مفتی تقی عثمانی پاکستان کے ایک جید عالم دین ہیں۔ علم، تحقیق اور مسلکی ہم آہنگی کے حوالے سے آپ ایک نامور شخصیت ہیں۔ آپ کو اسلام کے اقتصادی نظام سے بھی گہری دلچسپی ہے اور اس پر آپ اپنی آرا گاہے گاہے پیش کرتے رہتے ہیں۔ آپ نے اسلامی بینکنگ کے تصور کو اجاگر کرنے میں بھی کردار ادا کیا ہے۔ اگرچہ اس پر علما کرام کو کچھ تحفظات بھی ہیں اور علما اپنی اپنی آرا اس حوالے سے پیش کرتے رہتے ہیں۔ مفتی تقی عثمانی صاحب نے 30 نومبر کو سودی نظامِ معیشت کے خاتمے کے حوالے سے علماء کرام کے اجلاس کو کراچی میں طلب کیا۔ جس میں ملک کے طول وعرض سے جید علماء کرام کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار بھی اس موقع پر موجود تھے اور ان کے ساتھ ساتھ بعض بینکرز اور ماہرینِ اقتصادیات بھی اجلاس میں شریک ہوئے۔ مجھے بھی اس پروگرام میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی لیکن بوجوہ میں اس پروگرام میں شرکت نہ کر سکا؛ تاہم موقع کی مناسبت سے میں نے ضروری سمجھا کہ قارئین کے سامنے سودی نظامِ معیشت اور اسلامی اقتصادیات کا تصور پیش کیا جائے۔
دنیا میں اقتصادیات کے تین نظام رائج ہیں؛ ایک سرمایہ دارانہ نظام، دوسرا اشتراکیت اور تیسرا اسلامی نظام۔ اشتراکیت اور سرمایہ دارانہ نظام میں جتنی بھی خوبیاں ہیں‘ وہ سب کی سب اسلام کے نظامِ معیشت کے دامن میں موجود ہیں اور جتنی بھی قباحتیں ان دونوں نظاموں میں ہیں‘اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے اسلام کا اقتصادی نظام ان سے پاک ہے۔ اشتراکیت میں نجی ملکیت کا تصور موجود نہیں‘ گویا محنت کرنے کے باوجود انسان کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے جبکہ اسلام میں نجی ملکیت کا تصور موجود ہے۔ جو شخص محنت کرتا ہے‘ وہ اپنے کاروبار کو بڑھا سکتا ہے، زمینیں خرید سکتا ہے، گاڑیاں رکھ سکتا ہے۔اس کے مدمقابل سرمایہ دارانہ نظام میں حلال وحرام کا امتیاز کیے بغیر تجارت کی جاتی ہے۔ شراب اور خنزیر کے گوشت کو بیچا جا سکتا ہے‘ یہاں تک کہ ضرر رساں ادویات اور فحاشی کی نشرواشاعت پر بھی کوئی قد غن نہیں۔اس کے بالمقابل اسلا م میں اگر سرمایہ کاری ہو گی تو حلال اور طیب رز ق پر ہو گی۔ اسی طرح اسلام کسی بھی قیمت یاصورت میں سود کی آمیزش کو قبول کرنے پر آمادہ وتیار نہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 275 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''وہ لوگ جو سود کھاتے ہیں وہ نہیں اٹھیں گے مگر جیسے اٹھتا ہے وہ جو دیوانہ کر دیا ہو اسے شیطان نے چھو کر‘ یہ (حالت) اس وجہ سے ہو گی کہ بے شک انہوں نے کہا: بے شک تجارت سود ہی کی مانند ہے حالانکہ اللہ نے حلال قرار دیا ہے تجارت کو اور حرام کر دیا ہے سود کو۔ پس جو (شخص کہ) آئی اس کے پاس نصیحت اس کے رب کی طرف سے‘ پھر وہ باز نہ آگیا (سود سے) تو وہ اسی کا ہے جو پہلے وہ لے چکا ہے اور اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے (وہ معاف کرے یا سزا دے) اور جو کوئی پھر کرے (سودی کاروبار) تو وہی لوگ اہلِ دوزخ ہیں اور وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں‘‘۔
