میں جب جون انیس سو اڑسٹھ میں ریڈیو پاکستان کراچی میں پروگرام پروڈیوسر تعینات ہو کر بندر روڈ پر واقع ریڈیو کراچی کے دفتر پہنچا تو یہ مقام کراچی کا کئی لحاظ سے مرکز کہلاتا تھا۔ اس دور میں بندر روڈ کا نام ابھی محمد علی جناح روڈ نہیں ہوا تھا اور اس پر ٹرام بھی چلتی تھی۔ ریڈیو میں فرائض کی انجام دہی اس بات کی متقاضی تھی کہ تقریبات کی کوریج کیلئے جگہ جگہ جایا جائے۔ اس طرح کراچی کو دیکھا تو اس شہر سے عشق ہو گیا۔ اگرچہ میں لاہور سے گیا تھا اور لاہور میں ہی میری پرورش ہوئی تھی‘ تعلیم بھی لاہور ہی میں مکمل کی تھی اور پھر لاہور پر بڑا فخر بھی تھا کہ '' لہور لہور اے‘‘ لیکن کراچی کے مناظر نے مجھے سب کچھ بھلا دیا۔
ریڈیو کراچی اس وقت شہر کا ثقافتی مرکز بھی تھا۔ شاعر، ادیب، مصور، موسیقار غرض آرٹ کے تمام شعبوں کی نامور شخصیات کا اس عمارت میں آنا جانا ایک معمول تھا۔ مختلف کمروں میں مہمان جمع ہوتے تھے۔ معروف شاعر احمد ہمدانی بھی انائونسرز کے شعبے کے انچارج تھے، ان کے کمرے میں ادبی محفل سجی ہوتی تھی اور سلیم احمدجیسی نامور ادبی شخصیت وہیں مل سکتی تھی۔ حالانکہ سلیم احمد ڈرامہ سیکشن کے سٹاف آرٹسٹ تھے لیکن اُدھر ان کا جانا شاید مہینے میں ایک آدھ مرتبہ ہوتا ہو‘ جب کوئی ڈرامے کا مسودہ دینا ہو یا رضی اخترشوق جو کہ سینئر ڈرامہ پروڈیوسر تھے‘ ان سے کچھ ڈسکس کرنا ہو۔
ایک کمرہ سعید نقشبندی مرحوم کا ہوتا تھا جو نیشنل ہک اَپ پروگراموں کے انچارج تھے۔ ان کے کمرے میں ایڈورڈ کریپلی اٹ (Edward Carepielitte) بیٹھتے تھے جو انگریزی پروگراموں کے انائونسر اور میزبان تھے اور ان کا انگریزی زبان کا تلفظ سند کی حیثیت رکھتا تھا۔ وہ مغربی موسیقی کا پروگرام بھی پیش کرتے تھے۔ اس رعایت سے بھی مغربی موسیقی کے دلدادہ وہاں ملتے تھے، اور پھر سعید نقشبندی صاحب کی واقفیت شاید سارے ہی کراچی سے تھی۔ ان سے ملنے والوں میں سیف اللہ خان‘ جن کو نادر ریکارڈنگز جمع کرنے کا شوق تھا‘ بھی دیکھے جاتے تھے اور شہر کے نامور صحافی بھی، حتیٰ کہ بعض بنگالیوں سے بھی ان کی گہری دوستی تھی۔
پھر ایک کمرہ یاور مہدی کا تھا۔ وہ یونیورسٹی پروگرام کے انچارج تھے۔ اس پروگرام کو بزم طلبہ کے نام سے نشر کیا جاتا تھا۔ یاور مہدی کا کمرہ کیا تھا کراچی یونیورسٹی کی ایک شاخ تھی۔ یونیورسٹی کا بہترین ٹیلنٹ وہاں پایا جاتا تھا۔ پروین شاکر نے سب سے پہلے بزمِ طلبہ کے پروگراموں میں حصہ لے کر میڈیا میں تعارف حاصل کیا تھا۔ یہ ایک جھلک ہے اس عمارت کے ماحول کی‘ جو شاید کُل کا ایک فیصد بھی نہ ہو۔ میں چونکہ اس دور کی کراچی کو یاد کر رہا ہوں اس لئے دیگر ہستیوں کا ذکر پھر سہی۔ تو جناب جس طرح لاہور میں پاک ٹی ہائوس ہے‘ اسی طرح کراچی میں ذیلن(Zelin)کافی ہائوس تھا جہاں ادبی بیٹھک جمتی تھی ۔میری اپنی تو کوئی ادبی حیثیت نہیں تھی لیکن ریڈیو کی وجہ سے بیشتر اہم شخصیتوں سے شکل آشنائی تھی۔ نام جان بوجھ کر نہیں لکھ رہا‘ اس لیے کہ کالم ختم ہو جائے گا مگر نام ختم نہیں ہوں گے۔
وہاں ہم دوستوں کا ایک گروپ بن گیا تھا، ہم لوگ وقت ملنے پر کبھی برنس روڈ کے کباب کھانے جاتے‘ کبھی صابر کے ہوٹل کی نہاری کھاتے، چھوٹے سموسے‘ جو اب لاہور میں عام ہیں‘ میں نے پہلی مرتبہ کراچی میں دیکھے تھے۔ ریڈیو سیکشن سے ہم پیدل ہی صدر کراچی چلے جاتے تھے۔ وہاں کی صاف ستھری سڑکیں، ٹھنڈی ٹھنڈی ہواعجب لطف دیتی تھی۔ میں لیاقت آباد‘ جس کو لالو کھیت کہتے ہیں‘ کے قریب سرکاری فلیٹوں میں سے ایک فلیٹ میں کافی عرصہ رہا۔ اگرچہ دارالحکومت اسلام آباد شفٹ ہو چکا تھا لیکن کافی بنگالی ابھی ان فلیٹوں میں رہتے تھے۔ ریڈیو سٹیشن پر بھی نیوز سیکشن میں باقاعدہ ایک بنگالی زبان کا شعبہ تھا، جہاں سے قومی نشریاتی رابطہ پر بنگلہ زبان میں خبریں شارٹ ویو ٹرانسٹرز کے ذریعے مشرقی پاکستان پہنچتی تھی اور وہاں کے سٹیشن ان خبروں کوچلایا کرتے تھے۔ بنگالیوں کی کافی تعداد کراچی کو منی پاکستان بنا دیتی تھی۔
کبھی کبھی رات کو ہم لوگ کلفٹن چلے جاتے تھے۔ سمندر کے کنارے بیٹھنے کا لطف ہی اور تھا۔ دن بھر کی تھکن دور ہو جاتی تھی۔ نئی نئی بستیاں آباد ہو رہی تھیں۔ ان دنوں نیو کراچی بن رہا تھا اور لوگ وہاں رہنا شروع ہو گئے تھے، پھر فیڈرل بی ایریا میں تعمیرات آگے کی طرف بڑھتی جا رہی تھیں۔ بھارت اور پاکستان کے تقریباً سبھی علاقوں کے لوگ کراچی میں رہ رہے تھے اور شناخت صرف ایک تھی کہ پاکستانی ہیں۔ لڑائی جھگڑا ہوتا میں نے نہیں دیکھا۔ لوگ اس جلوس کو بہت کوستے تھے جو گوہر ایوب کی قیادت میں نکلا تھا اور جس میں گولی چلی تھی؛ اگرچہ صدر ایوب خان کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ ان دنوں جاری تھا مگر مجموعی طور پر شہر پُرامن تھا۔
اس دور کے کراچی کی اور بھی بے حساب خوبیاں تھیں جن کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ میں نے دل میں سوچ لیا تھا کہ اگر رب کو منظور ہوا تو اس شہر کو اپنی مستقل رہائش گاہ بنائوں گا۔ انتہائی ملنسار لوگ، دفتر میں اکثر دوپہر کا کھانا مجھے کوئی نہ کوئی ساتھی زبردستی اپنے ساتھ بٹھا کر کھلا دیتا تھا۔ ''ارے تم مہمان ہو ہمارے‘‘ یہ جملہ میں اکثر سنتا تھا اور خوشی بھی محسوس کرتا تھا اور دوستوں اور ساتھیوں کے اخلاق کا گرویدہ بھی ہو چکا تھا۔ پھر یوں ہوا کہ میرا تبادلہ لاہور ریڈیو سٹیشن ہو گیا۔ میں نے اس تبادلے کیلئے بہت شروع میں خود درخواست دے رکھی تھی جس کو میں بھول چکا تھا۔
خیر‘ کراچی چھوڑ کر میں لاہور آیا اور پھر لاہور میں کئی برس کام کرنے کے بعد میری ریڈیو ہی کی طرف سے وائس آف امریکا کی اُردو سروس میں سلیکشن ہو گئی۔ پانچ برس واشنگٹن میں رہنے کے بعد واپس پاکستان آیا تو میرا سامان کراچی پورٹ ٹرسٹ پہنچنا تھا اور مجھے لاہور سے خود جا کر کسٹم ڈیوٹی ادا کرکے سامان لاہور لے کر آنا تھا۔ اس فرض سے میں جب 1989ء میں کراچی پہنچا تو میرے عزیز دوست ضیاء السلام زبیری، دوست محمد فیضی سمیت کئی پرانے ساتھی ملے۔ ان کے چہروں پر نہ تو وہ بشاشت تھی جو میں چھوڑ کر گیا تھا اور نہ ہی آنکھوں میں بے فکری تھی جو میں نے ساٹھ کی دہائی میں ہر کراچی والے کی آنکھ میں دیکھی تھی۔ زبیری بھائی کے ساتھ میں گاڑی میں جا رہا تھا تو تازہ ہوا کی خاطر میں نے دروازے کا شیشہ نیچے کیا تو زبیری بھائی نے فوراً واپس چڑھا دیا۔ میری حیرت دیکھ کر بولے: بھائی شیشہ کھلا رہا اور گاڑی کسی سگنل پر رکی تو ایک ٹی ٹی پستول والا ہاتھ وہاں سے نمودار ہو جائے گا‘ آگے تم خود سمجھدار ہو۔ یقین کریں‘ کراچی کی یہ صورت دیکھ کر دلی صدمہ ہوا۔
پھر دو ہزار تین میں مَیں وائس آف امریکا کے زیرِ انتظام ایک کانفرنس میں شرکت کیلئے کراچی گیا تو صورتحال اور بھی زیادہ خراب ہو چکی تھی۔ دوستوں سے ملاقاتوں میں شہر کے بارے میں ایک بھی حوصلہ افزا بات سننے کو نہ ملی۔ اب جو کراچی کی حالت ہے‘ وہ اخباروں اور ٹی وی چینلز کی خبروں سے پتا کر لیں۔