"ARC" (space) message & send to 7575

اندرون شہر لاہور کی یادیں

لاہور تو اب بہت پھیل چکا ہے اور اندرون شہر لاہور جو کہ اس شہر کی بنیاد ہے وہ بھی بہت پھیل چکا ہے ۔ میرا بچپن اندرون شہر کے تاریخی محلہ موہلیاں میں گزرا ہے جس کا اب نام ایک سیاسی رہنما کے نام پر ہے۔ اس محلے کے بارے میں لاہور پر ریسرچ کرنے والے ایک سکالر حمید شیخ کا کہنا ہے کہ امکان غالب ہے کہ صدیوں پہلے جب لاہور شہر کی ابتدا ہوئی تو محلہ موہلیاں ہی لاہور تھا۔ بعد میں اس کے ارد گرد آبادیاں پھیلتی رہیں اور یوں یہ ایک بڑا شہر بن گیا۔ مجھے یاد ہے بچپن میں سرکاری پانی کا ایک نل چوک میں لگا ہوتا تھا اور دو ماشکی تھے جن کو سقہ کہا جاتا ہے امام دین اور لبھو۔ یہ چمڑے کی مشکوں میں پانی بھر کر سب گھروں میں پہنچاتے تھے ۔جو غریب لوگ تھے وہ خودپانی بھرتے تھے اور نل پر برتنوں کی قطار لگی ہوتی تھی۔ پانی کی فراہمی کے اوقات متعین تھے۔ اُن اوقات میں پورا چوک پانی کے حصول میں مصروف ہوتا تھا۔ یہ پانی زیادہ تر کھانا پکانے اور پینے کیلئے استعمال ہوتا تھا ‘ نہانے دھونے کیلئے کنوؤں کا پانی استعمال ہوتا تھا۔ ہمارا گھر محلہ موہلیاں کے کوچہ مان سنگھ میں تھا اور اس کوچے ہی میں تین کنویں تھے جو چالو تھے۔ یہ کنویں گھروں کے نیچے بنے ہوئے تھے اور مکان ان کے اوپر بنے ہوئے تھے اس لئے کوئی بھی کسی وقت ان کنوؤں سے پانی نکال سکتا تھا۔ ان کنوؤں کے ساتھ غسل خانے بھی بنے ہوئے تھے جن کے دروازے ٹوٹے ہوئے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ گرمیوں کے موسم میں پائجامہ پہنے نہایا کرتے تھے اور بعض اوقات دیر تک نہاتے ہی رہتے تھے۔ دو تین لڑکوں کے گروپ کی شکل میں ہم نہانے جاتے تھے۔ باری باری ہم کنویں سے پانی نکالتے تھے اور گرمیوں میں ٹھنڈے پانی سے لطف اندوز ہوتے تھے۔
شہر کے راستے ہمیں ازبر تھے۔ بہت سارے شارٹ کٹ تھے۔ بعض راستے کسی گھرکے اندر سے نکلتے تھے اور لوگ آتے جاتے تھے مگر گھروں والے منع نہیں کرتے تھے۔ گرمیوں میں چھتوں پر سونے کا رواج تھا کیونکہ بجلی بھی اتنی عام نہیں تھی اور اندر کمروں میں اگر پنکھا ہو بھی تو وہ رات کے وقت گرم ہوا ہی پھینکتا تھا۔ چھت پر البتہ اکثر درجہ حرارت کم ہوتا تھا ‘ ہوا چلتی تھی اور ایسی نیند آتی تھی کہ بس لیٹے اور اگلی آنکھ سورج کی روشنی میں کھلتی تھی اور پھر ہم مختصر بستر اٹھا کر نیچے کمروں میں آ جاتے تھے۔ چھتوں پر ابھی رات کے وقت پتنگ بازی شروع نہیں ہوئی تھی لیکن دن کے وقت پتنگ بازی خاص طور پر سرد موسم میں اس قدر زیادہ ہوتی تھی کہ آسمان بھر جاتا تھا۔ ہم بچپن میں زیادہ تر پتنگیں اور ڈور لوٹنے میں مصروف رہتے تھے کیونکہ اس کام میں جو لطف تھا وہ بازار سے خرید کر پتنگ بازی کرنے میں کبھی نہیں آیا۔ اس وقت یہ قاتل ڈور نہیں تھی البتہ کوٹھوں سے گرنے کے واقعات ہوتے رہتے تھے۔
لاہور شہر اس طرح بنا ہوا ہے کہ کتنی بھی بارش ہو جائے پانی شہر کے اندر زیادہ دیر نہیں ٹھہرتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شہر ایک ٹیلے پر بنا ہوا لگتا ہے یا بنتے بنتے اس کی شکل ایسی ہو گئی۔ میں جب لوہاری دروازے سے داخل ہوتا تو گھر تک پہنچنے میں جتنا راستہ تھا وہ سارا چڑھائی کا احساس دیتا تھا اور جب میں گھر سے باہر آتا تھا تو لوہاری دروازے تک ہلکی سی ڈھلوان محسوس ہوتی تھی۔بچپن میں اندرون شہر میں جو کھانے پینے کی چیزیں بکتی تھیں ان کی قدر اس وقت محسوس ہوئی جب ہم شہر سے باہر منتقل ہو گئے۔ شہر سے باہر جدید آبادی میں نہ دودھ کا وہ مزہ تھا‘ نہ دہی کا ‘نہ حلوہ پوری دیسی ملتی تھی۔ لوہاری کے باہرجو مچھلی فرائی ملتی تھی وہ بہت یاد آتی تھی۔ لوہاری کے باہرایک معروف ریسٹورنٹ تھا نعمت کدہ‘ ہمارے گھر کوئی مہمان آ جائے تو ہم سالن وہیں سے خرید کر لاتے تھے۔ اس دور میں مہمان اچانک ہی آتے تھے‘ ٹیلی فون تقریباً ناپید تھے‘ ایڈوانس اطلاع کا کوئی نظام نہیں تھا لیکن مہمان جتنے بھی آ جائیں سنبھال لئے جاتے تھے۔ لوہاری دروازے کی نہاری بہت یاد آتی تھی۔ ایک شامی کبابوں کی دکان تھی جو کباب کے ساتھ چٹنی نہیں رکھتا تھا۔ اگر کوئی تقاضا کر بیٹھے چٹنی کا تو وہ اس کو کباب ہی نہیں بیچتا تھا۔موصوف کا کہنا تھا کہ میرے کباب کے ساتھ اگر چٹنی کی ضرورت پڑے تویہ کباب کی توہین ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ میں نے آج تک ویسے لذیذ کباب کہیں نہیں کھائے۔ یہی کیفیت چوک متی کے قریب ایک سیخ کباب بنانے والے کی تھی۔ وہ بھی اپنی مثال آپ تھا۔
ہم لوگ شہر سے باہر تو آ گئے مگر زندگی کے لطف شہر کے اندر ہی چھوڑ آئے۔ شروع شروع میں تو ہفتے دس دن بعد میں اندرون شہر کا چکر لگا لیتا تھا لیکن بعد میں یہ سلسلہ کم ہوتے ہوتے ختم ہی ہو گیا۔اندرون شہر میں لوگوں کی اور خاص طور پر دکانداروں کی پہچان ایسی تھی کہ برسوں بعد بھی پہچان لیتے تھے اور پھر شکوہ کرتے تھے کہ وہ ابھی تک اندرون شہر ہی میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اور مجھ پر رشک کرتے کہ اندرون شہر سے باہر کھلی آبادی میں منتقل ہو گیا ہوں۔ میں اُن کو کیسے بتاتا کہ مجھے اندرون شہر کتنا یاد آتا ہے اور کس کس پہلو سے یاد آتا ہے۔جو غیر ملکی لوگ ہیں ان کو اندرون شہر دیکھنے کا بہت شوق ہوتا ہے تو کئی مرتبہ غیر ملکیوں کو پرانا لاہور دکھانے کا موقع ملا ۔ اکثر لوگ پہنچانتے تھے اور کہتے تھے ''ایہہ گورا کتھوں پھڑ لیائے او‘‘ یعنی یہ گورا کہاں سے پکڑ لائے ہو۔ اندرون شہر کی عام بول چال اسی طرح ہوتی تھی۔ایک مرتبہ میرے ایک دوست عارف وقار نے جو کہ امریکی قونصل خانے کے ویزا افسرکو اردو پڑھاتے تھے‘ کہا کہ ویزا افسر اندرون شہر دیکھنا چاہتا ہے۔ اُس کا نام کریگ کارپ تھا۔ یہ سن چوراسی کی بات ہے۔ میں نے کہا: ٹھیک ہے پروگرام بنا لو۔ وہ ویزا افسر ایک تو ویسے ہی کنجوس تھا اور دوسرے ان غیر ملکیوں کو ہمارے ملک میں شاپنگ کے حوالے سے جو بریفنگ دی جاتی ہے اس میں یہ بات ذہن نشین کروائی جاتی ہے کہ مقامی لوگ غیرملکیوں کو اشیا کی قیمتیں بڑھا چڑھا کر بتاتے ہیں اس لئے جو قیمت مانگی جائے آپ لوگ اس کو کافی کم کر کے پیش کش کریں۔خیر میں‘ عارف وقار اور ویزا افسر جب اندرون شہر پہنچے تو اُس ویزا افسر کی خوشی دیکھنے کے قابل تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ کوئی چھوٹا بچہ میلے میں آ گیا ہے۔ خیراس کو تنگ گلیاں بھی دکھائیں۔ ایک مکان کی چھت پر بھی لے گئے۔ پتنگ بازی بھی دکھا دی۔ کھانے پینے سے اُس نے انکار کیا۔ اُن کو ہدایت تھی کہ ایسی جگہوں پر کھانا پیٹ خراب کر سکتا ہے تاہم موصوف نے ایک پتنگ خریدنے کی فرمائش کی۔ ہم نے پوچھا: کرو گے کیا؟ نہ ڈور ہے تمہارے پاس نہ تمہیں اڑانی آتی ہے۔ اس نے کہا کہ اپنے کمرے میں ڈیکوریشن کیلئے لے رہا ہوں۔ وہ دکاندار مجھے ذاتی طور پر جانتا تھا۔ پہلے تو اُس نے مروت میں مفت دینے کا کہا تو میں نے منع کر دیا۔ میں نے کہا امریکی ہے۔ بڑے امیر ہوتے ہیں اور پھر وہ بُرا بھی مان سکتا ہے کہ کیوں مفت دی جا رہی ہے اس لئے تم معمولی سی قیمت لے کر دے دو۔ اُس دکاندار نے پچاس روپے والی پتنگ کے صرف بیس روپے بتائے۔ یہ سُن کر اُس ویزا افسر کو اپنی بریفنگ یاد آ گئی شاید۔ وہ بولا: دو روپیہ کا چیز ہے۔ یاد رہے کہ وہ اردو سیکھ رہا تھا۔ وہ دکاندار یہ سن کر اتنا ہنسا اتنا ہنسا کہ ویزا افسر پریشان ہو کر پوچھنے لگا کہ کیوں اتنا ہنس رہا ہے؟ ہم نے اسے کہا کہ یہ پچاس روپے کی پتنگ ہے جو ہماری وجہ سے تمہیں بیس روپے کی دے رہا تھا اور تم دو روپے کہہ رہے ہو۔ اس بات پر ہنس رہا ہے۔ اس دوران میں دکاندار نے وہ پتنگ ویزا افسر کے ہاتھ میں تھما دی اور کہا: گفٹ۔ گفٹ۔ فری۔
مشرف کے دورمیں بسنت اور خاص طور پر نائٹ بسنت ایک بین الاقوامی تہوار بن گیا تھا جس کو قاتل ڈور نے قتل کر دیا۔ میرا تعلق وائس آف امریکہ کی اردو سروس سے تھا مگر ہندی سروس کے لوگوں سے بھی جان پہچان اور دوستیاں تھیں۔ اُس زمانے میں ہندی سروس میں کام کرنے والا میرا ایک دوست اُمیش اگنی ہوتری بسنت دیکھنے کی غرض سے لاہور آیا۔ اُس کے پاس وڈیو کیمرہ تھا میں اُس کو اندرون شہر میں مقیم اپنے ایک ریڈیو کے ساتھی جعفر رضا کے گھر لے گیا۔ رات کا وقت تھا۔ شاہ کامل دروازہ آخر تک گاڑیوں سے بھرا تھا۔ ہم کافی پیدل چل کر اُس کے گھر پہنچے۔ جب چھت پر پہنچ کر نائٹ بسنت کا نقشہ دیکھا تو امیش اگنی ہوتری تو دیوانہ ہو گیا۔ کبھی ایک طرف کی وڈیو بنا رہا ہے کبھی آسمان کی کبھی دائیں طرف کی کبھی بائیں طرف کی مگر وڈیو میں سوائے روشنیوں کے کچھ نہ آ سکا۔ تو مایوس ہو کر بولا۔ یار یہ منظر بس حافظے میں ہی رہ سکتا ہے۔ یہ بات درست تھی۔ یہ منظر میرے بھی بس حافظے میں ہے اور اس منظر کے بحال ہونے کا کوئی امکان مجھے دکھائی نہیں دیتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں