اسلام اللہ تبارک وتعالیٰ کا آخری دین ہے اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس دین کو نبی کریمﷺ کی حیاتِ مبارکہ میں مکمل فرما دیا۔ سورہ مائدہ کی آیت نمبر 3 میں ارشاد ہوا : ''آج (کے دن) میں نے مکمل کر دیا ہے تمہارے لیے تمہارا دین اور میں نے پوری کر دی ہے تم پر اپنی نعمت اور میں نے پسند کیا ہے تمہارے لیے اسلام کو بطورِ دین‘‘۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں اس حقیقت کو بھی واضح فرما دیا کہ دین اللہ کے نزدیک فقط اسلام ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ آل عمران کی آیت نمبر 19 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''بے شک دین تو اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہے‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلامِ حمید میں اس بات کو بھی واضح فرما دیا کہ جو اسلام کے علاوہ کسی اور دین کو اختیار کرے گا اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے دین کو قبول نہیں فرمائیں گے اور آخرت میں خسارہ اس کا مقدر بن جائے گا۔ چنانچہ سورہ آلِ عمران کی آیت نمبر 85 میں ارشا د ہوا: ''اور جو تلاش کرے اسلام کے علاوہ (کوئی اور) دین تو ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اس سے اور (وہ) آخرت میں خسارہ پانے والے لوگوں میں سے ہو گا‘‘۔
اسلام عقائد، عبادات اور معاملات کے حوالے سے اپنے ماننے والوں کی بہت ہی خوبصورت اور زبردست انداز میں رہنمائی کرتا ہے۔ اسلام میں اخلاقیات کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی کریمﷺ کے اخلاق کو خلقِ عظیم قرار دیا اور سورہ قلم کی آیت نمبر 4 میں ارشاد فرمایا : ''اور بلاشبہ آپ یقینا خلقِ عظیم پر (فائز) ہیں۔ نبی کریمﷺ نے جن اخلاقی اقدار سے اپنی اُمت کو روشناس کروایا ان میں جھوٹ سے اجتناب، سچائی سے تمسک، گالی گلوچ، بہتان تراشی، غیبت اور تجسس سے اجتناب شامل ہے۔ اسی طرح نبی کریمﷺ نے اپنی اُمت کو شرم وحیا اور پاکبازی کا بھی نہایت خوبصورت انداز میں درس دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی کریمﷺ کے اوصافِ حمیدہ میں سے اس وصف کو بہت زیادہ نمایاں طور پر بیان کیا کہ آپﷺ لوگوں کا تذکیہ فرمانے والے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ آلِ عمران کی آیت نمبر 64 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''البتہ تحقیق احسان کیا ہے اللہ نے مومنوں پر، جب بھیجا اُن میں ایک رسول انہی میں سے (جو) پڑھتا ہے اُن پر اُس کی آیات اور اُنہیں پاک کرتا ہے (شرک سے) اور تعلیم دیتا ہے اُنہیں کتاب وحکمت کی اور اگرچہ تھے وہ اس سے قبل یقینا واضح گمراہی میں‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے پاکیزگی اختیار کرنے والوں کی کامیابی کا ذکر بھی نہایت بلیغ انداز میں کیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ اعلیٰ کی آیت نمبر 14میں ارشاد فرماتے ہیں: ''یقینا کامیاب ہو گیا جو پاک ہو گیا‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں تقویٰ کی بنیاد پر بنائی جانے والی مسجد کا بھی ذکر کیا اور اُن لوگوں کا بھی ذکر کیا جو اس میں کھڑے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اوصاف میں اس بات کا ذکر کیا کہ ایسے لوگوں کو طہارت اختیار کرنے سے محبت ہوتی ہے اور اللہ تبارک وتعالیٰ بھی طہارت اختیار کرنے والوں سے محبت فرماتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ توبہ کی آیت نمبر108 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''وہ مسجد (جس کی ) بنیاد رکھی گئی تقویٰ پر پہلے ہی دن سے‘ زیادہ حق دار ہے کہ آپ کھڑے ہوں اس میں، اس میں (ایسے ) لوگ ہیں (جو) پسند کرتے ہیں کہ وہ پاک ہوں، اور اللہ پسند کرتا ہے پاک رہنے والوں کو‘‘۔
بدقسمتی سے اس وقت ہمارا معاشرہ اخلاقی انحطاط کا شکار ہے اور مغربی معاشروں کی بہت سی ثقافتی اور تہذیبی خامیوں کو اپنانے میں فخر محسوس کیا جاتا ہے۔ مغرب نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں جو ترقی کی یقینا وہ قابلِ تحسین ہے لیکن تہذیبی اور ثقافتی اعتبارسے اہلِ مغرب کو جس انحطاط کا سامنا ہے اُس کو اپنے لیے مثال بنا کر اس کی پیروی کرناکسی بھی طور پر درست نہیں ہے۔ مسلمانوں کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی کتاب اور نبی کریمﷺ کی سنت طیبہ سے ہر حالت میں رہنمائی حاصل کرنی چاہیے اور اُن تمام کاموں سے اجتناب کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جو انسان کی اخلاقی حالت اور شخصیت کو مجروح کریں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 32میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور تم مت قریب جاؤ زنا کے بے شک وہ بے حیائی اور برارستہ ہے‘‘۔ جس طرح سورہ بنی اسرائیل میں زنا کے قریب جانے سے بھی منع کیا گیااُسی طرح قرآنِ مجید نے ان تمام کے تمام راستوں کی طرف بھی رہنمائی کر دی جو انسان کو برائی کی طرف دھکیلنے والے ہیں۔ چنانچہ سورہ نور میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان تدابیر کا نہایت احسن انداز میں ذکر کیا جو انسان کو برائی سے بچاتی ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ نور میں پردے داری، نگاہوں کو جھکانے، گھروں میں خلوت کے اوقات میں بچوں کو بلا اجازت آنے سے منع کرنے کا حکم دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس سورت میں نکاح کی ترغیب بھی دلائی اور برائی کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے 100 کوڑوں کی سزاؤں کا اعلان کیا۔ احادیث مبارکہ میں اس سزا کو غیر شادی شدہ زانیوں کے لیے قرار دیا گیا ہے اور شادی شدہ کے لیے رجم کی سزا کو مقرر کیا گیا۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ نور میں پاکدامن عورتوں کی کردار کشی کرنے والے لوگوں کے لیے 80 کوڑوں کی سزا کو مقرر کیا ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان تمام باتوں کو نہایت احسن اور بلیغ انداز میں واضح فرما کر انسانوں کی رہنمائی اعلیٰ اخلاقی اقدار کی طرف کی۔ ان اعلیٰ اخلاقی اقدار کے ذکر کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی تذکرہ کیا گیا کہ وہ لوگ جو اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ اہلِ ایمان میں بے حیائی پھیلے اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کے لیے آخرت میں دردناک عذاب کو تیار کر دیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نور کی آیت نمبر 19میں ارشاد فرماتے ہیں: ''بے شک وہ لوگ جو پسند کرتے ہیں کہ پھیلے بے حیائی ان لوگوں میں جو ایمان لائے ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے‘‘۔
چنانچہ جہاں پر بے راہ روی سے اجتناب کے لیے اُن تدابیر کو اختیار کرنا چاہیے جن کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ نور میں واضح فرما دیا ہے وہیں پر فحاشی کی نشرواشاعت سے بھی گریز کرنا چاہیے۔ بدنصیبی سے ہمارے معاشرے میں بہت سے لوگ شرم وحیا، پردہ اور حجاب کو پسماندگی کی علامت سمجھتے ہیں اور بے حیائی اور عریانیت کو تہذیب و ثقافت کا نقطۂ عروج تصور کرتے ہیں اور ایک مخصوص طبقہ ہر وقت معاشرے میں بے حیائی کے فروغ کے لیے سرگرم عمل رہتا ہے۔ اس قسم کے عناصر معاشرے میں جہاں مختلف گناہ کے کاموں کی حمایت میں پیش پیش نظر آتے ہیں وہیں جنسی بے راہ روی اور ہم جنس پرستی کے فروغ تک کی باتیں کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ حالیہ ایام میں اس اعتبار سے انتہائی تشویشناک صورتحال دیکھنے کو ملی کہ ''جوائے لینڈ‘‘ نامی فلم کو معاشرے میں ریلیز کیا گیا۔ اس فلم میں بنیادی طور پر ہم جنس پرستی پر مبنی تعلقات کے بارے میں نرمی اور لچک کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ اس فلم کے حوالے سے اہلِ مذہب نے اپنے اپنے دائرہ کار میں احسن طریقے سے آواز اُٹھائی لیکن اس کے باوجود تاحال اس فلم کے حوالے سے کسی قسم کی پابندی کی کوئی اطلاعات موصول نہیں ہوئیں۔ راقم الحروف نے اس حوالے سے ہائیکورٹ میں ایک رِٹ بھی دائر کی ہے اور اس رِٹ میں اس بات کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس قسم کی فلموں کی نمائش سے ہمارے معاشرے کی اخلاقی اقدار اور معاشرے میں شرم وحیا کے تصورات مجروح ہوں گے۔ ہائی کورٹ نے اس حوالے سے متعلقہ اداروں اور ذمہ داران کو نوٹسز جاری کیے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں مذہبی اقدار کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ مشرقی اقدار اور روایات کو فروغ دینے کی بھی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے بہت سے لوگ اپنے اپنے دائرہ کار میں ذمہ دارانہ کردار ادا کر رہے ہیں۔ ہمیں بھی اس حوالے سے اپنے اپنے کردار کو ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس ضمن میں والدین،اساتذہ اور حکومت وقت پر بہت زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ بچوں کی تربیت کرنا والدین کی ذمہ داری ہے۔ طلبہ کو اعلیٰ اخلاقی اقدار کا درس دینا اساتذہ کی ذمہ داری ہے۔اسی طرح بد اخلاقی اور بے راہ روی کے مرتکبین کا کڑا احتساب کرنا حکومت وقت کی ذمہ داری ہے۔ کچھ عرصہ قبل قومی اسمبلی میں بچوں کے ساتھ زیادتی کا ارتکاب کرنے والے مجرموں کے بارے میں سزائے موت کی قرار داد پاس کی گئی تھی۔ اس قرار داد پر سختی سے عملدرآمد کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ ان تینوں دائروں میں کام کرنے والے لوگوں کو اس بات کی توفیق دے کہ وہ معاشرے میں بے راہ روی کے خاتمے کے لیے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کر سکیں، آمین !