"ARC" (space) message & send to 7575

انگریزی سیکھنے کے مراحل

انگریزی زبان نے جس انداز میں ہمارے ملک پر قبضہ جما رکھا ہے وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ بچپن سے میں سنتا آیا ہوں کہ قومی زبان اور مادری زبان کی بہت اہمیت ہوتی ہے مگر عملی طور پر ہمیشہ یہی دیکھا کہ جس کو انگریزی آتی ہے اس کو معلوم ہوتا ہے سُرخاب کے پرلگے ہوتے ہیں۔ میری ابتدائی تعلیم اُردو میڈیم میں ہوئی تھی۔ اسلامیہ ہائی سکول بھاٹی گیٹ سے میں نے 1960ء میں میٹرک کیا تھا۔ اب یہ سکول علی ہجویری ؒ کے مزار سے ملحق تعمیرات میں شامل ہے۔ یعنی اس سکول کو گرا کر وہاں قوالی کا میدان وغیرہ بنا دیے گئے ہیں۔ سکول کے دِنوں میں میری ملاقات جب اُن لڑکوں سے ہوتی تھی جو انگریزی سکولوں میں پڑھتے تھے تو بہت احساس کمتری کا شکار ہو جاتا تھا۔ کچھ دیگر دوست بھی ایسا ہی محسوس کرتے تھے۔ اس احساس کو ختم کرنے کے لیے ہم دوستوں نے طریقہ یہ اختیار کیا کہ مغربی دنیا سے جو سیاح لاہور آتے تھے، ہم اُن سے میل جول بڑھاتے اور اُن سے ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں گفتگو کر کے انگریزی بولنے کی کچھ کچھ صلاحیت حاصل کر لیتے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب بڑی بھاری تعداد یہ سیاح جن کو ہم لوگ Hippies کہتے تھے افغانستان کے راستے یہاں آتے تھے اور یہاں سے یہ بھارت نیپال وغیرہ جاتے تھے۔ ان میں سے اکثر سیاح انتہائی غریب ہوتے تھے اور چرس وغیرہ کے شوقین بھی ہوتے تھے۔ کچھ اِن سیاحوں میں پیسے والے بھی ہوتے تھے۔ جو غریب قسم کے سیاح ہوتے تھے اُن سے تو ہم ایسے شوقیہ گفتگو کرتے اور اپنی دانست میں انگریزی سیکھتے رہتے تھے۔ اگر کوئی نسبتاً آسودہ حال سیاح مل جاتا تو اس کو ہم پورے لاہور میں ساتھ لیے پھرتے تھے۔ بعض دوستوں کی انگریزی کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ مال روڈ پر میرا ایک دوست تیز تیز چلتا ہوا آیا اور اس نے کہا کہ توپ کے پاس دو گورے بیٹھے ہیں اور وہ سکھ ہیں۔ توپ سے مراد وہ زمزمہ توپ ہے جو عجائب گھر لاہور کے سامنے یا شاید نیشنل کالج آف آرٹس کے سامنے سڑک پر نصب ہے۔ مجھے یہ سن کر بہت حیرت ہوئی کہ گورے لوگوں میں بھی سکھ مذہب والے موجود ہیں۔ میرا دوست میرے پاس اس وجہ سے آیا تھا کہ میں کچھ بہتر انگریزی بول اور سمجھ لیتا تھا۔ میں نے جب وہاں جا کر اُن سیاحوں سے گفتگو کی تو معلوم ہوا کہ وہ کہہ رہے تھے کہ we are sick۔ یعنی ہم بیمار ہیں۔ میرا دوست سمجھا کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ ہم سکھ ہیں۔ یہ عالم تھا بعض دوستوں کے انگریزی کے علم کا۔ بہرحال اُن دونوں سیاحوں کو ہم میوہسپتال لے گئے تھے اور ڈاکٹروں کے حوالے کر دیا تھا۔
ہاں تو میں ذکر کر رہا تھا جو پیسے والے سیاح ہمیں ملتے اُن کو شہر بھر میں لیے لیے پھرتے تھے۔ اور جو وہ فرمائش کرتے اسے پورا کرنے کی کوشش کرتے۔ ایک مرتبہ ایسے ہی ایک سیاح نے فرمائش کی کہ وہ پاکستانی ڈانس دیکھنا چاہتا ہے۔ ہم لوگ سوچ میں پڑ گئے کیا کریں۔ ہم سب کی عمریں بہت کم تھیں۔ ہیرا منڈی سے گزرے تو کئی مرتبہ تھے کیونکہ وہ راستہ بادشاہی مسجد اور منٹو پارک کو جاتا تھا مگر وہاں مجرا وغیرہ کیسے ہوتا ہے، معلوم نہیں تھا۔ یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ یہ لوگ دن کے وقت تو سوئے ہوتے ہیں۔ راتوں کو جاگتے ہیں اور تماش بین وغیرہ آتے ہیں۔ خیر ہم اس مالدار سیاح کو لے کر ہیرامنڈی چلے گئے۔ میرا ایک دوست جو اندرون بھاٹی گیٹ رہتا تھا، ہمت کر کے آگے بڑھا اور ایک گھر کی سیڑھیاں چڑھ گیا۔ ہم بھی پیچھے پیچھے تھے۔ وہ آخری سیڑھی پر تھا۔ ایک عورت آنکھیں ملتی ہوئی آئی اور پوچھنے لگی کیا بات ہے؟ میرے دوست نے کہا کہ یہ انگریز ہے یہ ڈانس دیکھنا چاہتا ہے۔ اس عورت نے سیاح کو دیکھا اور پوچھا، اس کے پاس پیسے بھی ہیں۔ میں نے اس سیاح سے کہا۔ وہ پوچھ رہی ہے تمہاری پاس پیسے بھی ہیں کیونکہ ڈانس دیکھنے کی فیس ہوتی ہے۔ سیاح بولا ہاں اور جیب پر ہاتھ بھی مارا اس عورت نے ہمیں اوپر بلا لیا اور ساتھ ہی ایک چھوٹے سے بدبودار کمرے میں بٹھا دیا جس میں نیچے پُرانا قالین اور اِدھر اُدھر تکیے پڑے ہوئے تھے۔ تمباکو کی بو تھی۔ پان دان بھی پڑے تھے مگر دیواروں پر پان کی پیک کے نشانات بھی تھے۔ ہم وہاں بیٹھے تھے اور اندر سے آوازیں آرہی تھیں۔ سمجھ میں یہ آرہا تھا کہ عورت کسی دوسری عورت کو جگا رہی ہے اور اسے یہ کہہ کر ڈانس کرنے پر آمادہ کر رہی ہے کہ انگریز آیا ہے تیرا ڈانس دیکھنے۔ کوئی دس منٹ انتظار کرنے کے بعد ایک پچیس تیس برس عمر کی لڑکی آئی۔ وہ عورت جس سے ہماری گفتگو ہوئی تھی وہ ایک ڈھولکی لے کر خود ہی بیٹھ گئی۔ کہنے لگی اس وقت سازندے نہیں ہوتے۔ اُس عورت نے کوئی پنجابی گانا شروع کیا ساتھ ڈھولکی بجائی اور وہ لڑکی ناچنے لگی۔ اُن دونوں کی ساری توجہ گورے سیاح کی طرف تھی۔ میرا خیال ہے دوسرا گانا جب ختم ہوا تو وہ سیاح بولا کہ بس، اب چلتے ہیں۔ میں نے اس عورت سے کہا کہ بس اب بند کر دو۔ اس نے اشارہ کیا کہ پیسے۔ میں نے سیاح سے کہا کہ وہ پیسے مانگ رہی ہے۔ سیاح نے اپنا بٹوہ نکالا اور اس میں سے پانچ روپے کا نوٹ نکال کر اس عورت کو دیا ۔ہمیں نہیں اندازہ تھا کہ وہ سیاح اس قدر کنجوس ہے۔ ہم تو سب خاموش ہو گئے۔ اس عورت کو بہت غصہ آیا۔ وہ گورے انگریز کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی۔ صاحب! ٹین ٹین، ٹونٹی ٹونٹی۔ غالباً بیچاری کو اتنی ہی انگریزی آتی تھی، وہ گورا انگریز سہم سا گیا۔ اس نے پھر بٹوہ نکالا اور اس میں سے دس دس روپے کے دو نوٹ نکال کر اس عورت کو دیے۔
ہم لوگ سب تو اس صورتحال میں بہت سنجیدہ بیٹھے تھے لیکن وہ ناچنے والی لڑکی مسلسل مسکرا رہی تھی۔ جب ہم اُٹھ کے جانے لگے توہ وہ لڑکی بولی ''ایہہ کتھوں کنگلا انگریز پھڑ لیائے او۔ میری ساری نیند خراب کر دتی اے‘‘۔ یعنی تم لوگ کہاں سے یہ کنگال قسم کا انگریز پکڑ لائے ہو۔ اس کی وجہ سے میری ساری نیند خراب ہو گئی ہے۔
خیر ہم وہ سیڑھیاں اتر کر باہر آ گئے اور پھر اس سیاح کو شاہی قلعہ دکھانے لے گئے۔ باہر آکر ہم نے اس سے پوچھا کہ ڈانس کیسا تھا۔ وہ بولا It was not bad. but expensive۔ یعنی ڈانس بُرا نہیں تھا مگر مہنگا تھا۔ اگرچہ اس زمانے میں پچیس روپے کی کافی اہمیت تھی لیکن غالباً ہیرامنڈی میں نمائش بینوں کی شاہ خرچیوں کے مقابلے میں انتہائی معمولی رقم تھی۔
یہ واحد مجرا ہے جو میں نے پوری زندگی میں دیکھا۔ اُس کمرے کا اب بھی کبھی میں تصور کرتا ہوں تو طبیعت منغض ہو جاتی ہے۔ چار پانچ برس سیاحوں سے میل جول کا میرا یہ معمول رہا اور سیاحوں سے میل جول کرتے کرتے کم از کم بولنے کی حد تک انگریزی کافی بہتر ہو گئی۔ پھر جب میں اسلامیہ کالج ریلوے روڈ میں انٹرمیڈیٹ کا طالب علم تھا اور وہاں میرے ایک دوست نے مجھے Erle Stanley Gardner اور James Headley Chase کے ناول پڑھنے کو دیے، فکشن کی یہ کتابیں ایسی دلچسپ لگیں کہ میں اِن کا دیوانہ ہو گیا۔ ڈکشنری اپنے پاس رکھ کر پڑھتا رہتا تھا۔ ساتھ ہی ہمارے کورس میں ایک کتاب تھی An approach to English Literature، یہ کمال کی کتاب تھی۔ آج تک مجھے جتنی بھی انگریزی آتی ہے وہ بنیادی طور پر اس کتاب اور پھر Gardner اور Chase کے ناولوں کی وجہ سے ہے۔
1960ء کے عشرے میں جو میں نے اپنے معاشرے میں انگریزی زبان کی اہمیت دیکھی اور اس کو سیکھنے کے لیے کیسے کیسے جتن کیے، وہی صورتحال انگریزی کے حوالے سے اب بھی موجود ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اب جو نوجوان اپنے تعلیمی اداروں میں انگریزی سیکھتے ہیں اُن کا علم زیادہ تر بولنے کی حد تک ہوتا ہے۔ انگریزی زبان میں دنیا بھر کا جو بہترین ادب موجود ہے یا انتہائی اہم سوانح عمریاں موجود ہیں یا پھر اسلامی تفسیر کی کتابیں سمیت دیگر علوم کی جو بے مثال کتابیں پائی جاتی ہیں اُن تک ہمارے آج کے نوجوان پہنچ نہیں پاتے۔ لہٰذا جس سمت میں رواں دواں ہیں وہ تباہی کی طرف جاتی ہے۔ مادری زبانوں اور قومی زبان کا جو حال ہمارے ہاں ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اس صورتحال میں جو دانشور یہ کہتے ہیں کہ بحیثیت قوم ہمارا مستقبل تابناک ہے اُن کی عقل پر حیرت کا اظہار ہی کیا جا سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں