"ARC" (space) message & send to 7575

کمزور انتظامی فیصلوں کا حشر

پرویز مشرف صاحب نے اپنے دورِ اقتدار میں ''سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا نعرہ لگایا تھا۔ اس وقت اس نعرے کی بہت شہرت کی گئی مگر یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ ایسے ہی ایک سیاسی نعرے کی ضرورت جنرل ضیاء الحق کو بھی محسوس ہوئی تھی۔ اس نوعیت کے مواد کی تشہیر کیلئے ان کے مشیرجنرل مجیب الرحمن تھے جو ریڈیو اور ٹی وی کی کارپوریشنوں کے چیئرمین بھی تھے۔ انہوں نے جو نعرہ مشہور کرنے کی کوشش کی تھی وہ نعرہ تھا '' میں پاکستان ہوں‘‘ اس سلسلے میں ریڈیو پر جو ہدایات موصول ہوئیں‘ وہ یہ تھیں کہ اہم شخصیات سے اس عنوان کے تحت تقاریر نشر کرائی جائیں۔ہمارا ہیڈ کوارٹر اس ہدایت کے بارے میں بہت سنجیدہ تھا۔ ظاہر ہے کہ ان پر وزارت کی طرف سے دبائو تھا۔ لاہور کو چونکہ ثقافت کے لحاظ سے کافی اہمیت دی جاتی ہے‘ اس لیے لاہور ریڈیو کو کہا گیا تھا کہ وہ اس سلسلے کا آغاز کرے۔ یہاں میں یہ بات واضح کر دوں کہ ریڈیو کے حوالے سے میں وہی باتیں لکھتا ہوں جن سے میرا براہِ راست تعلق رہا۔ اس پروجیکٹ کی ذمہ داری بھی مجھ پر ڈالی گئی تھی‘ اس لیے اس کی تفصیلات مجھے یاد ہیں۔
اس حوالے سے جس دانشور‘ ادیب یا شاعر سے بات کرتے‘ وہ حیرت کا اظہار کرتا۔ ان سب کا استدلال تھا کہ بھئی! میں کیسے کہہ سکتا ہوں کہ میں ''پاکستان‘‘ہوں‘ میں تو پاکستانی ہوں‘ پاکستان میرا وطن ہے۔ جس نوعیت کے جوابات ہمیں ملتے رہے‘ ہم وہ اپنے ہیڈ کوارٹر بھیجتے رہے مگر ہیڈ کوارٹر کی طرف سے جواب آتا کہ مزید لوگوں سے رابطہ کریں اور ساتھ ہی ایک دن بھی متعین کر دیا گیا کہ اس روز تقاریر کے نئے سلسلے ''میں پاکستان ہوں‘‘ کا آغاز ہوگا۔ سوچا اب تو کچھ نہ کچھ کرنا ہی ہوگا۔
اگر کسی کام کے سلسلے میں احمد ندیم قاسمی (مرحوم) کے پاس کبھی جانا ہوتا تو اکثر وہ مایوس نہیں کرتے تھے۔ بہت مصروف رہتے تھے لیکن پھر بھی وقت نکال لیا کرتے تھے۔ اس سلسلے کے لیے بھی میں ڈرتے ڈرتے ان کی خدمت میں حاضر ہو گیا۔ میری درخواست سن کر یک دم خلافِ توقع ہلکے سے غصے میں آ گئے اور بولے: گویا اِس نوں متشکل کرن دی کی ضرورت اے۔ میں کیا جواب دیتا‘ اجازت لی اور واپس آ گیا۔ میرے سٹیشن ڈائریکٹر نے کہا: بھائی کچھ کرو۔
ریڈیو سٹیشن پر کام کرتے کرتے بعض دانشوروں‘ شاعروں سے دوستیاں بھی ہو جاتی تھیں اور ان سے بے تکلف بھی ہم بولتے تھے۔ ایسے میں ہمارے محترم ڈاکٹر منیر الدین چغتائی تھے جو اس زمانے میں پنجاب یونیورسٹی کے پرو وائس چانسلر تھے مگر مجھ سے بے تکلفی اس وقت سے تھی جب وہ پولیٹیکل سائنس ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ ہوتے تھے اور میں یونیورسٹی پروگرام کا انچارج تھا۔ ان دنوں میرے پروگرام میں ہر ہفتے ڈاکٹر صاحب کا ایک لیکچر ہوتا تھا۔ سٹوڈنٹس کچھ وہ ساتھ لے آتے تھے‘ کچھ میں بلا لیتا تھا۔ ان حالات میں جبکہ ہم '' میں پاکستان ہوں‘‘ پر تقریر کروانے کے مسئلے میں جتے ہوئے تھے‘ مجھے خیال آیا کہ ڈاکٹر منیر الدین چغتائی کے پاس چلتے ہیں اور ساری کہانی سناتے ہیں‘ شاید کوئی حل نکل آئے۔
ان کا دفتر اس وقت یونیورسٹی کے اولڈ کیمپس میں ہوتا تھا۔ ہم ایک انجینئر اور ایک ٹیپ ریکارڈر بھی ساتھ لے گئے۔ وہ بڑی محبت سے ملے‘ میں نے جلدی جلدی ساری کہانی سنا دی اور کہا کہ ڈاکٹر صاحب مجھے نہیں پتا! آپ کچھ حل نکالیں۔ وہ سوچ میں پڑ گئے اور تھوڑی دیر بعد بولے: بھئی قصیدے کے حوالے سے گریز کی اصطلاح تو آپ نے سنی ہو گی۔ میں نے کہا: جی بالکل۔ یکدم موضوع بدل کر بادشاہ کی تعریف شاعر شروع کر دیتا تھا۔ کہنے لگے: اس عنوان کے ساتھ بھی یہی کھیل ہو سکتا ہے۔ میں خاموشی سے ان کی بات سن رہا تھا۔ کہنے لگے: میں اس طرح تقریر شروع کروں گا ''میں پاکستان ہوں، جب ہم کہتے ہیں کہ میں پاکستان ہوں تو ہمارا مطلب ہوتا ہے کہ 23 مارچ انیس سو چالیس کے مسلم لیگ کے جلسے میں جو قدم اٹھایا گیا تھا‘ اس کے نتیجے میں ہی پاکستان بنا۔ اس طرح وہ سب ہمارے بزرگ پاکستان ہی کا حصہ ہیں اور ہم چونکہ ان کی اولادیں ہیں تو ہم بھی ایک طرح سے اپنے آپ کو پاکستان کہہ سکتے ہیں‘‘۔ میں نے عرض کی کہ میں تو انجینئر اور ٹیپ ریکارڈر بھی ساتھ لایا ہوں۔ وہ آپ کے پی اے کے کمرے میں بیٹھے ہیں۔ ہنسنے ہوئے بولے: اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کتنی مشکل میں ہیں۔ میں تقریر اسی طرح لکھ کر لائوں گا اور کل صبح دس بجے ریڈیو سٹیشن آکر ریکارڈنگ کرا دوں گا۔
واپس آکر میں نے اپنے سٹیشن ڈائریکٹر کو خوشخبری سنائی۔ اس کے بعد وہ تقریر ریکارڈ ہوئی اور نشر ہو گئی۔ اس کے بعد ہیڈ کوارٹر نے سب سٹیشنوں کو حکم دیا کہ لاہور سٹیشن سے جو ڈاکٹر منیر الدین چغتائی کی تقریر نشر ہوئی ہے‘ اسی انداز میں اپنے ہاں سے کسی دانشور‘ ادیب یا شاعر کی تقریر اس سیریز میں ریکارڈ کرکے نشر کریں۔ یوں اس حکم پر عملدرآمد ہوا۔ یہ حکم ٹیلی وژن پر بھی گیا ہو گا‘ انہوں نے کیسے ٹالا، یہ مجھے نہیں معلوم لیکن جس قدر پڑھے لکھے لوگوں کی طرف سے اس عنوان کی مزاحمت ہوئی‘ اس کے بعد وزارتِ اطلاعات نے اس حوالے سے مزید اقدامات سے گریز کرنا ہی مناسب سمجھا ہوگا، کیونکہ یہ بات پھر آگے چلی نہیں۔
جس سوچ کے پیچھے کوئی ہوم ورک نہ ہو‘ وہ چل نہیں پاتی۔ اسی طرح ایک زمانے میں حکم ہوا کہ اردو زبان کے ساتھ ساتھ جو علاقائی زبانیں ہیں‘ ان کے بھی شعرا کو ایک ساتھ جمع کرکے مشاعرے منعقد کیے جائیں تاکہ یکجہتی کی فضا قائم ہو۔ مجھے لاہور کا پتا ہے کہ یہاں اردو اور پنجابی شعرا کا مشاعرہ ہوا تھا‘ جوش ملیح آبادی بھی اس میں شریک تھے اور استاد دامن بھی۔ لاہور ریڈیو کے ہال میں ہونے والے اس مشاعرے میں رونق تو خوب لگی لیکن کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کس شاعر کو کس کے بعد اور کس سے پہلے پڑھوایا جائے۔ کئی اچھے شاعر تو اسی وجہ سے معذرت کر گئے کہ وہ اس کو مشاعرے کی روایت سے انحراف سمجھتے تھے۔ بہرحال بعد میں ایسی کوئی منظم کوشش نہیں ہوئی۔ البتہ جو شاعر اردو اور پنجابی‘ دونوں زبانوں میں شعر کہتے تھے‘ وہ اکثر مشاعروں میں فرمائش پر اردو اور پنجابی‘ دونوں زبانوں میں کلام سنا کر داد لیتے ہیں۔ منیر نیازی مرحوم سے اردو مشاعرے میں کلام سنانے کے بعد اکثر ان کی معروف پنجابی شاعری''کج شہر دے لوگ وی ظالم سن‘ کج مینوں مرن دا شوق وی سی‘‘ سنانے کی فرمائش ہوا کرتی تھی۔
اسی طرح ضیاء الحق دور میں ایک حکم موصول ہوا کہ ''اسٹیشن‘‘ اور ''اسکول‘‘ جیسے الفاظ لکھنے اور بولنے میں شروع کا ''الف‘‘ ہٹا دیا جائے۔ اب یہ اسٹیشن اور اسکول کے بجائے سٹیشن اور سکول لکھا اور بولا جائے۔ ایسے اور بھی کئی الفاظ ہیں جو ہمارے اہل زبان بھائی بہن الف لگا کر بولتے ہیں۔ صوبائی زبانوں کا اپنا انداز ہے وہ الف نہیں لگاتیں مگر انگریزوں کی طرح سکول یا سٹیشن بھی نہیں بولتیں۔ اس حکمنامے کا پہلا اثر تو یہ ہوا کہ جہاں ''اسٹیشن ڈائریکٹر‘‘ کی تختی لگی تھی اس پر سے الف کو غائب کر دیا گیا۔ لاہور میں ہمارے سٹیشن ڈائریکٹر عبدالحمید اعظمی تھے جن کا تعلق بھارتی شہر اعظم گڑھ سے تھا اور وہ اہلِ زبان تھے۔ انہوں نے اس کی سخت مزاحمت کی، کراچی سے بھی لازمی مزاحمت ہونا تھی۔ روایت کے مطابق کچھ دن یہ موضوع مختلف ریڈیو سٹیشنوں پر زیرِ بحث رہا۔ آخر یہ بات بھی‘ جیسے کہ امکان غالب تھا‘ آگے چل نہ پائی۔
میں پھر وہی دہرا کر بات ختم کرتا ہوں‘ جو اوپر درج کی کہ جس سوچ کے پیچھے کوئی ہوم ورک نہ ہو‘ وہ چل نہیں پاتی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں