ہزاروں برس کی تاریخ گواہ ہے کہ انسان قدرتی آفات کے مقابلے میں بے بس رہا ہے۔ تاریخِ انسانیت کے آغاز ہی سے وباؤں، بیماریوں، طوفانوں، سیلابوں اور زلزلوں نے انسانوں کی کمزوری کو واضح کیا ہے۔ ان قدرتی آفات کے نتیجے میں ہر عہد میں ہزاروں لوگ موت کے گھاٹ اتر گئے، جبکہ ہزاروں لوگ بے گھروبے یارومددگار ہو گئے۔ انسان اپنی کوشش اور وسائل کے باوجود ان قدرتی آفات سے درست طور پر نبردآزما نہیں ہو سکا اور یہ حقیقت ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم سے آنے والی ان آفات کو روکنا کسی بھی صور ت ممکن نہیں ہے۔ علم اور سائنس کی ترقی کی وجہ سے انسان پہلے کے مقابلے میں زیادہ بہتر تدابیر اختیار کر رہا ہے اور ان آفات سے بچنے کے لیے سائنس اور ٹیکنالوجی کو بھی استعمال کر رہا ہے لیکن اس کے باوجود یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جب اللہ تبارک وتعالیٰ کا امر آجائے تو اس کے مقابلے میں تمام تر کوششیں ناکام ہو جاتی ہیں۔ انسان کو یقینا قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے سائنسی اور مادی تدابیر کو اختیار کرنا چاہیے لیکن اس بات کو سمجھنا نہایت ضروری ہے کہ ان آفات سے بچاؤ کے لیے ان طریقوں کو اختیار کرنا نہایت اہم ہے جن پر عمل پیرا ہو کر ہم اللہ تبارک وتعالیٰ کو راضی کر سکتے ہیں۔ کتاب وسنت کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ آفات نیکوکاروں کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے آزمائش، گناہ گاروں کے لیے تنبیہ اور مجرموں کے لیے عذاب ہیں۔اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے مجرموں کو ہر عہد میں مختلف قسم کے عذابوں کا سامنا کرنا پڑا؛ چنانچہ قومِ نوح کے لوگ سیلاب، قومِ عاد کے لوگ آندھی اور طوفان، قومِ ثمود اور قوم مدین کے لوگ چنگھاڑ کا نشانہ بنے جبکہ قومِ سدوم پر آسمان سے پتھروں کی بارش ہوئی اور یہ قومیں قصۂ پارینہ بن گئیں۔ قومِ فرعون پر بھی ٹڈیوں، مینڈکوں، جوؤں، خون کے چھینٹوںاور طوفان کا عذاب آیا اور ان عذابوں کے ذریعے اللہ تبارک وتعالیٰ باربار قومِ فرعون کو جھنجھوڑتے رہے لیکن جب فرعون اور اس کے ساتھیوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے آنے والی ان نشانیوں کو دیکھنے کے باوجود اپنی اصلاح نہ کی تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اُنہیں غرقِ آب کر دیا۔ قارون کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کے گھر اور مال و دولت سمیت زمین میں دھنسا دیا اور شداد کی جاگیر کو بے آباد اور بنجر کر دیا۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے جہاں مجرموں کو اپنے عذابوں کے ذریعے جھنجھوڑا‘ وہیں نیکو کار لوگ مختلف دور میں آزمائشوں اور ابتلاؤں سے گزرتے رہے لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ کے ان نیک بندوں نے مشکلات میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف رجوع کرکے ان پریشانیوں اور تکالیف سے بطریق ِ احسن نجات حاصل کر لی۔ نیکو کار لوگوں کے ساتھ ساتھ گناہگار لوگ بھی آفات اور تکالیف کے ذریعے جھنجھوڑے جاتے رہے۔ جس کا مقصد یہ تھا کہ وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف رجوع کرنا شروع کر دیں۔ اگر کتاب وسنت کا مطالعہ کریں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ مندرجہ ذیل تدابیر کو اختیار کرنے کے بعد انسان کسی حد تک قدرتی آفات سے بچ سکتا ہے۔
1۔ دُعا : اگر انسان خلوصِ نیت سے دعا کرے تو اللہ تبارک وتعالیٰ زندگی میں آنے والی تکالیف کو دور فرما دیتے ہیں۔ اس حوالے سے صحیح بخاری کی اہم حدیث درج ذیل ہے:
صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے ایک طویل حدیث مروی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تین آدمی جا رہے تھے کہ راستے میں بارش نے انہیں آ لیا اور انہوں نے مڑ کر ایک پہاڑی کی غار میں پناہ لی۔ اس کے بعد ان کے غار کے منہ پر پہاڑ کی ایک چٹان گری اور اس کا دہانہ بند ہو گیا۔ہر ایک نے دوسرے سے کہا کہ تم نے جو نیک کام کیے ہیں ان میں سے ایسے کام کو دھیان میں لاؤ جو تم نے خالص اللہ تعالیٰ کے لیے کیا ہو اور اللہ تعالیٰ سے اس کے ذریعے‘ اس کے وسیلے سے دعا کرو‘ ممکن ہے کہ وہ غار کو کھول دے اور ہم اس تکلیف سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو جائیں۔ ان میں سے ہر ایک نے اپنے نیک اعمال کا ذکر کرنے کے بعد خلوصِ دل سے دُعا مانگی تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کے لیے غار کے دہانے سے پتھر ہٹا دیا اور ان کا راستہ کھول دیا۔
2۔گناہوں پر توبہ : جب انسان اپنے گناہوں سے تائب ہوتا ہے اور اللہ تبارک وتعالیٰ سے مغفرت طلب کرتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس پر اپنی رحمتوں کا نزول فرماتے ہیں۔ سورہ نوح کی آیات 10تا 12 میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کی گفتگو کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ''تو میں (نوح علیہ السلام)نے کہا: بخشش مانگو اپنے رب سے‘ بے شک وہ بہت بخشنے والا ہے۔ وہ بھیجے گا بارش تم پر موسلا دھار اور وہ مدد کرے گا تمہاری مالوں، بیٹوں کے ساتھ اور وہ (پیدا) کر دے گا تمہارے لیے باغات اور (جاری) کر دے گا تمہارے لیے نہریں‘‘۔ قرآنِ مجیدکے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ قومِ یونس پر اللہ تبارک وتعالیٰ کا نازل کیا گیا عذاب محض اس لیے ٹل گیا تھا کہ انہوں نے ایمان اور توبہ کے راستے کو اختیار کر لیا تھا۔
3۔تقویٰ: جب انسان اللہ تبارک وتعالیٰ کی خشیت کی وجہ سے گناہوں سے اجتناب کا راستہ اختیار کرتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کی تنگیوں کو دور کر دیتے ہیں اور اس کو رزق وہاں سے دیتے ہیں جہاں سے وہ گمان بھی نہیں کر سکتا۔ چنانچہ سورہ طلاق کی آیات 2 تا 3میں ارشاد ہوا: ''اور جو اللہ سے ڈرتا ہے (تو) وہ بنا دیتا ہے اس کے لیے (مشکلات سے ) نکلنے کا کوئی راستہ۔ اور وہ رزق دیتا ہے اُسے جہاں سے وہ گمان نہیں کرتا‘‘۔
4۔ صبر: انسان کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے آنے والی تکالیف پر صبر کا راستہ اختیار کرنا چاہیے اس لیے کہ قدرتی آفات پر قابو پانا کلی طور پر انسان کے قبضۂ اختیار میں نہیں ہے۔ جب انسان صبر کا راستہ اختیار کرتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس پر اپنی رحمتوں کا نزول فرما کر اس کو ہدایت یافتہ لوگوں میں شامل فرما دیتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیات 155 تا 157 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور البتہ ضرور ہم آزمائیں گے تمہیں کچھ خوف سے اور بھوک سے اور مالوں میں اور جانوں میں کمی کرکے اور پھلوں میں (کمی کرکے) اور خوشخبری دے دیں صبر کرنے والوں کو۔ وہ لوگ (کہ) جب انہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو کہتے ہیں: بے شک ہم اللہ کے لیے ہیں اور بے شک ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ وہی لوگ ہیں (کہ) ان پر عنایات ہیں ان کے رب کی طرف سے اور رحمت ہے اور وہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں‘‘۔
5۔ انفاق فی سبیل للہ: اللہ تبارک وتعالیٰ کے راستے میں مال خرچ کرنے کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ انسانوں کے خوف اور غموں کو دور فرما دیتے ہیں؛ چنانچہ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 274میں ارشاد ہوا: ''وہ لوگ جو خرچ کرتے ہیں اپنے مال رات اور دن کو، چھپا کر اور عَلانیہ طور پر تو ان کے لیے اس (کام) کا اجر ہے ان کے رب کے پاس اور نہ ان پر کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے‘‘۔
مذکورہ بالا تدابیر کو اختیار کرنے کے نتیجے میں انسان مصائب اور قدرتی آفات سے بچ سکتا ہے اور خوف کے بعد امن اور بدحالی کے بعد خوشحالی کے حصول میں کامیاب ہو سکتا ہے۔مذکورہ بالا تدابیر کو اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں اس بات کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ قدرتی آفات سے دوچار دوست احباب کی مدد کرنا بھی اہلِ ایمان کی ذمہ داری ہے اور انسانوں کی مصیبت پر اپنے دل میں تکلیف محسوس کرنا اسلام اور ایمان کا تقاضا ہے۔ حدیث پاک سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انسانوں کی بدحالی پر انتہائی مغموم ہو جایا کرتے تھے۔ صحیح مسلم میں حدیث ہے : مضر قبیلے کے مصیبت زدگان اور فاقہ کشوں کو دیکھ کر نبی کریمﷺ سخت بے چین ہو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام کو تعاون کرنے کی تاکید فرمائی اور جب سامان کے دو ڈھیر جمع ہو گئے تب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ مبارک خوشی سے چمکنے لگا۔
ہمیں چاہیے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے آنے والی آزمائشو ں سے بچنے کے لیے ان تدابیر کو اختیا ر کریں جن کا ذکر کتاب وسنت میں کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کے کام آنے کی کوشش کریں اس لیے کہ دکھی انسانیت کے کام آنا اور مشکلات میں پھنسے ہوئے لوگوں کی خدمت کرنا یقینا اللہ تبارک وتعالیٰ کی خوشنودی کے حصول کا ایک ذریعہ ہے۔الحمدللہ اس وقت پاکستان میں بہت سی این جی اوز اور رفاہی ادارے انسانیت کی خدمت میں مصروف ہیں‘ میں بھی اپنے دوستوں کے ہمراہ قرآن وسنہ کے پلیٹ فارم سے حتی المقدور سیلاب زدہ افرادکی مدد کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ ملک کے طول وعرض سے کیے جانے والے خطیر تعاون کو دیکھ کر اس بات کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں کہ پاکستان میں نیکی کے کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے لوگوں کی کوئی کمی نہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ پاکستان کی حفاظت فرمائے، اہلِ پاکستان کو قدرتی آفات سے محفوظ فرمائے اور ہم سب کو قدرتی آفات میں پھنسے ہوئے لوگوں کی مدد کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین !