5اکتوبر کو دنیا بھر میں اساتذہ کا عالمی دن منایا گیا۔ اہل مغرب معاشرے کے مختلف افراد اور ارکان کی خدمات کوخراج تحسین پیش کرنے کے لیے مختلف ایام مناتے ہیں۔ اسلام کا مزاج اس حوالے سے یکسر جدا ہے۔ اسلام ہر شعبہ زندگی میں کار ہائے نمایاں انجام دینے والے افراد کی خدمات کاہمہ وقت اعتراف کرنے کا قائل ہے اور اسلام اپنے ماننے والوں سے اس امر کا تقاضا کرتا ہے کہ ہر شخص کو اس کے منصب کے لحاظ سے اہمیت دی جائے اور اس کے تمام تر حقوق بروقت ادا کیے جائیں۔
اسلام نے جہاں والدین، اولاد ،رشتہ داروں اور ہمسایوں کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے وہیں پر علم اور صاحبان علم کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا ہے۔ قرآن مجید کی سورہ زمر کی آیت نمبر9میں اللہ تعالیٰ نے اس امرکو واضح کیا ہے کہ کیا جاننے والے اور انجان برابر ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے سورہ فاطرکی آیت نمبر 28 میں اس امر کا بھی ذکر فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے اُس کے عالم بندے ہیں۔اسی طرح سورہ مجادلہ کی آیت نمبر11 میں صاحبان ایمان اور صاحبان علم کے بلند درجات کا ذکر کیا گیا۔
معلم یا استاد کی اس سے بڑی عظمت کیا ہو سکتی ہے کہ تمام انبیاء بشمول حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معلم تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اعزاز تھا کہ آپ کو پوری کائنات کی تعلیم اور رہنمائی کے لیے مبعوث فرمایا گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت سے ایک عرصہ قبل جد الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تعمیر کعبہ کے بعد ایک دعا مانگی تھی کہ اللہ تعالیٰ ان کے لیے ان میں سے ایک رسول مبعوث فرما جو ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور ان کو پاک صاف کرے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کو اللہ تعالیٰ نے قبول فرما لیااور حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں کائنات کو سب سے بڑے معلم اور استاد حاصل ہو گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والی ذمہ داری کو بطریق احسن نبھایا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو کتاب وحکمت کا درس بھر پور طریقے سے دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم و تربیت کا یہ اثر تھا کہ بتوںکے آستانوں پر جھکنے والے ایک اللہ کی چوکھٹ پرجھکنے والے بن گئے،عورتوں کی عزت وآبروکو پامال کرنے والے ان کی عزتوں کے رکھوالے بن گئے،شراب کے نشے میں دھت رہنے والے پورے عالم کی مدہوشیوں کو دور کرنے والے بن گئے۔
انبیاء علیہم السلام کو حاصل ہونے والے علم کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ وہ ہر اعتبار سے فائدہ مند علم تھا اور ہر قسم کے شک اورشبہے سے پاک تھا۔ انبیاء علیہم السلام اللہ تعالیٰ سے علم کو بذریعہ وحی حاصل کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کے قلوب و اذہان کو وہ وسعت عطا فرمائی جو اللہ کی جمیع مخلوقات میں سے کسی اور کو حاصل نہ ہوئی۔الہامی کتب میں سے سب سے زیادہ جامع اور موثر کتاب قرآن مجید کا نزول حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب اطہر پر ہوااور اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے جامع اور کامل شریعت بھی عطا فرمائی۔ اس وافر علم کے حصول کے باوجود بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی پر اللہ تعالیٰ نے وحی کا نزول فرمایاکہ آپ کہہ دیجئے'' اے میرے رب میرے علم میں اضافہ فرما‘‘۔ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میںبعض صحابہ نے اپنے آپ کو حصول علم کے لیے وقف کیے رکھا۔ ان صحابہ میں سے کچھ تفسیر،کچھ احادیث،کچھ فقہ اور کچھ زبان و ادب کے ماہر تھے اور بعض صحابہ کرام رضوان علیہم اجمعین بیک وقت ان تمام علوم پر عبور رکھتے تھے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں شرعی تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کیا وہیں پر دنیاوی علوم کی اہمیت کو بھی واضح فرمایا۔ چنانچہ بدر کے موقع پر بعض غیر مسلم قیدیوں کی رہائی کے لیے اس شرط کوبھی عائد کیا گیا کہ وہ صحابہ کو تعلیم دیں گے۔لازمی بات یہ ہے کہ بدر کے غیر مسلم قیدی علمِ دین کے ماہر نہ تھے بلکہ فقط دنیاوی علوم سے بہرہ ور تھے۔
اساتذہ کی اہمیت کے ساتھ ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت واحادیث سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ اساتذہ کے شاگردوں پر حقوق بھی ہیںجن میں سے سب سے بڑااور اہم حق اساتذہ کا غیر مشروط احترام ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب جہاں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دل وجان سے عزت فرماتے تھے وہیں پر علم کی بنیاد پر ایک دوسرے کا احترام بھی کرتے تھے۔
اساتذہ کا دوسرا اہم حق یہ ہے کہ ان کے علم سے بھر پور استفادہ کیا جائے ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے کہ تم اہل ذکرسے سوال کرو اگر تم نہیں جانتے۔ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو یہ وصف بھی عطا فرمایا تھا کہ وہ دلیل اور علم کے سامنے ہرگز اپنی رائے پر اصرار نہ کرتے تھے۔ بلکہ علم اور دلیل کو فوراً تسلیم کر لیا کرتے تھے۔ اثرِ حاضر کے شاگردوں کو بھی اپنے اساتذہ کی باتوں کو کھلے دل سے مان لینا چاہیے اور ہر دلیل والی بات کو بلا چوں چراں قبول کرلینا چاہیے۔ اساتذہ کا دوسرا حق یہ بھی ہے کہ علم اور حکمت کی جو بات شاگرد نے ا ن سے سنی ہے ان کی ذات کے حوالے دئیے بغیر نہ کریں۔ احادیث کی صحت اور ثقات کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ محدثین جو کچھ اپنے اساتذہ سے سیکھتے اور سنتے رہے اس کو من وعن اپنے شاگردوں کے سامنے رکھتے رہے۔ چنانچہ صحیح احادیث کی اسناد متصل ہوتی ہیں۔
بعض لوگ علم وحکمت اور تحقیق کی بات اپنے اساتذہ سے سنتے ہیں لیکن ان کا حوالہ دئیے بغیر اس تحقیق کو اپنی ذات کے ساتھ منسوب کرتے ہیں۔ یہ علمی خیانت اور قابل اساتذہ کی حق تلفی ہے۔ علمی سرقے میںـملوث افراد جلد یا بدیر بے نقاب ہو جاتے ہیںاور علمی طبقے میں ایسے افراد کو کبھی بھی قبولیت اور پذیرائی حاصل نہیں ہوتی۔
انبیاء کے علاوہ کوئی بھی عالم اور استاد کامل نہیں ۔ اس لیے کسی موقع پر استاد کی بات سے اختلاف بھی ہو سکتا ہے۔ قابل اور ذہین شاگرد جب اپنے استاد سے اختلاف کرتا ہے توکبھی بھی اپنے استاد کی بات کو تنقید کا نشانہ نہیں بناتا بلکہ دلائل کی بنیاد پر اپنا موقف واضح کرتا ہے۔ امام ابوحنیفہؒ اور امام ابن تیمیہؒ جیسے آئمہ کے شاگردوں نے بھی ان سے اختلاف کیا لیکن ہمیشہ ان کے شخصی احترام کو ملحوظ خاطر رکھا۔ ایک اچھا شاگرد اپنے استاد کی اچھی شہرت کا باعث ہوتا ہے اور تعلیمی مدارج طے کرنے کے دوران وہ کبھی اپنے استاد کی شہرت کو داغدار نہیں کرتا۔ تاہم ایک شاگرد کی امانت اور دیانت کا تقاضا یہ بھی ہے کہ اگر استاد کے موقف ، تحقیق یا استدلال میں کوئی کمی وکوتاہی رہ جائے تو اس پر خواہ مخواہ پردہ بھی نہیں ڈالتا۔ وہ اپنے استاد کی کردار کشی کیے بغیر اس کی تحقیقی کمزوری کو بھی اہل علم کے ریکارڈ کی درستگی کے لیے واضح کر دیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی سورہ حشر میں مومنوں کوا س امر کی تلقین کی ہے کہ انہیں اپنے سے پہلے دنیا سے چلے جانے والے مومنوں کے لیے دعائے مغفرت کرنی چاہیے ۔ دنیا سے چلے جانے والے صاحب ایمان افراد میں سے والدین کے بعدہماری دعاؤں کے سب سے زیادہ مستحق ہمارے اساتذہ ہیںاور ہمیں اس تیز رفتار زندگی کے گزرتے ہوئے لمحات کے دوران اپنے استادوں کی شفقتوں، محبتوں اور نیک تمناؤں کا احساس کرتے ہوئے ہمیشہ انہیں اپنی دعاؤں میں یاد رکھنا چاہیے تاکہ ہمارے دنیا سے چلے جانے کے بعد اہل ایمان ہمیں بھی اپنی دعاؤں اور نیک تمناؤں میں یاد رکھیں۔