"AIZ" (space) message & send to 7575

ایک سکول کی افتتاحی تقریب

بھائی انعام الرحمن ضلع قصور سے تعلق رکھنے والے ایک علم پرور دوست ہیں ۔لوگوں کے لیے تعلیم کا بندوبست کرنا اور طلباء کی تعمیر وترقی کے لیے کوشاں رہنا آپ کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ 6 جنوری کو انہوں نے کوٹ رادھا کشن میں یونیک سکول کی افتتاحی تقریب کا انعقاد ایک مقامی ہال میں کیا۔ ہال میں اس تقریب کے لیے انہوں نے مجھ سے رابطہ کیا۔ میرا 31 دسمبر کو عمرہ پر جانے کا پروگرام تھا؛ چنانچہ میں نے ان سے اس پروگرام میں شرکت سے معذرت کرلی ‘لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ کو کچھ اور ہی منظو ر تھا۔ میر اسفر بوجہ مؤخر ہو گیااور میں6 تاریخ کو پاکستان میں ہی موجود تھا؛ چنانچہ جب انہوں نے مجھ سے ایک مرتبہ پھر رابطہ کیا تو میں نے پروگرام میں شرکت کی حامی بھر لی۔ میں اس پروگرام شرکت کے لیے جب کوٹ رادھا کشن کے مقامی ہال میں پہنچا تو بڑی تعدادمیں دین اور علم سے دلچسپی رکھنے والے لوگ وہاں پر موجود تھے۔ اس تقریب میں شرکت کے لیے لاہور سے یونیک انسٹی ٹیوٹ کے نمائندگان اور علاقے کے مقامی ایم پی اے چوہدری الیاس خان بھی وہاں پر موجو تھے۔
تقریب کا آغاز قرآن مجید کی خوبصورت تلاوت سے کیا گیاا ور اس کے بعد حمد باری تعالیٰ اور پھر نعت رسول مقبول ﷺ کو پڑھا گیا۔ اس کے بعد وہاں پر موجود مہمانوں کا تعارف کروایا گیا اور جدید تعلیم کے تقاضوں کے حوالے سے سٹیج سیکرٹری نے خوبصورت انداز میں اپنی رائے کا اظہار کیا۔ اس کے بعد مجھے بھی تقریب کے شرکاء سے خطاب کی دعوت دی گئی۔ مجھے اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایک عرصہ دراز سے مختلف طرح کی تقریبات میں شرکت کا موقع عنایت کیا ہے‘ لیکن سچی بات یہ ہے کہ جب بھی مجھے کبھی ایسی تقریب میں مدعو کیا گیا‘ جن کا تعلق علم کی نشرواشاعت‘ اس کے فروغ سے ہو ‘تو میں نے اُن میں شمولیت کو ہمیشہ اپنے لیے خوش آئند سمجھا ہے؛ چنانچہ اس موقع پر طلباء ‘ تشنگان علم‘ اساتذہ‘ سیاسی کارکنان اور دینی تحریکوں سے وابستہ افراد کی موجودگی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے میں نے جن خیالات کا اظہار کیا‘ انہیں میں قارئین کی نظر کرنا چاہتا ہوں:
اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتیں بے پایاں ہیں اور اگر انسان ان کو شمار کرنا چاہے تو شمار نہیں کر سکتا۔ ان نعمتوں میں سے ایمان کے بعد علم کا ایک امتیازی مقام ہے۔ ایمان کے بغیر تمام نعمتیں بلا مقصد ہو جاتی ہیں اور ایمان کے ساتھ نعمتوں میں معنویت پیدا ہو جاتی ہے‘ لیکن صاحب ایمان ہونے کے بعد علم کا حصول ہر اعتبار سے باعث برکت اور باعث سعادت ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے گو انسانوں کو فرشتوںاور جنات کے بعد پیدا کیا تھا‘ لیکن حضرت آدم علیہ السلام کو زیور ِ تعلیم سے آراستہ فرما کر ان کو فرشتوں اور جنات پر فوقیت عطا کر دی گئی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو جملہ اشیاء کے ناموں سے آگاہ کیا اور اس کے بعد ان اشیاء کے ناموں کے بارے میں فرشتوں سے سوال کیا تو انہوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ صرف اتنا ہی جانتے ہیں جتنا انہیں سکھایا گیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس موقع پر حضرت آدم علیہ السلام کو ان اشیاء کے ناموں سے آگاہ کرنے کا حکم دیا۔ جب آپؑ نے ان اشیاء کے نام بتلا دیے‘ تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے جمیع فرشتوں کو ان کے سامنے جھکنے کا حکم دیا۔ فرشتوں کی اس جماعت میں کثرت ریاضت کی وجہ سے ایک ابلیس نامی جن بھی شامل ہو چکا تھا‘ لیکن اس نے حضرت آدم علیہ السلام کی علمی فوقیت کے باوجود ان کی عظمت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا‘تو اس کو ہمیشہ کے لیے راندھا ئے درگاہ بنا دیا گیا۔ 
اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلا م کو بہت سی مادی اور روحانی نعمتوں سے نوازا تھا اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کو بادشاہت بھی عطا فرمائی تھی ۔حضرت داؤد علیہم السلام جس وقت اللہ کی تسبیح بیان کیا کرتے تو ان کے ساتھ پہاڑ اور پرندے بھی اللہ کی تسبیح بیان کیا کرتے تھے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کو اللہ نے وسیع عریض سلطنت عطا کی تھی اور جنات‘ چرند‘ پرند کو آپؑ کے تابع بنا دیا؛ حتیٰ کہ ہواؤں کو بھی آپ کے لیے مسخر کر دیا گیا تھا۔ حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلا م کو ملنے والی نعمتوں میں سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے جس نعمت کا خصوصیت سے قرآن مجید میں ذکرکیا ‘وہ ان کو عطا کیا جانے والا علم تھا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ قرآن مجید کی سورہ نمل کی آیت نمبر 15میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور تحقیق ہم نے داؤد اور سلیمان کو علم عطا کیا۔‘‘ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ زمر کی آیت نمبر9 میں یہ بات بھی ارشاد فرمائی ہے کہ ''کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہو سکتے ہیں۔ ‘‘ یہ بات واضح ہے کہ کسی انسان کو اگرکسی حقیقت یا موضوغ کا ادراک ہو اور اس کے حوالے سے علم ہو تو انجان شخص اس کی حیثیت اور مقام کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔یہ بات بھی حقیقت ہے کہ علم دین کے ساتھ ساتھ دنیاوی علوم بھی انسان اور معاشرے کی تعمیر و ترقی کے لیے بہت ضروری ہیں۔ گو علم دین کو جملہ علوم پر فوقیت حاصل ہے‘ مگر ایک سماج میں رہتے ہوئے تعمیراتی ‘ ترقیاتی ‘ طبی اور سائنسی علوم کے ماہرین کا بھی معاشرے میں موجود ہونا ازحد ضروری ہے۔ ہم اس خواہش کو عرصے سے اپنے دلوں میں بسائے ہوئے ہیں کہ ہم ترقی یافتہ اقوام کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو سکیں لیکن سچی بات یہ ہے کہ اس حوالے سے ملک کو جس علمی سطح پر لے جانے کی ضرورت ہے‘ ہم آج تک اپنے ملک کو اس سطح پر لے کر نہیں جا سکے۔ ہم اس بات کا مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ یورپ کے ترقی یافتہ ممالک جن میں کینیڈا ‘ آسٹریلیا‘ برطانیہ اور دیگر بہت سے ممالک شامل ہیں وہ امیگریشن کے پروگرام کے ذریعے مختلف فنون میں مہارت رکھنے والے باصلاحیت افراد کو اچھے طریقے سے سہولیات دے کر اُن کی ذہانت اور فطانت سے استفادہ کرنے کے لیے ان کو اپنے ممالک میں منتقل کر لیتے ہیں۔ ہم نے اپنے ملک میں علم اور فنون کے ماہرین کے لیے ایسا ماحول اور فضا ہموار نہیں کی‘ جس میں اُن کی نشوونما کو یقینی بنایا جا سکے ‘ ان کی صلاحیتوں سے بہترین طریقے سے استفادہ کیا جاسکے اور ان کی اقتصادی ضروریات کو بھی پورا کیا جا سکے۔ ان وجوہات کی وجہ سے ہمارے ملک میں بیچلر کی سطح پر تعلیم حاصل کرنے والے بہت سے ذہین طلبا دوسرے ممالک میں منتقل ہو کر اپنی خدمات کو ان ممالک کے لیے انجام دے رہے ہیں۔ 
علم اور دین کے تعلق کے حوالے سے ہمیں اس حقیقت کو بھی پہچان لینا چاہیے کہ ایک سماج میں صرف دینی علوم کے ماہرین ہی کو دینی اعتبار باعمل نہیں ہوناچاہیے ‘بلکہ دین سے وابستگی رکھنے والے ڈاکٹرز ‘ انجینئرز‘ پیشہ ورانہ علوم کے ماہرین اور مینجمنٹ کی صلاحتیں رکھنے والے افراد بھی معاشرے کی انتہائی اہم ضرورت ہوتے ہیں۔ معاشرے میں ایسے افراد کا موجود ہونا انتہائی ضروری ہے ‘جو دین کے تقاضوں کو بھی سمجھتے ہوں اور دنیا میں بھی رہبری کے فریضے کو انجام دینا چاہتے ہوں؛ چنانچہ ہمیں اپنے تعلیمی اداروں اور درسگاہوں میں ایسے ماحول کو ضرور پیداکرنا چاہیے جہاں پر بیک وقت دنیاوی علوم اور دین سے وابستگی رکھنے والے طلباء ‘ماہرین تعلیم ‘اساتذہ اور پیشہ ورانہ مہارت کے حامل افراد تیار ہو ں سکیں۔ 
اس حوالے سے ہمارے عصری علوم کی نشرواشاعت میں مصروف اور ان سے وابستہ اداروں کو اپنی ذمہ داریوں کو بھی پہچاننا چاہیے اور تعلیمی اداروں اور درسگاہوں کا ماحول اس انداز میں استوار کرنا چاہیے کہ ان میں پڑھنے والے طلباء اپنے مذہب اور سماجی اقدار سے بدظن ہونے کی بجائے ان سے گہری وابستگی رکھنے والے ہوں؛ چنانچہ اس حوالے سے ہمیں اکبر الٰہ آبادی کی اس بات کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ ؎
ہم ایسی کل کتابوں کو قابل ضبط سمجھتے ہیں 
کہ جن کو پڑھ کر بچے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں
اور علامہ اقبالؔ کی یہ بات بھی اپنے ذہن میں بٹھانے کی ضرورت ہے :؎ 
خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر 
لب خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ
ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ
اگر ہمارے عصری ادارے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کریں اور دینی اداروں کے طلباء دینی علوم کے ساتھ ساتھ اپنے اسلاف کی روایات سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے دنیاوی علوم وفنون کو بھی صحیح طریقے سے سمجھیں ‘تاکہ شریعت کی روشنی میں ان فنون سے فائدہ حاصل کیا جا سکے‘ تو یقینا ہمارا معاشرہ علمی اعتبار سے ایک مثالی معاشرہ بن سکتا ہے۔ علم اندھیروں‘ ظلمتوں اور معاشرتی بیگاڑ کو دور کرنے کا بہترین ذریعہ ہے اور ہمیں علم کے فروغ کے لیے معاشرے کے تمام طبقات کو ہم آہنگ ہو کر اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنا چاہیے۔ 
شرکاء مجلس نے میری اس تقریر کو بڑی توجہ کے ساتھ سنا اور بعدازاں تقریب کے شرکاء اور منتظمین نے بڑے بھرپورا نداز میں مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور بڑے پرتپاک انداز میں ہمیں وہاں سے رخصت کیا۔ یوں سکول کی یہ افتتاحی تقریب بہت سی خوبصورت یادوں کو اپنے جلو میں لیے ہوئے اختتام پذیر ہو گئی۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں