برصغیر میں اسلام کی آمد کے بعد مسلمان لگ بھگ ایک ہزار برس تک اس خطے پر برسراقتدار رہے اور مسلمانوں کے کئی خانوادے برصغیر پر پوری شان و شوکت کے ساتھ اس خطے پر حکومت کرتے رہے۔ غوری، غزنوی، تغلق ، خاندانِ غلاماں، خلجی ، سوری اور مغلوں نے کئی صدیوں تک برصغیر میں زمامِ کار کو اپنے ہاتھ میں رکھا۔ مسلم حکمرانوں نے برصغیر میں بحیثیت مجموعی اچھے طریقے سے حکومت کی اور عوام الناس کی فلاح وبہبود کے بہت سے منصوبوں کو نہایت احسن انداز میں پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔ مغلوں نے پوری دنیا میں اپنے اقتدار کا لوہا منوایا اور مغل سلطنت اپنی وسعت اور تنوع کے اعتبار سے دنیا کی بڑی سلطنتوں میں شمار ہوئی۔ یہ اپنی شہرت اور آب وتاب کے حوالے سے ایک ممتاز سلطنت کے طور پر تاریخ کا حصہ بن گئی۔ بابر ، ہمایوں، اکبر ، جہانگیر ، شاہ جہاں اور اورنگزیب کی حکمرانی کے چرچے فقط برصغیر تک محدود نہ رہے بلکہ اطراف واکنافِ عالم میں بھی ان کی حکمرانی کا شہرہ رہا۔
برصغیر کے مسلم حکمران اپنے اقتدار کے دوران رعایا کے ساتھ حسنِ سلوک کرتے رہے اور اُن کی ضروریات کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں مختلف طرح کی سہولتیں بھی فراہم کرتے رہے۔ مسلم حکمرانوں نے مذہبی رواداری کا بھرپور انداز سے مظاہرہ کیا اور کسی بھی دور میں بالجبر ہندوؤں کو مسلمان بنانے کی کوئی کوشش نہ کی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ہزار سال پہ محیط طویل اقتدار کے دوران ہندو برصغیر میں اکثریت میں رہے اور مسلمان اقلیت میں۔ برصغیر کے مسلم حکمرانوں کے پاس وسائل اور ہیبت و سطوت کی کوئی کمی نہ تھی۔ جس کی وجہ سے ان کے جانشین بہت سی اخلاقی قباحتوں کا شکار ہوئے اور عیش ونشاط میں گم ہوتے چلے گئے۔ اخلاقی کمزوریوں کی وجہ سے برصغیر کے مسلم حکمرانوں کے خلاف انگریز مداخلت کاروں کو سازشیں کرنے کا موقع ملا۔ مسلمانوں کی غفلت اور بے تدبیری کی وجہ سے بتدریج مسلمان اقتدار سے محروم ہو گئے۔ علاقائی سطح پر کئی سرداروں اور رہنماؤں نے برصغیر میں مسلمانوں کے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے خوب جدوجہد کی لیکن یہ جدوجہد بارآور ثابت نہ ہو سکی اور مسلمانوں کے اقتدارکا سورج غروب ہو گیا۔ سراج الدولہ اور سلطان ٹیپو شہید نے انگریز استبداد کے سامنے بند باندھنے کی بھرپور کوشش کی لیکن وہ اپنے ہی قریبی مصاحبین کی غداری کا نشانہ بنے۔ اس طرح برصغیر پر بتدریج انگریزوں کا قبضہ ہوتا چلا گیا۔ مسلمانوں کو اقتدار سے محروم ہونے کے بعد انگریزوں کی ستم گری کا نشانہ بننا پڑا۔ ہندوؤں کی اکثریت نے جدید جمہوری نظام کافائدہ اٹھاتے ہوئے اضافی حقوق کے لیے تگ ودو کرنا شروع کر دی۔ مسلمان رہنماؤں نے اس بات کو محسوس کیا کہ اب مسلمانوں کو علیحدہ وطن دلائے بغیر ان کے حقوق کی پاسداری ممکن نہیں رہے گی۔ قائد اعظم محمد علی جناح، علامہ محمد اقبال، مولانا ظفر علی خان ،مولانا محمد علی جوہر اور دیگر رہنماؤں نے بھرپور انداز سے برصغیر کے طول وعرض میں ایک منظم تحریک کو بپا کیا اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل وکرم سے علماء اور عوام کی تائید سے دنیا کے نقشے پر سب سے بڑی مسلم ریاست منظرِ عام پر آئی۔
پاکستان ایک کثیر القومی ریاست تھا جس میں رہنے والے مسلمان مختلف اقوام سے تعلق رکھتے تھے۔ بنگالی، پنجابی، پختون، بلوچی اور سندھی کے درمیان جڑاؤ کا کردار ادا کرنے والا اہم ترین محرک ان کا مذہب اسلام تھا۔ لیکن ہمارے ملک کے بعض بے تدبیر اور نا خلف سیاستدانوں نے مذہب کی اس افادیت کو نظر انداز کر دیا جس کے نتیجے میں بتدریج قوم پرستی اور لسانی فسادات زور پکڑتے چلے گئے اور اسی کے نتیجے میں سقوطِ ڈھاکہ کا سانحہ رونما ہوا۔
سانحہ سقوطِ ڈھاکہ کے سبب ملک دولخت ہو گیا لیکن بہت سے زخموں اور تلخ یادوں کو تاریخ پر ثبت کر گیا۔ اس حوالے سے ٹھنڈے دل سے تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے کہ جس پاکستان کے حصول کے لیے ہزاروں‘ لاکھوں مسلمانوں نے بے مثال قربانیاں دیں، آبائی علاقوں کو چھوڑ کر ہجرتیں کی گئیں، بوڑھوں کی داڑھیوں کو لہو میں تربتر کیا گیا، ماؤں، بہنوں ، بیٹیوں کو نوچا گیا اور معصوم بچوں کو نیزوں کی اَنیوں پر تڑپایا گیا ، خون کی ندیاں بہائی گئیں اور برصغیر کے طول وعرض میں زبردست تحریک چلائی گئی تو کیا وجہ ہے کہ پاکستان اپنے قیام کے فقط 24سال کے بعد ایک بڑے سانحے سے دوچار ہو گیا؟ اس سانحے کو سمجھنے کے لیے بنگال کے علیحدگی پسندوں کے طرزِ عمل اور حکمت عملی کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور ان محرکات کو اچھے طریقے سے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جن کی وجہ سے ہمیں سانحۂ مشرقی پاکستان جیسے بڑے سانحے کا سامنا کرنا پڑا جو سقوطِ بغداد اور سقوطِ بیت المقدس کے بعد اُمت کی سطح پر سب سے بڑا سانحہ اور برصغیر کی تاریخ کا بحیثیت مجموعی سب سے بڑا سانحہ تھا۔ اس حوالے سے جب ہم تاریخ کے اوراق کی گردانی کرتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ بہت سی سیاسی اور حکمت و تدبیر کی غلطیاں تھیں جو اس سانحے پر منتج ہوئیں۔ بعض اہم غلطیوں کی تفصیل درج ذیل ہے :
قیام پاکستان کے بعد بدنصیبی سے پاکستان ایک حقیقی اسلامی فلاحی ریاست میں تبدیل نہ ہو سکااور ملی وحدت کے برخلاف مختلف قومیتوں کے درمیان اپنے اپنے حقوق کے حصول کے لیے تنازعات کا آغاز ہو گیا۔ پہلا تنازع اردو کے ساتھ بنگلہ کو قومی زبان قرار دینے پر ہوا۔ بنگالیوں کے اس قابلِ غور مطالبے کو سیاسی طریقے سے حل نہ کیا جا سکا جس کی وجہ سے بنگالیوں میں احساسِ محرومی پیداہوا،اس میں اس وقت بہت زیادہ اضافہ ہوا جب عوامی لیگ نے 1970ء کے انتخابات میں نمایاں کامیابی حاصل کی لیکن اس کے باوجود اُسے اقتدار سے محروم رکھا گیا۔ یہ سیاسی تنازع بڑھتے بڑھتے ملک کی تقسیم پرمنتج ہوا۔ مشرقی پاکستان کے دینی حلقوں اور قائدین نے ملک کو یکجا رکھنے کے لیے پُرخلوص جدوجہد کی لیکن بھارتی فوج کی براہِ راست مداخلت کی وجہ سے کامیابی نہ ہو سکی۔ 16 دسمبر 1971ء کو ملک دو لخت ہو گیا۔ بنگال میں پاکستان اور نظریۂ پاکستان سے محبت رکھنے والے اتنے معتوب ہوئے کہ تاحال ان سے انتقام لینے کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔
ہمیں اس مقام پر اس بات کو بھی سمجھنا چاہیے اسلامی نظام کی تجرہ گاہ کے طور پر حاصل کیے جانے والے وطن میں عملاً کتاب وسنت کا نفاذ کرنا مسلمان حکمرانوں کی ذمہ داری تھی۔ لیکن آئینی اور نظریاتی طور پر اسلام کے نفاذ کی یقین دہانیوں کے باوجود بہت سے معاملات میں عملاً کتاب وسنت سے اعراض کیا گیا۔ اسی طرح مختلف قومیتوں کے درمیان پائے جانے والے تنازعات اور خلیج کوپاٹنا بھی قومی رہنماؤں کی اہم ذمہ داری ہے تاکہ ملک کو یکجا اور متحد رکھا جا سکے۔ اسی طرح انتخابی عمل کو ہر اعتبار سے شفاف بنانا بھی حکومتوں اوراداروں کی ذمہ داری ہے لیکن دسمبر 1971ء کے سانحے بعد بھی بہت سے اہم معاملات پر مناسب پیش رفت نہیں ہو سکی۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کے اسلامی اور نظریاتی تشخص کے خلاف سازشوں کا سلسلہ جاری ہے اوربعض غیر ملکی این جی اوز اور نام نہاد دانشورپاکستان کی نظریاتی بنیادوں کو منہدم کرکے اس کو ایک قومی ریاست میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ ملک کے ایک حصے میں بسنے والی بعض قومیتوں کے دوسری اقوام کے بارے میں رنجشیں اور تحفظات موجود ہیں۔ان کا ایک بڑا سبب سیاسی نا ہمواری اوربعض جائز حقوق کا میسر نہ آنا ہے۔ حکمران اقتدار کے نشے میں مست ہو کر قومیتوں کی محرومیوں کے ازالے کے لیے مناسب اقدامات نہیں کر پاتے۔ان محرومیوں کے ازالے کے لیے پالیسی سازوں کو جامع حکمت عملی مرتب کرنی چاہیے تاکہ مخصوص عزائم رکھنے والے گروہوں کی منفی سرگرمیوں کو روکا جا سکے۔ اسی طرح بڑی جماعتوں کو علاقائی سے زیادہ قومی سطح پر کام کرناچاہیے۔
سانحہ مشرقی پاکستان سے ہمیں یہ سبق حاصل ہوا کہ ہمیں مذہب کی افادیت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے اور اس کو جڑاؤ کی ایک عظیم قوت کے طور پر تسلیم کرناچاہیے۔ بدنصیبی سے اس درس کو ابھی تک فراموش کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح اس امر پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ سیاسی اعتبار سے عوامی مینڈیت کا مکمل احترام کیا جائے اور انتخابی نتائج کو کھلے دل سے تسلیم کیا جائے۔ سیاسی اختلافات کو اس حدتک نہیں بڑھانا چاہیے کہ عدم برداشت کی کیفیت پیدا ہو جائے اور قوم گروہوں اور پارٹیوں میں منقسم ہو کر اپنی حقیقی شناخت کھو بیٹھے۔ اداروں کو اپنے اپنے دائرۂ کار میں کام کرنا چاہیے اور ملک کے نظام کو دستور کی روشنی میں چلاناچاہیے۔ ملک میں کتاب وسنت کی عملداری کی کوشش کو جاری رکھنا چاہیے تاکہ ملک کے قیام کے حقیقی مقصد کو پورا کیا جاسکے۔ اگر ہم ان نکات پر عمل کر لیں تو یقینا سانحۂ سقوط مشرقی پاکستان سے لگنے والے زخم کا ازالہ ہو سکتا ہے اور مستقبل میں ہم اس قسم کے حادثات و سانحات سے محفوظ بھی رہ سکتے ہیں۔