مملکتِ خداداد پاکستان میں سود کا لین دین ایک عرصے سے جاری وساری ہے۔ بدنصیبی سے صرف پاکستان ہی میں سود کا کاروبار جاری وساری نہیں بلکہ جملہ مسلم ممالک اس کی لپیٹ میں ہیں۔ حالانکہ اس کی قباحتیں متعدد ہیں جن میں سب سے بڑی قباحت اللہ تعالیٰ سے لاتعلقی ہے۔ جس وقت آپ مچھلی فارم بناتے ہیں‘ اس میں مچھلی کے انڈوں کو ڈالتے ہیں تو اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ میری اس تجارت میں برکت عطا فرما۔ اسی طرح جب آپ گندم کی کاشتکاری کرتے ہیں تو گندم کو کاشت کرنے کے بعد آپ اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ میری فصلوں میں اضافہ فرما دے، جس وقت آپ کپڑے کی تجارت کرتے ہیں تو آپ اللہ تبارک وتعالیٰ سے اس بات کی اُمید رکھتے ہیں کہ وہ آپ کی دکان پر گاہکوں کو بھیجے گا یعنی جو بھی کاروبار ہوتا ہے جتنی بھی ملازمتیں ہوتی ہیں‘ اگر ان کو کرنے والا مسلمان ہو تو اس کی انابت، توجہ، اُمید اور توکل کا مرکز ومحور اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات ہوتی ہے۔ لیکن جو سود خور ہوتا ہے‘ اس کو علم ہوتا ہے کہ میں نے جو 100 روپے دیے ہیں‘ ان پر مجھے 17 روپے اضافی مل کر رہیں گے۔ اس کی نگاہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات پر نہیں ہوتی بلکہ مقروض کی جیب پر ہوتی ہے۔ مومن ومسلم کا توکل اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات پر ہوتا ہے اور وہ رزقِ حلال کے حصول کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے جبکہ سود خور کی نگاہ اپنے سرمائے اور اموال پرحاصل ہونے والے یقینی منافع پر ہوتی ہے۔
یہ تلخ حقیقت ہے کہ جس معاشرے میں سود عام ہوجائے‘ اس میں پیداواری ذرائع تباہ ہو جاتے ہیں اور صنعتوں کی ترقی معدوم ہو جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب آپ نے کسی فیکٹری یا انڈسٹری کولگایا تو آپ کی صنعت کاری کا مقصد یہ تھا کہ اس سے مشینری کے پارٹس بنائے جائیں یا اس سے کپڑا تیار کیا جائے تو اس میں محنت مزدوری کرنے والے مزدوروں کو بھرتی کیا جائے گا لیکن جو سود خور ہوتا ہے اس کو صنعت کاری یا لوگوں کو ملازمتیں دینے سے دلچسپی نہیں ہوتی۔ اس کو صرف ایک ہی بات سے دلچسپی ہوتی ہے کہ اُس نے جو پیسہ قرض کی صورت میں دیا ہے‘ اس پر بہر صورت منافع ملنا چاہیے۔ گویا کہ معیشت کے اس گندے اور باطل نظام کے ذریعے سرمایہ دار غریب کا گلا گھونٹتا اور اس سے روزگار کے مواقع چھین لیتا ہے۔
اسلامی نظام معیشت میں مشارکت ہو یا مضاربت ‘ اس میں جو بھی شراکت اور اشتراکِ عمل ہوتا ہے‘ اس کی بنیاد کاروبار ہوتی ہے۔ اگر آپ کے پاس دس لاکھ روپے یا بیس لاکھ روپے موجود ہیں‘ آپ تجارت کرنے کے اہل ہیں اور خود کمانا چاہتے ہیں تو خود کمائی کر لیں‘ اگر خود کمائی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں تو کسی کے ساتھ مشارکت یا مضاربت کی بنیاد پر اس کے کام میں شریک ہو جائیں۔ لیکن سود کامعاملہ اس سے یکسر جدا ہے۔ فرض کیجئے ایک شخص مقروض، مفلوک الحال، ضرورت مند اور حاجت مند ہے، اسے پیسوں کی ضرورت ہے، اس کے گھر میں ادویات اور روٹی بھی نہیں ہے، ایسے عالم میں وہ تعاون کا طلبگار ہوگا۔ جب وہ تعاون کے لیے اپنے مسلمان بھائی کے پاس جاتا ہے تو مسلمان بھی تعاون کرکے اسے یہ کہتا ہے کہ یہ رقم لے جاؤ‘ جب تمہارے پاس پیسے آ جائیں گے تو میرا قرض لوٹا دینا۔ قرض ضرورت مند، حاجت مند اور پریشان حال لیتا ہے اور مسلمان اپنے دکھی اور پریشان بھائی کے کام آنے کے لیے حتیٰ المقدور کوشش کرتا ہے۔ لیکن سود خور اتنا ظالم ہے کہ اس کو اپنے بھائی کی ضرور ت یا حاجت پوری کرنے میں کسی قسم کی کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ اسی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے سود کو حرام کیا ہے۔ سود انسان کے جذبۂ خیر خواہی کو سلب کر لیتا ہے؛ چنانچہ جہاں بھی اللہ تعالیٰ نے سود کا ذکر کیا‘ وہیں صدقات وخیرات کا بھی ذکر کیا۔ سورۃ بقرہ کی آیت نمبر 276 میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ''اللہ سود کو مٹاتا اور صدقات کو بڑھاتا ہے‘‘۔ اسی طرح سورۃ روم کی آیت نمبر 39میں ارشاد فرمایا: ''اور تم لوگ جو سود دیتے ہو‘ تاکہ لوگوں کے اموال میں اضافہ ہوجائے تو وہ اللہ کے نزدیک نہیں بڑھتا، اور تم لوگ جو زکوٰۃ دیتے ہو ا للہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے‘ ایسے ہی لوگ اسے کئی گنا بڑھانے والے ہیں‘‘۔
سود کی بنیاد خود غرضی پر ہے جبکہ صدقات و زکوٰۃ کی بنیاد خیر خواہی پر ہے۔ سود کی بنیاد استحصال پر ہے اور زکوٰۃ وصدقات کی بنیاد ایثار پر ہے۔ آج ہمارے ملک کے ابتر معاشی حالات کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حاکم وقت، افسر شاہی، طبقہ امرا اور طبقہ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کواپنے مفادات، ہیرے جواہرات اور بینک بیلنس ہی سے وابستگی ہے۔ آج سود کی جس لعنت میں ہم پھنسے ہوئے ہیں‘ قحبہ گری کے جس کلچر کا ہم شکار ہیں‘ شراب کی خریدوفروخت کی جس طرح ہمارے ملک میں یلغار ہے‘ اس کی روک تھام کے لیے اسلامی نظام معیشت کو نافذ کرنے کے لیے ذہن سازی کرنی چاہیے اور سود کے حوالے سے فرامینِ نبوی کو مدنظر رکھنا چاہیے۔
صحیح بخاری میں حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: رات (خواب میں) میں نے دو آدمی دیکھے، وہ دونوں میرے پاس آئے اور مجھے بیت المقدس میں لے گئے، پھر ہم سب وہاں سے چلے یہاں تک کہ ہم ایک خون کی نہر پر آئے، وہاں (نہر کے کنارے) ایک شخص کھڑا ہوا تھا، اور نہر کے درمیان میں بھی ایک شخص کھڑا تھا۔ (نہر کے کنارے پر) کھڑے ہونے والے شخص کے سامنے پتھر پڑے ہوئے تھے۔ نہر کے درمیان والا آدمی آتا اور جونہی وہ چاہتا کہ نہر سے باہر نکل جائے تو فوراً ہی کنارے والا شخص اس کے منہ پر پتھر کھینچ کر مارتا جو اسے وہیں لوٹا دیتا تھا جہاں وہ پہلے تھا۔ اسی طرح جب بھی وہ نکلنا چاہتا‘ کنارے پر کھڑا ہوا شخص اس کے منہ پر پتھر کھینچ مارتا اور وہ جہاں تھا وہیں پھر لوٹ جاتا۔ میں نے (اپنے ساتھیوں سے‘ جو فرشتے تھے) پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ تو انہوں نے اس کا جواب یہ دیا کہ نہر میں آپ نے جس شخص کو دیکھا‘ وہ سود کھانے والا انسان ہے۔سودی نظام معیشت سے نجات حاصل کرنے کے لیے جہاں روایتی بینکاری سے جان چھڑانے کی ضرورت ہے وہیں علماء اور ماہرینِ اقتصادیات کی مشاورت کے ساتھ اسلامی بینکاری کی اصلاح اور فروغ کی بھی بہت زیادہ ضرورت ہے۔
صحیح بخاری میں حضرت ابوحجیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے خون کی قیمت، کتے کی قیمت کھانے سے منع فرمایا اور سود لینے والے اور دینے والے اور گودنے والی اور گودانے والی پر لعنت بھیجی ہے۔اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو سودی لین دین سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!