پچاس کے عشرے میں مَیں سکول میں پڑھتا تھا۔ اس دور میں یہ فلمی نغمہ کافی پاپولر تھا ''ساون کے بادلو! اُن سے یہ جا کہو‘‘۔مجھے یاد ہے کہ ہمارے محلے کا دھوبی اس گیت کو اس طرح گاتا تھا ''ساون کے بادلو! کپڑوں کو سوکھنے دو‘‘۔ لوگ اس کا مذاق اڑاتے تھے‘ وہ برا نہیں مناتا تھا۔ وہ لوگوں سے کہتا تھا کہ میرا مسئلہ کپڑے سکھانا ہے تو میں تو ساون کے بادلوں کو یہی کہوں گا ناں‘ یہ عشق معشوقیاں فضول باتیں ہیں‘ بندے کو کام کی بات کرنی چاہیے۔ اس دھوبی کا شمار ایسے لوگوں میں کرتا ہوں جو اپنی سوچ کو اہمیت دیتے ہیں بھلے دنیا کچھ کہتی رہے۔ ظاہر ہے عام لوگوں کیلئے تفنن طبع کا باعث بنتے ہیں مگر ان کو بالکل پروا نہیں ہوتی۔ ریڈیو میں ہمارے ایک سینئر ساتھی تھے جن کا تعلق ویسے تو کشمیر سے تھا مگر رہتے راولپنڈی میں تھے۔ وہ سنایا کرتے تھے کہ اُن کے ہاں ایک دھوبی ہوتا تھا جس کے پاس ہفتہ واراخبار نکالنے کا ڈیکلریشن بھی تھا۔ وہ لوگوں کے گھروں میں دُھلے کپڑے دینے اور دُھلنے والے لینے کیلئے جاتا تو اپنا اخبار بھی اُن گھروں میں دے آتا تھا۔ ایک صفحے کا پرچہ لیتھو پر چھاپتا تھا ۔ ہمارے ریڈیو کے ساتھی کے بقول جب قائداعظم کی وفات ہوئی تو لوگوں نے اُس سے کہا کہ اتنا بڑا واقعہ ہو گیا ہے‘ اس پر اداریہ لکھو۔ اُس دھوبی نے جو اداریہ لکھا اُس کا پہلا جملہ تھا: آج میرا دایاں بازو کٹ گیا۔ اتنے المناک ماحول میں بھی لوگ اس کا اداریہ پڑھ کر ہنسے بغیر نہ رہ سکے مگر وہ اپنی دھن میں مگن تھا اور کہتا تھا کہ وہ بڑی خدمت کر رہا ہے۔اسی طرح لاہور کی گوالمنڈی کے علاقے میں ایک صاحب تھے یٰسین بٹ بہادر۔ موصوف کے پاس بھی غالباً کوئی ڈکلریشن تھا کیونکہ وہ ذوالفقار علی بھٹو کی اپریل 1977 ء کی گورنر ہاؤس لاہور کے دربار ہال کی پریس کانفرنس میں موجود تھے۔ اس پریس کانفرنس میں بھٹو صاحب نے اسلامی اصلاحات کے نفاذ کا اعلان کیا تھا۔ میری ریڈیو کی طرف سے کوریج کی ڈیوٹی تھی۔اس پریس کانفرنس سے پہلے عجیب عجیب باتیں سننے میں آ رہی تھیں‘ کوئی کہتا تھا آج نئے الیکشن کا اعلان ہو جائے گا‘ کوئی کہتا تھا بھٹو صاحب مستعفی ہو رہے ہیں۔ ہمارے ڈائریکٹر جنرل اجلال حیدر زیدی خاص طور پر اسلام آباد سے اس پریس کانفرنس کیلئے لاہور آئے تھے۔ بین الاقوامی پریس کے لاتعداد نمائندے تھے۔ بی بی سی کی کوریج ایک کے بجائے دو نمائندے کر رہے تھے۔ ایک معروف مارک ٹلی (Marr Tully)اور دوسرا اینڈریو ویٹلی
(Andreu Whitley)۔گورنر ہاؤس کا دربار ہال بھرا ہوا تھا۔ جنہوں نے دیکھا ہو وہ اندازہ کر سکتے ہیں کہ کتنے لوگ ہوں گے‘ کیونکہ یہ کافی بڑا ہال ہے۔ خیر بھٹو صاحب ‘ جو چینیوں جیسا ایک کوٹ پہنتے تھے داخل ہوئے‘ سگار پی رہے تھے۔ پاکستان قومی اتحاد کے حامیوں کو بہت مایوسی ہوئی جب نہ تو نئے انتخابات کا اعلان ہوا اور نہ ہی استعفیٰ آیا۔ بھٹو صاحب نے نظام مصطفی کے نعرے کا اثر زائل کرنے کیلئے اسلامی نظریاتی کونسل کے قیام اور شراب پر پابندی وغیرہ کی باتیں کیں اور پھر سوال جواب شروع ہو گئے۔ بھٹو صاحب پریس کانفرنس سے خطاب کرنے کا فن جانتے تھے ‘ بڑے بڑے سخت سوال بھی اطمینان سے سنتے اور جواب دیتے رہے۔اتنے میں یٰسین بٹ بہادر صاحب کھڑے ہو گئے۔ پریس کانفرنس انگریزی میں ہو رہی تھی کیونکہ غیر ملکی میڈیا آیا ہوا تھا مگر یٰسین بٹ بہادر اردو میں بولے۔ سوال کیا: '' جناب والایہ بی بی سی کیا کرتی ہے۔ یہ ہمارے ملک کی سیاست ہے۔ یہ پتہ نہیں کیا کہتی رہتی ہے‘‘۔ اُن دنوں بی بی سی بہت سنا جاتا تھا کیونکہ پی این اے کے احتجاج کی خبریں بڑھا چڑھا کر دیتے تھے اور ایسا تاثر قائم ہوتا تھا کہ حکومت آج گئی یا کل گئی۔ بھٹو صاحب ظاہر ہے نالاں تھے‘ یٰسین بٹ بہادر کا سوال سن کر بھٹو صاحب کی آنکھوں میں چمک آ گئی۔ انہوں نے بی بی سی کو وہ رگڑا دیا کہ اپنی بھڑاس نکال لی۔ اس سوال کے جواب میں وہ زیادہ اردو میں بولے۔ اینڈریو ویٹلی میرے ساتھ والی کرسی پر بیٹھا تھا۔ وہ مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ کیا سوال ہوا ہے بی بی سی کے بارے میں اور بھٹو صاحب کیا کہہ رہے ہیں۔ میں جتنا ترجمہ کر سکتا تھا کر دیا اور ساتھ اس کو کہہ دیا کہ رپورٹ کرنے سے پہلے اردو کی اس ریکارڈنگ کا کسی سے ترجمہ کروا لینا کیونکہ میں نے جو سمجھا وہ بتایا ہے جو کہ جزوی طور پر غلط بھی ہو سکتا ہے۔
بڑی طویل پریس کانفرنس تھی اور انتہائی سنجیدہ ماحول میں ہوئی صرف دو مقامات پر لوگ ہنسے‘ایک تو جب بھٹو صاحب نے شراب پر پابندی کا علان کیا تو اس کے بعد کہا کہ حُقّے پر البتہ کوئی پابندی نہیں ہوگی۔ نوابزادہ نصراللہ خاں پی این اے کی تحریک کے روح رواں تھے اور اُن کا حُقّہ مشہور تھا۔ یہ ایک طرح سے اُن پر طنز تھا جس پر سب ہنس پڑے اور دوسرا موقع یٰسین بٹ بہادر کے بی بی سی کے بارے سوال پر پیدا ہوا جو وہاں موجود لوگوں کی تفنن طبع کا باعث بنا۔ میں نے براڈ کاسٹنگ ہاؤس آ کر جو رپورٹ بنائی اُس میں خاص طور پر یہ دونوں باتیں شامل کیں۔ ہمارے ڈائریکٹر حُقّے والی بات پر ناراض ہوئے مگر درگزر کر گئے۔مجھے یاد ہے جب پریس کانفرنس ختم ہوئی تو یٰسین بٹ بہادر جن کو بطور صحافی کم ہی کوئی جانتا تھا صحافیوں میں گھرا ہوا تھا اور سب اس کے سوال کی تعریف کر رہے تھے اور یٰسین بٹ بہادر کا کشمیری چہرہ سفید سے سرخ ہو گیا تھا مگر وہ اس سب تعریف سے بے نیاز دروازے کی طرف گئے اور اپنی دھن میں مگن باہر تشریف لے گئے۔
یہ لوگ جواپنی دھن میں مگن رہتے ہیں کمال کے لوگ ہوتے ہیں۔ایساہی ایک کردار کراچی میں ساٹھ کے عشرے میں ہمیں نصیب ہوا۔ یہ اے جی آفس میں کلرک تھے اور شعر کہنے کا شوق تھا۔ اکثر ریڈیو سٹیشن آ جاتے اور تقاضا ہوتا کہ اُن کا کلام نشر کیا جائے۔ کلام کیا تھا‘وہ ''پانیات ‘‘کے عنوان سے ایک طویل نظم لکھ رہے تھے جس کے اشعار اس قسم کے تھے'' کھارا در میں ہے کھارا تو میٹھا در میں ہے میٹھا۔ فلیٹات کی بیگمات کے گملات کا پانی۔ اس شاعر کا نام تھا سراج الدین جنابؔ۔ جناب تخلص تھا۔ دعویٰ کرتے تھے کہ '' پانیات‘‘ کے عنوان سے دنیا کی سب سے طویل نظم لکھ رہے ہیں۔ کہتے تھے کہ اب تک مہا بھارت کا ریکارڈ ہے کہ اس کے ایک لاکھ اشعار ہیں اور دنیا کی سب سے طویل نظم مانی جاتی ہے۔ موصوف اس کا ریکارڈ توڑنے پر لگے ہوئے تھے۔ ہم لوگ کراچی ریڈیو کے لان میں بیٹھ جاتے اور ان کے اشعار سنتے اور داد دیتے۔ ایک دن ابن انشا وہاں آ گئے‘محفل جمی دیکھی تو بیٹھ گئے اور کافی دیر جنابؔ کا کلام سنا‘ بعد میں جب کبھی آتے تو پوچھتے: بھئی وہ ''پانیات‘‘ والا آیا ہوا ہے کہ نہیں۔ ظاہر ہے وہ روزانہ تو نہیں آتا تھا۔
ایک روز سراج الدین جنابؔ اپنی شاعری سنا کر بولے: بھائی آپ لوگ نہ مجھے مشاعرے میں شامل کرتے ہیں اور نہ ہی میرے فن پر کوئی تبصرہ کرتے ہیں۔ تو ہم نے وعدہ کر لیا کہ مشاعرے میں آپ کو شریک کریں گے اور آپ کے فن پر تقریریں آج ہی کر دیتے ہیں۔سب نے باری باری حضرتِ جنابؔ کے فن کو سراہا اور قادر الکلام شاعر کے طور پر اُن کی حوصلہ افزائی کی۔ ہمارے ایک ساتھی تھے عرفان علی۔ وہ معروف ادیب محمد علی رُدولوی کے فرزند تھے۔ انہوں نے بہت دلچسپ تبصرہ کیا۔ کہنے لگے: سراج الدین جنابؔ کے فن کا کیا کہنا۔ ساری اردو زبان ہاتھ باندھے ان کے سامنے کھڑی رہتی ہے مگر مجال ہے یہ اُس کو زحمت دیں۔ یہ خود اپنی زبان بناتے ہیں اور اشعار کہتے ہیں۔اس تبصرے کو بھی سراج الدین جنابؔ خراجِ تحسین سمجھے۔
جس روز مشاعرہ ہونا تھا اُس روز موصوف پہنچ گئے کہ وعدہ پورا کرو۔ ریڈیو میں ایک بوتھ کے ساتھ اکثر دو سٹوڈیوز ہوتے ہیں۔ مشاعرہ ڈرامہ سٹوڈیو نمبر9سے ہوتا تھا۔ اس کے ساتھ دوسرا ٹاک سٹوڈیو تھا۔ اس سٹوڈیو میں سراج الدین جناب ؔکو بٹھا دیا گیا۔ ادھر مشاعرہ ہوتا رہا۔ جس کی آواز سراج الدین جناب کو بھی آ رہی تھی۔ جب مشاعرہ ختم ہو گیا اور نشریات کی دوسرے سٹوڈیو میں منتقلی ہو گئی تو ہمارے ساتھی عظیم سرور نے مشاعرہ جاری رہنے کا تاثر دینے کیلئے اعلان کیا کہ یہ تو تھا مشاعرے کا پہلا دور۔ اب دوسرا دور شروع ہوتا ہے جس میں معروف شاعر اور''پانیات‘‘ کے خالق سراج الدین جنابؔ ہی کا کلام پیش کیا جائے گا۔ چونکہ ان کے مرتبے کا اور کوئی شاعر کراچی میں نہیں ہے اس لئے یہ تنہا ہی اشعار پیش کریں گے۔ اس کے بعد کوئی گھنٹہ بھر سراج الدین جنابؔ اپنی طویل نظم ''پانیات ‘‘کے اشعار پڑھتے رہے۔ پھر اختتامی اعلان کرکے موصوف کو فارغ کر دیا۔ بہت خوش تھے۔ اگلے روز ریڈیو سٹیشن آئے اور حیرت کا اظہار کر رہے تھے‘ یار بہت لوگوں سے پوچھ چکا ہوں کسی کم بخت کو توفیق نہیں ہوئی ریڈیو پر میرا کلام سننے کی‘ حیرت ہے۔ جب نشر ہی کچھ نہ ہوا ہو تو کسی نے کیا سننا تھا‘ مگر سراج الدین جنابؔ کو یقین تھا کہ اُن کا کلام نشر ہوا ہے۔ بس جاتے ہوئے یہ کہہ گئے کہ اگلی مرتبہ سب کے ساتھ موقع دیں تو اور بھی لطف رہے گا۔