ہمارے معاشرے میں عام طور پر لوگ اپنی زبان کا درست استعمال نہیں کرتے اور اپنی زبان کے ذریعے بہت سے ایسے کام کرتے رہتے ہیں ‘جو مخلوق کی دل آزاری کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا بھی سبب بن جاتے ہیں۔ انسان اپنی زبان کو جہاں پر شرانگیزی‘ غیبت‘ بہتان طرازی‘ تکبر کے اظہار ‘ جھوٹ اور فساد کو پھیلانے کے لیے استعمال کر سکتا ہے‘ وہیں پر اپنی زبان کے ذریعے خیر کے بہت سے کام کر سکتا ہے۔ زبان کو خیر کے کاموں میں لگانے سے انسان ان کاموں سے بچنے میں کامیاب ہو جاتا ہے‘ جن کے نتیجے میں انسان ہلاکت کے گھڑے میں گر جاتا ہے۔ زبان سے لیے جانے والے خیر کے بعض اہم کام درج ذیل ہیں:۔
1۔ذکر الٰہی: اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا یقینا بہت بڑی سعادت کی بات ہے۔ قرآن مجید نے عقلمند اہل ایمان کی شان بیان کی ہے کہ وہ اُٹھتے اور بیٹھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے اور کائنات کی تخلیق میں غوروفکر کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سورہ آل عمران کی آیت نمبر 191میں ارشاد فرماتے ہیں:''وہ لوگ جو ذکر کرتے ہیں ‘اللہ کا کھڑے ہو کر اور بیٹھ کر اور اپنے پہلوؤں کے بل اور غوروفکر کرتے ہیں آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں (اور کہتے ہیں) اے ہمارے رب! نہیں پیدا کیا تو نے یہ (سب کچھ )بیکار‘ تو پاک ہے (ہر عیب سے) پس بچا ہمیں آگ کے عذاب سے۔‘‘اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے مختلف مقامات پر ذکر الٰہی کے بہت سے فوائد بیان کیے ہیں سورہ بقرہ کی آیت نمبر 152میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ''پس تم یاد رکھو مجھے میں یاد رکھوں گا‘ تمہیں۔‘‘ اسی طرح اللہ تعالیٰ سورہ احزاب کی آیت نمبر 41‘42اور 43میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اے لوگو! جو ایمان لائے ہو یاد کرو اللہ کو بہت زیادہ یاد کرو۔ اور تسبیح (پاکیزگی) بیان کرو اُس کی صبح وشام۔ وہی ہے‘ جو رحمتیں بھیجتا ہے تم پر اور اُس کے فرشتے (دعائے رحمت کرتے ہیں) ‘تاکہ وہ نکالے تمہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف اور وہ ہے مومنوں پر بہت رحم کرنے والا۔‘‘ذکر الٰہی میں سرفہرست قرآن مجید کی تلاوت ہے۔ تلاوت قرآن مجید کے ساتھ ساتھ نبی کریمﷺ نے بہت سے اہم اذکار کی طرف ہماری رہنمائی فرمائی ہے۔ جن میں تہلیل‘ تسبیح‘ استغفار اور درود شریف خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔
ذکر الٰہی کی اہمیت اور اس کے اثرات کو جاننے کے لیے صحیح بخاری کی آخری حدیث پر بھی غور کرنا چاہیے۔ حضرت ابو ہریرہؓسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا ''دو کلمے ایسے ہیں‘ جو اللہ تبارک و تعالیٰ کو بہت ہی پسند ہیں ‘جو زبان پر ہلکے ہیں اور قیامت کے دن اعمال کے ترازو میں بوجھل اور باوزن ہوں گے‘ وہ کلمات مبارکہ یہ ہیں ''سبحان اللہ وبحمدہ‘سبحان اللہ العظیم۔‘‘
2۔ دعا: ذکر الٰہی کی طرح دعا کے دوران بھی انسان اپنی زبان کو بہترین انداز میں استعمال کر سکتا ہے۔ زبان سے انسان اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مناجات کرکے جہاں پر اپنی پریشانیوں‘ دکھوں اور اضطراب سے نجات حاصل کرتا ہے‘ وہیں پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کا بھی حق دار ٹھہرتا اور اس کی قربت کی منازل بھی طے کرتا ہے۔ دعا کے حوالے سے اللہ تعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 186میں ارشادفرماتے ہیں: ''اور جب آپ سے پوچھیں میرے بندے میرے بارے میں تو (بتا دیں) بے شک میں قریب ہوں میں قبول کرتا ہوں دعا کرنے والے کی پکار کو جب وہ مجھے پکارے پس چاہیے کہ (سب لوگ) حکم مانیں میرا اور چاہیے کہ وہ ایمان لائیں مجھ پر تاکہ وہ راہِ راست پا لیں۔‘‘ اسی طرح سورہ نمل کی آیت نمبر 62میں ارشاد ہوا: ''(کیا یہ بت بہتر ہے)یا جو (دعا)قبول کرتا ہے لاچار کی جب وہ پکارتا ہے اُسے اور وہ دور کرتا ہے تکلیف کو اور وہ بناتا ہے تمہیں جانشین زمین میں کیا کوئی (اور)معبود ہے اللہ کے ساتھ ؟ بہت کم تم نصیحت قبول کرتے ہو۔‘‘ قرآن پر تدبر کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے تمام انبیاء علیہم السلام اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں آکر تواتر سے دعاؤں کو مانگتے رہے اور اللہ تعالیٰ ان کی دعا ؤں کو قبول ومنظور فرماتے رہے۔ دعا کے حیرت انگیز نتائج کے حوالے سے صحیح بخاری میں عہد رسالت مآبﷺ کا ایک خوبصورت واقعہ یوں بیان کیا گیا ہے:
''حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول کریمﷺجمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے کہ ایک شخص آیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! پانی کا قحط پڑ گیا ہے‘ اللہ سے دعا کیجئے کہ ہمیں سیراب کر دے۔ آپ ﷺ نے دعا کی اور بارش اس طرح شروع ہوئی کہ گھروں تک پہنچنا مشکل ہو گیا۔ دوسرے جمعہ تک برابر بارش ہوتی رہی۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر (دوسرے جمعہ میں ) وہی شخص یا کوئی اور کھڑا ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ بارش کا رخ کسی اور طرف موڑ دے۔ رسول اللہ ﷺنے دعا فرمائی کہ ''اے اللہ ہمارے اردگرد بارش برسا ہم پر نہ برسا۔‘‘ انس ؓنے کہا کہ میں نے دیکھا کہ بادل ٹکڑے ٹکڑے ہو کر دائیں بائیں طرف چلے گئے‘ پھر وہاں بارش شروع ہو گئی اور مدینہ میں اس کا سلسلہ بند ہوا۔‘‘
اسی طرح دعا کے غیر معمولی اثرات کے حوالے سے نبی کریمﷺنے سابقہ امتوں کے ایک حیرت انگیر واقعہ کو بیان فرمایا:
''صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛ تین شخص کہیں باہر جا رہے تھے کہ اچانک بارش ہونے لگی۔ انہوں نے ایک پہاڑ کے غار میں جا کر پناہ لی۔ اتفاق سے پہاڑ کی ایک چٹان اوپر سے لڑھکی ( اور اس غار کے منہ کو بند کر دیا ‘جس میں یہ تینوں پناہ لیے ہوئے تھے ) اب ایک نے دوسرے سے کہا کہ اپنے سب سے اچھے عمل کا جو تم نے کبھی کیا ہو‘ نام لے کر اللہ تعالیٰ سے دعا کرو۔
تینوں مسافروں نے اپنے اپنے اچھے اعمال کا واسطہ دے کر دعا مانگی۔ پتھر ہر دعا کے بعد سرکتا رہا یہاں تک کہ تیسرے شخص کی دعا کے بعد غار پورا کھل گیا اور وہ تینوں شخص باہر آ گئے۔‘‘
