"ARC" (space) message & send to 7575

جھوٹ کی دنیا میں خوش رہنے والے

آج کل معلوم نہیں نوجوان اپنی سماجی حیثیت کے بارے میں دوستوں کو سچ بتاتے ہیں یا نہیں‘ لیکن نصف صدی پہلے یہ سماجی بیماری عام تھی کہ اگر کسی لڑکے کے ماں باپ ماڈرن نہ ہوں‘ غریب ہوں تو وہ لڑکا حتی الامکان اپنے یاروں دوستوں سے یہ بات چھپائے رکھتا تھا۔ جن بچوں کی گھر میں تربیت اچھے ماحول میں ہوئی تھی‘ وہ ایسا نہیں کرتے تھے مگر بدقسمتی سے اُن کی تعداد بہت کم تھی۔ ٹیلی فون کی سہولت اس زمانے میں نہ ہونے کے برابر تھی اس لیے سماجی سطح پر میل جول کا انداز یہ ہوتا تھا کہ یا تو سکول‘ کالج میں گپ شپ کر لی یا چھٹی کے بعد اکٹھے کہیں نکل گئے‘ یا وقت طے کر لیا کہ آج فلاں فلم دیکھنی ہے تو وہاں پہنچ گئے یا کبھی کسی ریسٹورنٹ میں بیٹھ کر چائے پی لی۔ اگر کسی کو گھر سے بلانا ہے تو گھر کے باہر کھڑے ہو کر آواز دینی اور پھر دوست کا نیچے آنے تک انتظار کرنا۔ یہ انتظار زیادہ طویل نہیں ہوتا تھا کیونکہ بس جوتا ہی پہننا ہوتا تھا۔ کسی نے دوستوں کو کہہ رکھا ہوتا تھا کہ میرے والد بزنس کرتے ہیں۔ کسی نے دوسرے شہر میں نوکری کرنے کا بتا رکھا ہوتا تھا۔ اس طرح کے درجنوں بہانے بنائے جاتے تھے مگر حقیقت بتانے سے سب گریز کرتے تھے۔ ایک عجیب سی شرم محسوس ہوتی تھی کہ اگر دوستوں کو معلوم ہو جائے کہ والد صاحب تو کسی سکول کے باہر آلو چھولے بیچتے ہیں یا کہیں نائب قاصد ہیںتو نجانے کیا ہو جائے گا۔ جھوٹ کی دنیا میں یہ جھوٹ پتا نہیں کہاں سے ہمارے سماج میں داخل ہو گیا تھا۔
مجھ سے پہلے کی نسل میں بھی اس بات کے اشارے ملتے ہیں۔ اکبر الہ آبادی کے حوالے سے کہیں پڑھا تھا کہ اُن کا بیٹا عشرت برطانوی دور میں بڑا افسر ہو گیا تھا لیکن اکبر الہ آبادی تو گھر میں بھی اور باہر بھی‘ سادہ لباس اور پگڑی ہی پہنتے تھے۔ عشرت کے افسر دوست کبھی گھر آتے تو اکبر الہ آبادی کو اس حلیے میں اگر چارپائی پر بیٹھا دیکھتے تو پوچھتے کہ یہ کون ہے؟ اس پر وہ کہتا تھا کہ میرے والد صاحب کے دوست ہیں‘ گاؤں سے آئے ہیں۔
اب واپس اپنے دور میں آتا ہوں۔ ہمارے زمانے میں اس سماجی بیماری کا ایک اثر یہ ہوا تھا کہ کچھ لوگ باقاعدہ گپ باز بن گئے تھے۔ آپ جانتے ہیں کہ گپ شپ کرنا اور بات ہے اور گپیں ہانکنا اور بات ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں فرسٹ ایئر میں پڑھتا تھا تو ہمارے ساتھ ایک لڑکا اس مزاج میں کچھ زیادہ ہی آگے نکل گیا تھا۔ ہم ہاسٹل کے لڑکوں سے سنتے تھے کہ اس کی خانیوال میں پچاس مربعے زمین ہے یا منٹگمری میں ڈیری فارم ہیں لیکن کئی لڑکوں کے والد اصل میں مقروض ہوتے تھے اور اُن کو اپنے منی آرڈر آنے کا چکر دیتے رہتے تھے۔ جو لڑکا اس مزاج میں کچھ آگے نکل گیا تھا‘ وہ کوئی بات بھی ہوتی تو اس میں اپنی بڑائی نکال لیتا تھا۔ ایک مرتبہ دوست بات کر رہے تھے کہ جنرل ایوب کیا خوبصورت جوان ہیں، موصوف فوراً بولے: میرے والد کی شکل بالکل جنرل ایوب جیسی ہے۔ برسوں بعد ایک ہارس اینڈ کیٹل شو میں مَیں نے اُس لڑکے کو اپنے والد کے ہمراہ دیکھا اور آمنا سامنا ایسے اچانک ہوا کہ وہ سلام دعا سے گریز نہ کر سکا۔ اس کے والد بولے: اچھا! آپ میرے بیٹے کے کلاس فیلو رہے ہیں؟ جس باپ کو وہ صدر ایوب خان کا ہم شکل بتا رہا تھا‘ ان کا رنگ گندمی تھا اور قد بمشکل پانچ فٹ دو انچ ہوگا۔موصوف کی ہر بات میں پھڑ مارنے کی عادت بہت لطیفے پیدا کرتی تھی۔ اس زمانے بلڈ پریشر کا لفظ عام نہیں تھا۔ کسی لڑکے نے کہا کہ میں کل کالج اس لیے نہیں آیا کہ میرے والد کو (ہائی) بلڈ پریشر ہو گیا تھا۔ یہ سن کر موصوف بولے: مجھے بھی کچھ دن پہلے گردن پر بلڈ پریشر ہو گیا تھا‘ گردن پر پرانے کسی زخم کا نشان دکھا کرکہنے لگا کہ پھر ڈیڈی سرجن کے پاس لے گئے اور اس نے آپریشن کرکے '' بلڈ پریشر‘‘ نکال دیا۔
ریڈیو کی ملازمت میں تو ایسے ایسے کلاسیکل گپ باز ملے کہ اُن کا مذاق بھی اُڑاؤ تو اس کام سے باز نہیں آتے تھے۔ ہمارے ایک اناؤنسر اس کام میں بہت معروف تھے۔ ایک مرتبہ صبح کے وقت اخبار سامنے رکھ کرافسردہ بیٹھے تھے۔ کسی نے پوچھا: کیا بات ہے؟ اخبار کی ایک خبر دکھائی‘ جس میں لکھا تھا: نیپال میں آتشزدگی، کٹھمنڈو کے وسط میں سترہ دکانیں جل گئیں۔ بولے: دیکھو غیر ملک میں بھی اگر آگ لگنی تھی تو میری پراپرٹی ہی کو لگنی تھی۔ جس شخص نے اُن سے یہ بات سنی‘ اُس نے پورے سٹاف میں پھیلا دی۔ سارا دن لوگ اُس اناؤنسر سے افسوس کرتے رہے اور پوچھتے رہے کہ کون سا سامان وہاں بکتا تھا‘ کتنا کرایہ آتا تھا‘ کرایہ آپ تک کیسے پہنچتا تھا۔ وہ سب باتوں کا تصوراتی جواب پیش کرتے جاتے؛ البتہ کسی کو ایک سوال کے جواب میں کچھ بتاتے تو کسی دوسرے کو اُسی سوال کے جواب میں کچھ اور بتاتے۔
یہی موصوف ایک مرتبہ ڈیوٹی پر لیٹ پہنچے تو مجاز افسر کو تو پتا نہیں کیا کہا‘ ہم لوگوں کو بتایا کہ صبح ریلوے انجنوں کی نیلامی ہو رہی تھی تو تین انجن خرید لیے‘ اسی وجہ سے کام پر آنے میں دیر ہو گئی۔ حالت ان کی یہ تھی کہ سب سے سستا سگریٹ پیتے تھے اور اس کی وجہ یہ بتاتے تھے کہ امیر لوگ یا بیڑی پیتے ہیں یا یہ والا سگریٹ! کراچی میں جا کر دیکھ لیں‘ جتنے سیٹھ ہیں سب بیڑی پیتے ہیں۔
ہمارے افسروں میں بھی ایک صاحب اس مرض کا شکار تھے۔ دینی تعلیم مکمل کرنے کے دعویدار تھے اور کئی کالجوں میں طالب علم رہنے کا بھی ذکر کیا کرتے تھے۔ فٹ بال کے بین الاقوامی ریفری ہونے کے دعویدار بھی تھے اور کہتے تھے کہ میں نے کورس کر رکھا ہے۔ کوئی بیماری کا ذکر کر بیٹھتا تو اس کو طب کے نسخے، ہومیو پیتھی کی دوائی اور ایلوپیتھی کی دوائیاں‘ سب بتا دیتے تھے۔ ایک روز بیٹھے بیٹھے پتا نہیں ذہن میں کیا ہلچل ہوئی‘ اچانک بولے: آج عجیب واقعہ ہوا‘ صبح میں اچھرے سے سائیکل پر آ رہا تھا کہ راستے میں لوگوں کی بھیڑ دیکھ کر رک گیا۔ میں نے آگے ہو کر پوچھا کہ کیا بات ہے؟ لوگ بولے: ادھر سانپ دیکھا ہے۔ کہنے لگے کہ میں نے آگے بڑھ کر دیکھا تو سانپ نے وہاں پڑی اینٹوں میں سے سر باہر نکالا ہوا تھا‘ میں نے فوراً دبوچ لیا۔ سائیکل کے کیریئر میں رکھ کر اپنے ایک دوست کو‘ جو حکیم ہے‘ دے آیا۔ پوچھا کہ وہ حکیم کیا کرتا ہے سانپوں کا؟ بولے: آپ کو نہیں پتا‘ بڑی دوائیاں بنتی ہیں اس سے۔ ہم لوگ دفتر میں اکثر بحث کرتے تھے کہ اُس اناؤنسر اور اس سانپ پکڑنے والے افسرمیں بڑا گپ باز کون ہے۔ کوئی ایک کو نمبر ون کہتا تھا اور کوئی دوسرے کو۔ آخر قدرت نے خود ہی فیصلہ کر دیا۔ ایک روز یہ دیکھا گیا کہ وہ اناؤنسر سانپ پکڑنے والے افسر کے کمرے سے پریشان یہ کہتا ہوا نکلا: بھئی اللہ معاف کرے! بڑا ہی گپ باز ہے یہ شخص۔
اس زمانے میں ٹیلی وژن پر پچیس منٹ کے مزاحیہ ڈرامے ہفتہ وار پیش ہوتے تھے۔ بہت لوگ یہ ڈرامے لکھتے تھے۔ اُن میں ایک‘ دو ریڈیو کے افسر بھی تھے۔ ریڈیو کے ایک افسر نے انہی دو گپ بازوں کے بارے میں ڈرامہ لکھ دیا۔ اس کا کلائمکس بھی یہی سین تھا کہ جس میں ایک گپ باز دوسرے کے بارے میں کہتا ہے ''اللہ معاف کرے‘ بڑا ہی گپ باز شخص ہے‘‘۔ ٹیلی وژن کے پروڈیوسروں سے ہماری دوستیاں تھیں۔ یہ ڈرامہ نشر ہونے کے بعد اُن کے ذریعے پتا چلا کہ اُن کے پاس بھی ایسے کئی کردار موجود ہیں اور وہاں لوگ سمجھ رہے ہیں کہ شاید یہ مزاحیہ فیچراُن کو سامنے رکھ کر لکھا گیا تھا ۔
اس طرح کے لوگ سیاسی دنیا میں بھی ہوتے ہیں۔ ایک صاحب ہوتے تھے‘ جن کا دعویٰ تھا کہ وہ انیس سو چالیس کے منٹو پارک میں ہونے والے مسلم لیگ کے اجلاس میں شریک تھے۔ اس حوالے سے اُن کا جملہ مجھے یاد ہے: بھئی! ہم پاکستان بنانے والوں میں سے ہیں۔ مجھے انہی دنوں تیئس مارچ کے لیے ایک خصوصی فیچر بنانے کا حکم ملا تو میں نے ریسرچ کے لئے ظہور عالم شہید، م ش اور ابو سعید انور سے ملاقاتیں کیں اور نوٹس بنائے۔ یہ لوگ جید مسلم لیگی تھے۔ ایسے میں مَیں نے اُن صاحب کے بارے میں پوچھ لیا جو کہتے پھرتے تھے کہ بھئی ہم پاکستان بنانے والوں میں سے ہیں۔ اُن میں سے کسی کو بھی اُن صاحب کی خدمات کے بارے میں کچھ پتا نہیں تھا۔ بہرحال ضیاء الحق کا زمانہ تھا‘ پاکستان ٹیلی وژن کو تحریک پاکستان پر سلسلہ وار ڈرامے پیش کرنے کا حکم ملا تو اس حوالے سے معروف کالم نگار اور دانشور منو بھائی کو‘ جو ٹی وی ڈرامے بھی کمال کے لکھتے تھے‘ منتخب کیا گیا۔ ڈراموں کی یہ سیریز (جہاں تک میرا حافظہ کام کرتا ہے) 'منزل منزل‘ نام کے عنایت اللہ کے ناول پر مبنی تھی۔
منوبھائی کی لکھی ہوئی قسطیں نشر ہونا شروع ہوئیں تو وہ صاحب‘ جو پاکستان بنانے والوں میں اپنا شمار کرتے تھے‘ جگہ جگہ کہنے لگے: بھئی تحریک پاکستان پر ڈرامے نشر ہو رہے ہیں اور میرا کوئی ذکر ہی نہیں۔ یہ بات جب منو بھائی تک پہنچی تو انہوں نے کہا کہ جب جعلی کلیموں کا ذکر کریں گے تو موصوف کا ذکر خود ہی آ جائے گا۔ معلوم نہیں یہ بات اس مسلم لیگی تک پہنچی کہ نہیں مگر جس نے بھی یہ سنا‘ وہ مسکرائے بغیر نہ رہ سکا۔ ایسے کردار شرمندہ بالکل نہیں ہوتے بلکہ جھوٹ کی دنیا میں خوش رہتے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں