رسول کریمﷺ کی عظمت ہرا عتبار سے مسلّم ہے اور پوری کائنات میں کوئی بھی شخصیت آپ کے مقام اور مرتبے کے مقابلہ کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کی قربت اور بندگی کے اعتبار سے آپﷺ نے جس مقام کو حاصل کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انسانی سماج پر بھی آپﷺ نے غیر معمولی اثرات مرتب کئے۔ انسانی زندگی کے جملہ پہلوؤں پر آپﷺ کی شخصیت اور تعلیمات کے اثرات انتہائی نمایاں اور واضح ہیں۔انسانی تاریخ نے آپﷺ کی آمد کے بعد ایک نئی کروٹ لی ۔آپ ﷺ کی آمد سے قبل اور آپﷺ کی بعثت کے بعد آنے والوں معاشروں میں غیر معمولی فرق محسوس کیا جا سکتا ہے۔ جس کی مثال نہ آپﷺ سے پہلے پیش کی جا سکتی ہے اور نہ بعد میں۔ انسانی زندگی کے بعض پہلوؤں پر نبی کریمﷺ کی شخصیت اور تعلیمات کے اثرات درج ذیل ہیں:
1: عقائد پر اثرات: نبی کریمﷺ کی آمد سے قبل لوگ اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات کے حوالے سے مختلف طرح کے وسوسوں اور باطل تصورات میں گھرے ہوئے تھے۔ کوئی سورج‘چاند ‘ ستارے کی پوجا کرنے میں مصروف تھا تو کوئی شجر وحجرکو اپنا معبود سمجھ رہا تھا۔ مسیحی اللہ تبارک وتعالیٰ کی وحدانیت کی بجائے عقیدہ ٔ تثلیث کا پرچار کرنے میں مصروف تھے۔ یہود عزیرعلیہ السلام کو اللہ کا بیٹا سمجھ رہے تھے اور اپنے علما کو ربوبیت کے مقام پر پہنچا چکے تھے۔ نبی کریم ﷺنے اللہ تبارک وتعالیٰ کی وحدانیت کا کامل تصور پیش کیا اور عقیدۂ توحید کے حوالے سے تشویش اوراُلجھن کا شکار لوگوں کو سیدھا راستہ دکھلایا۔ نبی کریمﷺ کی تعلیمات کا یہ اثر ہوا کہ آپﷺ کی حیات ِمبارکہ ہی میں جزیرۃ العرب بت پرستی سے پاک ہو چکا تھا اور مشرکین ِمکہ اور جزیرۃ العرب کے کفار معبودانِ باطل کی پوجا چھوڑ کر اللہ واحدہ لاشریک کے آستانے پر جھکنے والے بن چکے تھے۔ نبی کریمﷺ نے اجرام سماویہ اور مظاہرِ فطرت کی پوجا کی بھی بھرپور انداز میں تردید کی اور لوگوں کے سامنے اس بات کو رکھا کہ اجرامِ سماویہ کے اتار اور چڑھاؤ سے اس حقیقت کو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ خالق نہیں بلکہ مخلوق ہیں۔ آپﷺ کی حیات مبارکہ میں حدیبیہ کے مقام پر بارش ہوئی تو آپ ﷺنے اس موقع پر ستارہ پرستی کی حقیقت کو واضح فرمایا۔صحیح بخاری میں حضرت زید بن خالد جہنی ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ہمیں حدیبیہ میں صبح کی نماز پڑھائی اور رات کو بارش ہو چکی تھی‘ نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپﷺ نے لوگوں کی طرف چہرے کا رُخ کیا اور فرمایا: معلوم ہے تمہارے رب نے کیا فرمایا ہے؟ لوگوں نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسولؐ خوب جانتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے رب کا ارشاد ہے کہ صبح ہوئی تو میرے کچھ بندے مجھ پر ایمان لائے اور کچھ میرے منکر ہوئے‘ جس نے کہا کہ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے ہمارے لیے بارش ہوئی تو وہ مجھ پر ایمان لایا اور ستاروں کا منکر ہوا اور جس نے کہا کہ فلاں تارے کے فلانی جگہ پر آنے سے بارش ہوئی وہ میرا منکر ہے اور ستاروں پر ایمان لایا۔
آپ ﷺ نے عقیدہ تثلیث کی حقیقت کو بھی نہایت احسن انداز سے واضح فرما دیا اور سورہ اخلاص میں بیان کردہ حقائق کو لوگوں کے سامنے رکھا کہ اللہ اکیلا ہے ‘ اللہ بے نیاز ہے‘ نہ وہ کسی کا باپ ہے اور نہ ہی کسی کا بیٹا اور نہ ہی اس کے کوئی ہمسر ہے۔ آپﷺ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کے حوالے سے قرآن مجید کے بیان کو لوگوں کے سامنے پیش کیا کہ بے شک عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت اللہ تبارک وتعالیٰ کے نزدیک حضرت آدم علیہ السلام کی مانند ہے۔ جن کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے مٹی سے بنایا اور فرمایا ہو جا تو وہ ہو گئے تھے۔ نبی کریمﷺ کی تعلیمات کا یہ اثر ہو ا کہ لوگ اللہ وحدہ لاشریک کی ذات پر ایمان لے آئے اور اپنے عقائد کو شرک کی آلودگیوں سے پاک وصاف کر لیا۔
2: سماج پر اثرات:نبی کریمﷺ کی آمد سے قبل سماجی برائیاں پورے عروج پر تھیں۔ پورا معاشرہ انانیت ‘ انتقام اور حسد کی لپیٹ میں تھا۔بدکرداری‘ شراب نوشی‘ قتل وغارت گری‘ بیٹیوں کو زندہ درگور کرنا اور اس طرح کی کئی برائیاں معاشرے میں عام تھیں ۔ نبی کریمﷺ کی تعلیمات کا یہ اثر ہوا کہ معاشرہ ان برائیوں سے یکسر پاک ہو گیا۔ آپﷺ نے بیٹی کی عزت اور رتبے کو بلند کیا اور اس کے خونِ ناحق کو روک دیا۔ آپﷺ نے جس وقت مسلمان سماج کو ایمان اور عمل صالح کے رنگ میں رنگا تو اس کے بعد جب شراب پر پابندی کو عائد کیا گیا تو مسلمانوں نے شراب سے یک لخت دوری کو اختیار کر لیا۔ صحیح بخاری میں حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ایک منادی سے ندا کرائی کہ شراب حرام ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا ( یہ سنتے ہی) ابوطلحہ ؓنے کہا کہ باہر لے جا کر اس شراب کو بہا دے؛ چنانچہ میں نے باہر نکل کر ساری شراب بہا دی۔ شراب مدینہ کی گلیوں میں بہنے لگی‘ تو بعض لوگوں نے کہا‘ یوں معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے لوگ اس حالت میں قتل کر دیئے گئے ہیں کہ شراب ان کے پیٹ میں موجود تھی‘‘۔اسی طرح ایک دوسرے کے جانی دشمن لوگ ایک دوسرے کے اس قدر خیر خواہ ہو گئے کہ اپنے جائز حق کو بھی اپنے بھائی پر ایثار کرنے پر آمادہ وتیار ہو جاتے تھے۔ اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے پنڈت ہری چند اختر نے خوب کہا ؎
کس نے ذروں کو اُٹھایا اور صحرا کردیا
کس نے قطروں کو ملایا اور دریا کر دیا
نبی کریم ﷺ نے اپنی قوم کے لوگوں کو اس انداز میں باہم شیروشکر کر دیا کہ وہ ایک زنجیر کی کڑیوں کی طرح باہم پروئے گئے اور سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی شکل اختیار کر گئے۔
3:سیاسی تبدیلی: عرب معاشرہ قبائل میں تقسیم تھا اور ہر قبیلہ اپنے تشخص ‘روایات ماضی اور حسب نسب پر ناز کیا کرتا تھا ۔ کوئی بھی قبیلہ دوسرے کو اپنے سے بالا تر ماننے پر آمادہ وتیار نہ تھا۔ قبل از اسلام قبائلی معاشرے کے لوگ جھوٹی انانیت اور معمولی رنجشوں پر ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار ہو جایا کرتے تھے۔ نبی کریمﷺ کی تعلیمات کا یہ اثر ہوا کہ قبائل باہم شیر وشکر ہو گئے اور عرب معاشرہ اس قدر مربوط ہو گیا کہ صرف عرب معاشرے میں ایک ہمہ گیر سیاسی تبدیلی رونما نہیں ہوئی بلکہ دنیا کی سپر طاقتیں بھی ایک قلیل عرصے کے بعد مسلمان سلطنت کا حصہ بن گئیں ۔اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ قیصر وکسریٰ کے محلات بھی مسلمانوں کی سیاسی قوت کا سامنا کرنے سے قاصر ہو گئے۔
4: اقتصادی تبدیلی : زمانہ جاہلیت میں لوگ معاشی اعتبار سے مجبور طبقات کا بری طرح استحصال کیا کرتے تھے۔ معاشی استحصال کی بدترین شکل سودخوری کی شکل میں پورے سماج میں سرایت کر چکی تھی۔ غریب انسان جب قرض کا بوجھ اُٹھاتا تو اس کو قرض کی اصل رقم واپس کرنے کی بجائے جب سود ادا کرنا پڑتا تو وہ گویا قرض دینے والے کا غلام بن جاتا اور اس غلامی سے رہائی کی کوئی بھی صورت باقی نہ رہتی اور وہ ساری زندگی اپنے قرض کی اصل رقم دینے کی بجائے اس کے اوپر چڑھنے والے سود کی تدابیر ہی کر تا رہتا ۔ نبی کریمﷺ نے سود کے لین دین کا مطلقاً خاتمہ فرما دیا اور اس معاشی ناسور کو معاشرے کی اقتصادی سرگرمیوں سے علیحدہ کر دیا۔
5:عورتوں ‘ بچوں اور محکوم طبقات کی حالت میں تبدیلی:نبی کریمﷺ کی آمد سے قبل عورت اپنے شرف کوکھو چکی تھی‘ بچوں کے ساتھ شفقت والا برتاؤ سماج سے ختم ہو چکا تھا۔غلامی کا چلن عام تھا۔ نبی کریمﷺ کی آمد کے نتیجے میں عورت کے وقار میں اضافہ ہوا۔ ماں کے روپ میں اُس کو وہ عظمت حاصل ہوئی کہ جس کا پہلے کوئی تصور موجود نہ تھا۔ بیٹی کے روپ میں اس کی عزت اور شرف میں اضافہ ہوا ‘بیوی کے روپ میں وہ شریک زندگی کی شکل اختیار کر گئی۔ ماں ‘بہن اور بیٹی کے حق کو وراثت میں متعین کر دیا گیا اور ان کے معاشی استحصال کا خاتمہ کر دیا گیا۔ ان کو شمع محفل کی بجائے ‘ چراغ خانہ بنا دیا گیا۔ ان کو جنسی استحصال اور ہراسیت سے نجات دلا کر حیا داری اور پردہ داری کے راستے پر گامزن کر دیا گیا۔ غلامی کی حوصلہ شکنی کی گئی اور غلام آزاد کرنے کی حوصلہ افزائی کی گئی۔
6:اخلاقی برائیوں کا خاتمہ: نبی کریمﷺ نے معاشرے سے اخلاقی برائیوں کا خاتمہ بھی فرما دیا ۔ حسد ‘گالی‘ چغلی‘ غیبت اور خواہ مخواہ کی مسابقت کی بھرپور انداز میں مذمت کی گئی اور اس کی جگہ خلوص ‘ پیار‘ وفاداری‘ محبت‘ بھائی چارے اور اخوت کے چلن کو عام کر دیا گیا۔
نبی کریمﷺ کا انقلاب اتنا ہمہ گیر تھا کہ جس کی مثال نہ آپﷺ سے پہلے کبھی پیش کی جاسکی تھی نہ آپﷺ کے بعد کبھی پیش کی جا سکے گی۔ نبی کریم ﷺ کی عطا کردہ تعلیمات جب تک مسلمان سماج پر چھائی رہیں‘ مسلمان سماج باقی معاشروں پر فوقیت حاصل کیے رہا‘ لیکن جب مسلمانوں نے آپﷺ کی تعلیمات سے دوری کو اختیار کیا تو رفتہ رفتہ پستیاں اور زوال مسلمان معاشروں کا مقدر بن گیا ۔ آج بھی مسلمان اگرصحیح معنوں میں دنیا میں عزت اور سرفرازی چاہتے ہیں تو اس کا ایک ہی راستہ ہے کہ نبی کریمﷺ کی ذات اور تعلیمات سے وابستگی کو اختیار کیا جائے۔ اگر ہم نے ایسا کر لیا تو یقینا ہماری پستی ‘ زوال اور محرومی عروج ‘ کامیابی اور کامرانی میں بدل سکتی ہیں۔