3۔ خیر کی تلقین اور برائی سے منع کرنا: زبان کا ایک مثبت استعمال یہ بھی ہے کہ انسان زبان سے خیر کی تلقین کرتا رہے اور برائی سے روکتا رہے۔ معروف کاموں کا حکم دینا اور برائی سے روکنا تمام انبیاء علیہم السلام اور خصوصاً حضرت رسول اللہﷺ کی سنت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ آل عمران کی آیت نمبر 110میں اُمت محمدیہ کے اس منصب کو یوں بیان فرمایا: ''تم بہترین اُمت ہو (جسے)نکالا (پیدا کیا)گیا ہے لوگوں (کی اصلاح)کے لیے (کہ)تم حکم دیتے ہو نیکی کا اور تم روکتے ہو برائی سے اور تم ایمان لاتے ہو اللہ پر ‘ اور اگر ایمان لے آتے اہل کتاب (تو) یقینا بہتر ہوتا ان کے لیے اُن میں سے کچھ ایمان لے آئے ہیں اور ان کی اکثریت نافرمان ہی ہے۔ ‘‘اسی طرح سور ہ حم سجدہ کی آیت نمبر 33میں ارشاد ہوا: ''اور کون زیادہ اچھا ہے بات کے لحاظ سے اس سے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک عمل کرے اور کہے کہ بے شک میں فرمانبردار وں میں سے ہوں۔‘‘
4۔ اچھے اخلاق اور حیاداری کی تلقین:اچھے اخلاق اور حیاداری کی تلقین کرنا بھی زبان کے درست استعمال میں شامل ہے؛ چنانچہ صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے روایت کی کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک آدمی سے سنا جو اپنے بھائی کو حیا کے بارے میں نصیحت کر رہا تھا تو آپ ﷺنے فرمایا :'' ( حیا سے مت روکو ) حیا ایمان میں سے ہے ۔‘ ‘
5۔ جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا: لوگوں کی ایک بڑی تعداد بااثر اور صاحب ثروت لوگوں کے سامنے حق بات کہنے سے کتراتی ہے جب کہ سلطانِ جابر کے سامنے کلمہ حق کہنا افضل ترین جہاد ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے نمرود جب کہ موسیٰ علیہ السلام نے فرعون اور ہامان کے سامنے کلمہ حق کہا۔ نبی کریمﷺ بھی روسائے قریش کے سامنے تواتر سے حق بات کہتے رہے؛چنانچہ اہل ایمان کو بھی ہر موقع پر حق بات کا اظہار کرتے رہنا چاہیے۔
6۔ بڑوں کی عزت اور چھوٹوں پر شفقت کرنا: بعض لوگ زبان سے بڑوں کی تعظیم میں کمی کرتے اور چھوٹوں کی تحقیر کرتے ہیں۔ جب کہ احادیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں بڑوں کی عزت اور چھوٹوں سے شفقت والا برتاؤ کرنا چاہیے۔ اس حوالے سے جامع ترمذی میں حضرت انس بن مالک ؓسے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا: ''وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے‘ جو ہمارے چھوٹوں پر مہربانی نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی عزت نہ کرے۔‘‘
7۔ مشورہ: جس سے مشورہ کیا جائے اس پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ درست مشورہ دے ‘ مشورے میں خیانت کرنے والا جہاں پر مخلوق کی حق تلفی کرتا وہیں پر اللہ تبارک وتعالیٰ کی نافرمانی کا بھی ارتکاب کرتا ہے۔ صحیح مشورہ دینے والا بھی یقینا زبان کا درست استعمال کرتا ہے۔
اگر زبان کا درست استعمال کیاجائے ‘تو یقینا انسان بہت سی بھلائیاں اور خیرکو جمع کر سکتا ہے اور نتیجتاً اپنی نیکیوں کا وزن بڑھا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو زبان کا درست استعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)