"ARC" (space) message & send to 7575

ریڈیو کے بچھڑے ساتھی

کچھ لوگ ہوتے ہیں جو بھلے معمولی عہدے پر ہوں مگر جس ادارے میں ہوتے ہیں اس کی پہچان بن جاتے ہیں۔ ایسی ہی شخصیت ہمارے اعجاز حسین ٹیپ لائبریرین تھے جو گزشتہ جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب خالق حقیقی سے جا ملے۔ ہمارے ریڈیو کے ایک ریٹائرڈ کنٹرولر اعظم خاں نے مجھے جمعہ کی صبح یہ اطلاع دی کہ ہمارا ''جاجی‘‘ اب اس دنیا میں نہیں۔ جاجی اُن کا پیار کا نام تھا۔ اعجاز حسین انتہائی معمولی تنخواہ پر 1965ء کی پاک بھارت جنگ سے قبل کچا ملازم ہوا۔ ریڈیو کی سائونڈ لائبریری میں اُس دور میں ٹیپس تو کم ہوتی تھیں وہ گول توے جیسے ریکارڈ زیادہ ہوتے تھے۔ جس روز بھارت نے لاہور پر حملہ کیا۔ اعجاز حسین صبح کے وقت ریڈیو سٹیشن پر موجود تھا اور جوش جذبات میں صبح خود ہی ملی نغمے اور جنگی ترانے نشر کرنے شروع کر دیئے حالانکہ کیوسٹیٹ میں کوئی اور آئٹم درج تھے۔ سٹیشن ڈائریکٹر شمس الدین بٹ جب دفتر پہنچے تو انہوں نے اعجاز حسین کو شاباش دی۔ اس کے بعد اعجاز حسین کی نوکری بھی پکی ہو گئی اور اس کا نام ہر موسیقی کے فنکار کے لب پر رہنے لگا۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ جو موسیقی نشر ہوتی تھی اس کو شیڈول کرنے کی ذمہ داری اگرچہ پروڈیوسروں کی ہوتی تھی مگر عملاً یہ کام اعجاز حسین کرتا تھا۔ برسوں ٹیپ لائبریری میں کام کرنے کی وجہ سے اعجاز کو موسیقی کے علاوہ جو دیگر پروگرام لائبریری میں موجود ہوتے تھے اُن سب کا علم ہوتا تھا۔ بعد میں کیسٹ کا زمانہ آ گیا تو وہ بھی اعجاز کے لیے چیلنج تھا۔ لیکن اس کو کیسٹوں پر موجود میٹریل بھی حفظ ہو گیا تھا۔ فرمائش ہو‘ کسی خصوصی دن کا پروگرام ہو‘ لوک گیت ہوں‘ قوالیاں ہوں‘ کلاسیکی موسیقی ہو‘ اِن سب پروگراموں کی شیڈولنگ میں مرکزی کردار اعجاز حسین کا تھا۔ جو پوری زندگی ریڈیو کی خدمت کر کے ریٹائرڈ ہوا تو پھر کنٹریکٹ پر ملازم رکھ لیا گیا۔ آخرکار جب کمپیوٹر کا زمانہ آیا تو اعجاز کی اہمیت بھی کم ہو گئی اور سپریم کورٹ نے بھی ریٹائرڈ لوگوں کو دوبارہ ملازمت دینے کی حوصلہ شکنی کا حکم جاری کیا تو اعجاز حسین فارغ ہو گئے۔ بس چند سال ڈانواں ڈول رہے اور پھر دنیا چھوڑ گئے۔
ہمارے ایک ساتھی ہوتے تھے عنایت انجم۔ وہ ڈرامہ آرٹسٹ تھے مگر جگت بھی کمال کرتے تھے۔ عنایت انجم کا کہنا تھا کہ نشاط انجم کے سکوٹر ایڈوانس کی رقم کا ان کے افسر نے ایک رجسٹر کھولا ہوا ہے۔ جتنی خرچ ہو جاتی ہے روز اس میں درج کر کے نیچے بقیہ ٹوٹل لکھ لیتے ہیں اور اگر نشاط انجم لیت و لعل سے کام لے تو رجسٹر اس کو دکھا دیتے ہیں۔
بہرحال نشاط انجم بیچارہ یہ سب کچھ برداشت کرنے کے باوجود بھی کبھی اپنے اس افسر کے خلاف نہیں بولا۔ یہی دھیما اور صبر کرنیوالا مزاج نشاط انجم کا کام کے حوالے سے بھی تھا۔ تخلیقی کام کرنے پر زور بہت دیتے تھے اور اس حوالے سے ریڈیو ڈرامہ نگار نواز کے پنجابی ڈرامے ''شام رنگی کڑی‘‘ کا اکثر حوالہ دیا کرتے تھے۔ نشاط انجم کے جنازے اور چہلم میں کافی لوگ گئے مگر ان کے جس افسر کا میں نے ذکر کیا ان کا جب انتقال ہوا تو ان کے بیٹے نے مبینہ طور پر یہ شکوہ کیا کہ میرے باپ نے زندگی بھر ریڈیو کی نوکری کی مگر ان کے جنازے میں شرکت کے لیے ایک شخص بھی ریڈیو سے نہیں آیا۔ کیوں نہیں آیا۔ میں نے اوپر جو تحریر کیا ہے اس سے آپ سمجھ گئے ہوں گے۔
چند ماہ پہلے میں نے اپنے ایک کالم میں جو منیر نیازی کے متعلق تھا اپنے ریڈیو کے ایک سینئر ساتھی اسلام شاہ کا محض ذکر کیا تھا۔ اس کے بعد مرحوم کی اہلیہ نے مجھ سے رابطہ کر کے مرحوم نے اپنی پوری زندگی میں جو مضامین اور کتب لکھی تھیں وہ مجھے بھجوا دیں۔ اتنا کچھ چھپا ہوا دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی کہ اسلام شاہ صاحب نے کب یہ وقت نکالا ہو گا۔ میں ان کے جس معمول سے واقف تھا وہ تو یہ تھا کہ وہ دفتر کے بعد اور بعض اوقات دفتری اوقات میں بھی سائیکل پر مختلف تقریبوں میں شرکت کرتے تھے۔ حلقہ ارباب ذوق ہو‘ پنجابی ادبی سنگت ہو یا اسی قسم کا جلسہ جلوس ہو شاہ صاحب وہاں موجود ہوتے تھے۔ میرا خیال ہے شہر میں جتنی ان کی واقفیت تھی کم ہی کسی کی ہو گی۔ پھر ایسا کام جو ناممکن ہو وہ بھی بعض اوقات کر گزرتے تھے۔ چوہدری ظہور الٰہی کو جب قتل کیا گیا تو مجھے حکم ملا کہ گجرات جائو اور وہاں جنازے پر لوگوں کے انٹرویو کر کے اور پھر واپس آ کر تعزیتی پروگرام بنائو جو رات کو قومی نشریاتی رابطے پر نشر ہو گا۔ میں نے سٹیشن ڈائریکٹر سے درخواست کی کہ اسلام شاہ صاحب کو ہمارے ساتھ بھیج دیں۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ شاہ صاحب چوہدری شجاعت حسین اور ان کے خاندان سے ذاتی تعلقات رکھتے تھے۔ سب اُن کو پہچانتے تھے۔ سٹیشن ڈائریکٹر مان گئے۔ ہم دو گاڑیوں میں انجینئروں کی ایک ٹیم اور اسلام شاہ کے ہمراہ گجرات پہنچ گئے۔ وہاں اسلام شاہ صاحب چن چن کر اہم لوگوں کو گھیر کر میرے پاس لاتے جہاں ہم نے ریکارڈنگ کا انتظام کر رکھا تھا۔ انٹرویو کرواتے پھر دوسرے اہم شخص کو پکڑ لاتے۔ چوہدری شجاعت حسین مسلسل رو رہے تھے۔ اسی حالت میں شاہ صاحب نے ان کو انٹرویو دینے پر راضی کر لیا۔
شاہ صاحب اسلامیات کے مضمون میں ایم اے تھے مگر ان کے مضامین اور تصنیفات زیادہ تر موسیقی سے متعلق ہیں۔ لیکن جس طرح ہمارے ہاں موسیقی کی بے قدری ہے اسی طرح موسیقی پر لکھنے والوں کی ہے۔ لیکن موسیقی کے فن کار شاہ صاحب کی بہت عزت کرتے تھے۔ جس مضمون میں ایم اے کیا تھا اس کے علم کی شاہ صاحب کی یہ حالت تھی کہ ایک روز سنٹرل پروڈوکشن یونٹ پر میرے کمرے میں فیروز نظامی مرحوم بیٹھے تھے۔ جیب سے ہومیوپیتھی کی دوائی نکال کر پھانک رہے تھے۔ شاہ صاحب بھی وہاں آ گئے۔ حضرت علیؓ کے یوم شہادت کا پروگرام زیر بحث تھا۔ فیروز نظامی نے حضرت علیؓ کی شان میں کچھ کلمات کہے تو شاہ صاحب گویا ہوئے ''دیکھیں جی بڑی فتوحات تھیں حضرت علیؓ کی‘ درہ خیبر تک تو وہ آ گئے تھے‘‘ شاہ صاحب کو بتایا گیا کہ وہ قلعہ خیبر یہ نہیں بلکہ وہ عرب میں تھا۔ تو کہنے لگے میں مذاق کر رہا تھا۔ سب نے یہ بات سن لی۔ مانی کسی نے نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں