"AIZ" (space) message & send to 7575

دھوکہ دہی

ہمارے معاشرے میں دھوکہ دہی کا چلن عام ہے اور لوگ مختلف معاملات میں ایک دوسرے کو دھوکہ دینے اور بے وقوف بنانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے۔ دھوکہ دہی کرنے والے کئی مرتبہ دینی معاملات میں بھی دھوکہ دینے سے گریز نہیں کرتے۔ہم اس بات کا مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ کئی مرتبہ فقط اپنی جیب کو بھرنے کے لیے کسی کے ایمان پر ڈاکہ ڈال دیا جاتا ہے۔ کسی کو غلط مسئلہ بتانا یا غلط صحیح کو ملا کر بتلانا قطعاً معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ اللہ تعالیٰ نے ان معاملات کی کلام حمید کے مختلف مقامات پر مذمت کی ہے۔ اللہ تعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر41 ‘42میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور مت بیچو میری آیتوں کو تھوڑی قیمت میں اور پس صرف تم مجھ ہی سے ڈرو۔ اور خلط ملط نہ کرو‘ حق کو باطل کے ساتھ اور حق کو (نہ ) چھپاؤ؛حالانکہ تم جانتے ہو۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ ہی میں اپنی آیات کو چھپانے والوں کے بارے میں بڑی سخت وعید کرتے ہوئے آیت نمبر 160ارشاد فرمایا:''بے شک وہ لوگ جو چھپاتے ہیں اسے جو ہم نے نازل کیا واضح دلائل اور ہدایت کو اس کے بعد کہ ہم نے کھول کر بیان کر دیا اسے لوگوں کے لیے (اس) کتاب میں وہی لوگ ہیں (کہ) لعنت کرتا ہے ‘ان پر الہ اور لعنت کرتے ہیں‘ ان پر لعنت کرنے والے‘ مگر وہ لوگ جنہوں نے توبہ کر لی اور اصلاح کر لی اور بیان کر دیا (جسے چھپاتے رہے) تو وہی لوگ ہیں کہ میں توبہ قبول کرتا ہوں ان کی اور میں ہی توبہ قبول کرنے والا ‘ نہایت مہربان ہوں۔ ‘‘
اسی طرح نکاح کے معاملات میں بھی دھوکہ دہی سے کام لیا جاتا ہے۔ کئی مرتبہ لڑکے کی آمدن اور کئی مرتبہ لڑکی کی عمر اور تعلیم کے حوالے سے جھوٹ اور مبالغہ آمیزی سے کام لیا جاتا ہے‘ جس مقصد فقط وقتی طور پر رشتے کی تکمیل ہوتاہے‘ جبکہ بعدازاں اس دھوکے کے نتیجے میں کئی مرتبہ خاندانوں میں شدید قسم کا بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کلام حمید میں سیدھی بات کرنے کا حکم دیااور جس آیت مبارکہ میں سیدھی بات کرنے کا حکم دیا وہ خطبہ نکاح کا بھی حصہ ہے۔ اللہ تعالیٰ سورہ احزاب کی آیت نمبر 71 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اے (وہ لوگو) جو ایمان لائے ہو اللہ سے ڈرو اور بالکل سیدھی بات کہو۔ وہ درست کر دے گا تمہارے لیے تمہارے اعمال اور وہ بخش دے گا تمہارے لیے تمہارے گناہ۔‘‘ 
کاروبار میں دھوکہ دہی‘ کم ماپنا‘ کم تولنا اور ملاوٹ کرنا اس وقت مسلمانوں میں عام ہے۔ قوم مدین اس لیے چنگھاڑ کا نشانہ بنی کہ ان میں کاروباری اعتبار سے بے اعتدالیاں‘ دھوکے بازی اور فریب کی بری اعادات پائی جاتی تھی۔دھوکہ دہی کی مذمت کے حوالے سے چند اہم احادیث بھی درج ذیل ہیں:
1۔صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا''ہر دھوکہ دینے والے کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا ہو گا‘ جس کے ذریعہ وہ پہچانا جائے گا۔‘‘
2 ۔ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓفرماتے ہیں: اے مسلمانو! تم اہل کتاب سے کسی مسئلہ میں کیوں پوچھتے ہو۔ تمہاری کتاب جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبیﷺپر نازل کی ہے‘ وہ اللہ کے یہاں سے بالکل تازہ آئی ہے‘ خالص ہے اس میں کوئی ملاوٹ نہیں ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے خود تمہیں بتا دیا ہے کہ اہل کتاب نے اللہ کی کتابوں کو بدل ڈالا۔ وہ ہاتھ سے ایک کتاب لکھتے اور دعویٰ کرتے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے ‘تاکہ اس کے ذریعہ سے تھوڑی پونچی حاصل کریں‘ تم کو جو اللہ نے علم دیا ہے کیا وہ تم کو اس سے منع نہیں کرتا کہ تم دین کی باتیں اہل کتاب سے پوچھو۔ اللہ کی قسم! ہم تو ان کے کسی آدمی کو نہیں دیکھتے کہ جو کچھ تمہارے اوپر نازل ہوا ہے ‘اس کے متعلق وہ تم سے پوچھتے ہوں۔ 
3۔ صحیح بخاری میں حضرت سعد ؓروایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا تھا کہ اہل مدینہ کے ساتھ جو شخص بھی فریب کرے گا ‘وہ اس طرح گھل جائے گا‘ جیسے نمک میں پانی گھل جایا کرتا ہے۔ 
4۔ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ ایک خاتون نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میری سوکن ہے اگر اپنے شوہر کی طرف سے ان چیزوں کے حاصل ہونے کی بھی داستانیں اسے سناؤں ‘جو حقیقت میں میرا شوہر مجھے نہیں دیتا تو کیا اس میں کوئی حرج ہے؟ نبی کریم ﷺنے اس پر فرمایا کہ جو چیز حاصل نہ ہو‘ اس پر فخر کرنے والا اس شخص جیسا ہے جو فریب کا جوڑا‘ یعنی ( دوسروں کے کپڑے ) مانگ کر پہنے۔ 
5۔ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ معاویہ ؓ آخری مرتبہ مدینہ منورہ تشریف لائے اور خطبہ دیا۔ آپ نے بالوں کا ایک گچھا نکال کے کہا کہ یہ یہودیوں کے سوا اور کوئی نہیں کرتا تھا۔ نبی کریمﷺنے اسے ''زور‘‘ یعنی فریبی فرمایا‘ یعنی جو بالوں میں جوڑ لگائے تو ایسا آدمی مرد ہو یا عورت وہ مکار ہے ‘جو اپنے مکر و فریب پر اس طور پر پردہ ڈالتا ہے۔
6۔ صحیح مسلم میں روایت ہے کہ ابوہریرہ ؓ کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا : ''آخری زمانے میں (ایسے ) دجال ( فریب کار ) کذاب ہوں گے‘ جو تمہارے پاس ایسی احادیث لائیں گے ‘جو تم نے سنی ہوں گی‘ نہ تمہارے آباء نے ۔ تم ان سے دور رہنا ( کہیں ) وہ تمہیں گمراہ نہ کر دیں اور تمہیں فتنے میں نہ ڈال دیں ۔ ‘ ‘ 
7۔سنن ابن ماجہ میں اسما بنت یزید سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺکی خدمت میں کھانا لایا گیا تو آپ ؐنے ہم سے کھانے کو کہا‘ ہم نے عرض کیا: ہمیں اس کی خواہش نہیں ہے‘ اس پر آپؐ نے فرمایا: تم لوگ بھوک اور غلط بیانی کو اکٹھا نہ کرو ۔ 
8۔ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن ابی اوفی ؓسے روایت ہے کہ بازار میں ایک شخص نے ایک سامان دکھا کر قسم کھائی کہ اس کی اتنی قیمت لگ چکی ہے؛ حالانکہ اس کی اتنی قیمت نہیں لگی تھی ‘اس قسم سے اس کا مقصد ایک مسلمان کو دھوکہ دینا تھا۔ اس پر یہ آیت اتری ''جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت کے بدلہ میں بیچتے ہیں‘‘۔
9۔ صحیح بخاری میں عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ''نجش‘‘ ( فریب‘ دھوکہ ) سے منع فرمایا تھا۔ 
10۔صحیح بخاری میں حضرت ابو سعیدؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے منابذہ کی بیع سے منع فرمایا تھا۔ اس کا طریقہ یہ تھا کہ ایک آدمی بیچنے کے لیے اپنا کپڑا دوسرے شخص کی طرف ( جو خریدار ہوتا ) پھینکتا اور اس سے پہلے کہ وہ اسے الٹے پلٹے یا اس کی طرف دیکھے ( صرف پھینک دینے کی وجہ سے وہ بیع لازم سمجھی جاتی تھی ) اسی طرح نبی کریم ﷺنے بیع ملامسۃ سے بھی منع فرمایا۔ اس کا یہ طریقہ تھا کہ ( خریدنے والا ) کپڑے کو بغیر دیکھے صرف اسے چھو دیتا ( اور اسی سے بیع لازم ہو جاتی تھی اسے بھی دھوکہ کی بیع قرار دیا گیا۔
11۔صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایا ( بیچنے کے لیے ) اونٹنی اور بکری کے تھنوں میں دودھ کو روک کر نہ رکھو؛ اگر کسی نے ( دھوکہ میں آ کر ) کوئی ایسا جانور خرید لیا تو اسے دودھ دوہنے کے بعد دونوں اختیارات ہیں چاہے تو جانور کو رکھ لے‘ اور چاہے تو واپس کر دے۔
12۔ صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺنے فرمایا ( تجارتی ) قافلوں کی پیشوائی (ان کا سامان شہر پہنچے سے پہلے ہی خرید لینے کی غرض سے ) نہ کرو۔ ایک شخص کسی دوسرے کی بیع پر بیع نہ کرے اور کوئی ''نجش‘‘( دھوکہ فریب ) نہ کرے اور کوئی شہری‘ بدوی کا مال نہ بیچے اور بکری کے تھن میں دودھ نہ روکے۔
13۔صحیح بخاری میں حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ ابوبکر ؓکا ایک غلام تھا جو روزانہ انہیں کچھ کمائی دیا کرتا تھا اور ابوبکرؓ اسے اپنی ضرورت میں استعمال کیا کرتے تھے۔ ایک دن وہ غلام کوئی چیز لایا اور ابوبکر ؓ نے بھی اس میں سے کھا لیا‘پھر غلام نے کہا: آپ کو معلوم ہے؟ یہ کیسی کمائی سے ہے؟ آپ نے دریافت فرمایا: کیسی ہے؟ اس نے کہا :میں نے زمانہ جاہلیت میں ایک شخص کے لیے کہانت کی تھی؛ حالانکہ مجھے کہانت نہیں آتی تھی‘ میں نے اسے صرف دھوکہ دیا تھا‘ لیکن اتفاق سے وہ مجھے مل گیا اور اس نے اس کی اجرت میں مجھ کو یہ چیز دی تھی‘ آپ کھا بھی چکے ہیں۔ ابوبکر ؓنے یہ سنتے ہی اپنا ہاتھ منہ میں ڈالا اور پیٹ کی تمام چیزیں قے کر کے نکال ڈالیں۔ 
14۔ سنن ابن ماجہ میں حضرت اُم سلمہ ؓ سے ایک روایت میں مذکور ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: کہ ہو سکتا ہے کہ تم میں سے کوئی اپنی دلیل بیان کرنے میں دوسرے سے زیادہ چالاک ہو‘ اور اسی کے مطابق فیصلہ کیا گیا‘ جو سنایا گیا‘ لہٰذا اگر کسی کو اس کے بھائی کا کوئی حق دلایا گیا تو وہ اس کو نہ لے‘ اس لیے کہ اس کے لیے آگ کا ایک ٹکڑا دلایا گیا ہے‘ جس کو وہ قیامت کے دن لے کر آئے گا ۔ 
قرآن مجید کی ان آیات اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو دین ‘ نکاح‘ تجارت اور زندگی کے تمام معاملات میں سچائی اور خیرخواہی سے کام لینا چاہیے اور دھوکہ اور فریب سے ہر صورت بچنا چاہیے۔ اگر ہم دھوکہ دہی اور فریب سے بچ جائیں تو ہمارا معاشرہ ایک مثالی معاشرہ بن سکتا ہے اور معاشرے میں بسنے والے افراد کو ذہنی ‘ نفسیاتی اور مالی تکالیف اور مشکلات سے بچایا جا سکتا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں