے دیں میں اس کی ایک نقل بنا لیتا ہوں۔ اس زمانے میں فوٹو کاپی مشینیں متعارف نہیں ہوئی تھیں اور ریڈیو میں بھی کاپسٹوں کی یعنی مسودے کی نقل کرنے والوں کی فوج ملازم تھی۔ میں نے کہا آپ کو انتظار کرنا پڑے گا میں اپنے کاپسٹ سے نقل بنوا دیتا ہوں۔ کاپسٹ (Copyist) ریڈیو میں عجیب مخلوق ہوتے تھے۔ جس طرح دھوبی کو کپڑے دیں تو وہ یہ کہتا ہے کہ دو دن بعد آ کر لے جائیں۔ ان کا انداز بھی یہی ہوتا تھا۔ میں نے کاپسٹ سے گزارش کی کہ مہمان آئے ہوئے ہیں اُن کو ضرورت ہے مگر انہوں نے کام گنوانا شروع کر دیا۔ دیکھیں جی اس ہفتے ڈرامہ تاریخی ہے۔ ستائیس کاپیاں بن رہی ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔
ڈاکٹر صاحب میرے ساتھ ہی کھڑے تھے۔ میری کوشش کو سراہا اور بے بسی کو سمجھ گئے۔ بولے آئیے آپ کے کمرے میں چلتے ہیں۔ کمرے میں انہوں نے کاغذ مجھ سے لے لیے اور قلم اپنا نکالا اور مسودے کو نقل کرنے لگے۔ میں نے چائے منگوائی۔ پیالی بنا کر اُن کے سامنے رکھی۔ معلوم نہیں ایک گھونٹ بھی پیا کہ نہیں میں نے توجہ نہیں دی۔ لوگ میرے کمرے میں آتے رہے جاتے رہے۔ ڈاکٹر صاحب کی توجہ اپنے کام پر رہی۔ چہرے پر وہی معصومیت تھی اور لگتا تھا کہ انتہائی اہم کام کر رہے ہیں۔
اس طرح نقل کر کے انہوں نے نقل اپنے پاس رکھ لی اور وہ مسودہ جو گوجرانوالہ سے لائے تھے مجھے دے دیا۔ میں نے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں نقل ہی کو بطور اصلی مسودے کے ریکارڈ میں جمع کروا سکتا ہوں۔ بولے نہیں : یہ آپ ہی کے لیے لکھا تھا۔ جس وقت وہ بیٹھے مسودے کی نقل بنا رہے تھے میں نے اکائونٹس سیکشن میں جا کر اپنی ذمہ داری پر اُن کا چیک حاصل کیا۔ جس وقت ڈاکٹر صاحب جانے کے لیے اٹھے تو میں نے چیک اُن کی خدمت میں پیش کیا اور وائوچر پر اُن کے دستخط لیے تاکہ اکائونٹس سیکشن کا ریکارڈ مکمل رہے۔
اگلے روز جب ڈاکٹر صاحب کی تقریر ریڈیو پر نشر ہوئی تو میرے ساتھی پروڈیوسروں نے مجھے کہا کہ ڈاکٹر فقیر محمد فقیر آئے تھے؟ میں نے کہا : ہاں! سب نے شکوہ کیا‘ یار ہمیں بتا دیتے۔ ان کے ساتھ نشست ہی ہو جاتی۔ مجھے بھی بعدازاں اس بات کا افسوس ہی رہا۔ اب دیکھیں یہ چھیالیس سال پرانا واقعہ ہے اور اس تفصیل میں‘جو میرے ذہن میں محفوظ ہے ‘ میرے حافظے کا کمال کم ہے اور ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کی شخصیت کا زیادہ ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں