انسانی زندگی میں بہت زیادہ تنوع پایا جاتا ہے۔ انسان زندگی میں اپنے لیے سہولتیں اور تعیشات کو جمع کرنے کے لیے وقت اور وسائل کو ہمہ وقت صرف کرتا رہتا ہے لیکن وہ اس بات سے غافل ہوتا ہے کہ کسی بھی لمحے اُسے موت کی وادی میں اترنا پڑے گا۔ دنیا میں جو بھی آیا ہے اُسے دنیا سے ایک دن ضرور جانا ہو گا۔ ہمارے گرد و پیش میں رہنے والے بہت سے لوگ اپنے دادا، دادی، نانا، نانی اور والدین کے جنازوں کو خود کندھا دے چکے ہیں اوربہت سے محبت کرنے والے وجودوں کو اپنے ہاتھوں سے غسل دے کر قبروں میں اُتار چکے ہیں لیکن اس کے باوجود نجانے انسان کے ذہن میں یہ خیال کیوں بسا رہتا ہے کہ وہ ہمیشہ کے لیے ہے۔وہ گمان کرتا ہے کہ موت دوسروں کے لیے ہے اور وہ اس وادی میں کبھی نہیں اترے گا۔ موت سے غفلت اور کثرت کی ہوس انسان کے رُخ کو سیدھا نہیں ہونے دیتی۔ اسی حقیقت کا ذکر اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ التکاثر میں کچھ یوں فرمایا: ''غافل کر دیا تمہیں باہمی کثرت کی خواہش نے۔یہاں تک کہ تم نے جا دیکھیں قبریں۔ ہرگز نہیں! عنقریب تم جان لو گے۔ پھر ہرگز نہیں! عنقریب تم جان لو گے۔ ہرگز نہیں! کاش تم جان لیتے یقین کا جاننا۔ یقینا ضرور تم دیکھ لو گے جہنم کو۔ پھر یقیناضرور تم دیکھ لو گے اسے یقین کی آنکھ سے۔ پھر ضرور بالضرور تم پوچھے جاؤ گے اس دن نعمتوں کے بارے میں‘‘۔
دنیا کی محبت انسان کو سیدھے راستے سے بھٹکا دیتی ہے۔ اگر انسان کو اس بات کا یقین ہو جائے کہ اس نے مرنا ہے تو یقینا اس کی سوچ اور فکر کا زاویہ بدل سکتا ہے اور وہ دنیا میں رہتے ہوئے اللہ تبارک وتعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری کے راستے کو اختیار کر سکتا ہے۔
بعض اموات ایسی ہوتی ہیں کہ جو انسان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہیں۔ میں ابھی تک اپنے والدِ مرحوم علامہ احسان الٰہی ظہیر کی وفات کے لمحات کو نہیں بھولا۔ آپ بھلے چنگے، صحت مند، چاق وچوبند اور توانا انسان تھے۔ مذہبی اور سیاسی زندگی میں پوری طرح سرگرم تھے۔ اچانک آپ کے جلسے میں بم دھماکا ہوا اور آپ اپنے ساتھیوں سمیت خون میں لت پت ہو گئے۔ چند روز دنیا میں رہنے کے بعد آپ دنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔ آپ کو علاج کے لیے ریاض کے ملٹری ہسپتال میں منتقل کیا گیا لیکن آپ جانبر نہ ہو سکے۔ آپ اپنے اعزہ و اقارب، دوست احباب اور اہلِ جماعت کو سوگوار چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ مجھے جب بھی کبھی زندگی میں خوشی یا کسی دکھ بھری خبر کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو والد مرحوم کی یاد ستانا شروع ہو جاتی ہے۔ نجی زندگی کے ساتھ ساتھ ملک کے سیاسی افق پر ہونے والی تبدیلیاں بھی ان کی یاد دلاتی رہتی ہیں۔
والدِ محترم کے انتقال کے بعد دادا مرحوم حاجی ظہور اور مرحوم چچا شیخ محبوب الٰہی نے پیار اور شفقت کا بھرپور انداز سے اظہار کیا لیکن وہ بھی اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے اور پیار بھری یادوں کو اپنے پیچھے چھوڑ گئے۔ اسی طرح والدہ مرحومہ کی محبت، پیار اور آپ کے ساتھ گزرے ہوئے لمحات بھی مجھے ان کی یاد دلاتے رہتے ہیں اور آپ کی جواں سال موت انسانی زندگی کی حقیقت کو واضح کرتی رہتی ہے۔ ان تمام جدائیوں کے باوجود بھی انسان کئی مرتبہ موت کی حقیقت سے غافل ہو جاتا ہے لیکن کوئی چونکا دینے والی خبر انسان کے اعصاب کو مضـمحل کر دیتی اور جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے۔
گزشتہ ہفتے مجھے اسی قسم کی خبر کا سامنا کرنا پڑا۔ معین اختر میرے گورنمنٹ کالج کے کلاس فیلو تھے۔ آپ ایک زندہ دل، گرمجوش، خوش لباس اورخوش اخلاق انسان تھے۔ اچھا کھانا پینا اور دوستوں سے میل جول ان کی ذات اور مزاج کا اہم حصہ تھا۔ وہ ہمیشہ مسکراتے اور ہنستے ہوئے نظر آتے تھے۔ آپ ایک اچھے بزنس مین تھے اور اپنے کاروبار کو نہایت احسن انداز میں چلا رہے تھے۔ ایک مختصر خاندان کے سربراہ تھے۔ ایک بیٹے‘ دو بیٹیوں اور اہلیہ پر مشتمل آپ کا گھرانہ آپ کی محبتوں کا محور تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ تین بھائیوں اور والدہ کی محبت بھی آپ کو حاصل تھی۔ معین اختر ہمہ وقت متحرک اور مصروف نظر آتے تھے اور دیکھنے والی آنکھ کبھی اس بات کو نہیں بھانپ سکتی تھی کہ وہ اپنے اندر بہت سے دکھوں کو سموئے ہوئے ہیں۔ مجھے گزشتہ جمعہ کی رات کو اس بات کی اطلاع ملی کہ آپ کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے۔ میں آپ کے برادرنسبتی نعمان کے میسج پرچونک اٹھا اور حیرت میں گم ہو گیا کہ ایک زندہ دل انسان کو نجانے کس صدمے کا سامنا کرنا پڑا کہ اسے آئی سی یومیں منتقل کر دیا گیا۔ اس خبر کو سننے کے باوجود میرے ذہن میں یہ خیال کسی بھی طور پر نہیں گزرا کہ ان کی حالت اتنی تشویش ناک ہو گی کہ وہ موت و حیات کی کشمکش میں ہوں گے۔ میں نے صبح فجر کی نماز کی ادائیگی کے بعد نعمان کو فون کیا مگر ان کے فون سے جواب موصول نہیں ہوا۔ میں نے ظہر کی نماز کی ادائیگی کے بعد دوبارہ فون کیا تو نعمان بھائی نے روتے ہوئے لہجے میں مجھے یہ بات بتلایا کہ معین اختر اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ وہ اس بات کے متمنی تھے میں ان کی نمازِ جنازہ پڑھاؤں۔ مجھے یقین نہیں آیا کہ ایک ہم مکتب اور ہم جماعت‘ جس کے ساتھ محبت، پیار، الفت اور تبادلۂ خیال کا سلسلہ جاری وساری رہتا تھا‘ اچانک اس دنیائے فانی سے رخصت ہو چکا ہے۔
میں ٹاؤن شپ میں واقع ان کے گھر کے قریب واقعہ مسجدکے لان میں نمازِ جنازہ کی ادائی کے لیے پہنچا اور دیکھا کہ لوگوں کی کثیر تعداد جنازے کے لیے جمع تھی۔ معین اختر کے جنازے میں لوگوںکی کثیر تعداد کا جمع ہونا اس بات کا آئینہ دار تھا کہ یقینا انہوں نے لوگوں کے ساتھ اچھے معاملات کیے اور کاروباری اعتبار سے پوری دیانت اور امانت کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو نبھاتے رہے۔ نمازِ جنازہ کی امامت کراتے ہوئے مجھ پر رقت طاری ہو گئی اور ماضی کے بہت سے مناظر میرے دماغ کی سکرین پر چلناشروع ہو گئے۔ جب میں نے ان کے چہرے اور وجود کو دیکھا تو یہ یقین حاصل ہوا کہ دنیا میں جو بھی آیا ہے اس کو ایک دن دنیائے فانی سے کوچ کرنا پڑے گا۔ معین اختر اس دنیا سے رخصت ہونے والے واحد انسان نہیں بلکہ اس دارِ فانی سے ہر آن، ہر لحظہ اور ہر لمحہ لوگ رخصت ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن نجانے کیا وجہ ہے کہ لوگوں کی بڑی تعداد موت کے بعد آنے والی زندگی کی تیاری کے لیے آمادہ وتیار نہیں ہوتی۔
گزشتہ روز ہی کی بات ہے کہ میں سقوط ِ ڈھاکہ کے حوالے سے پاکستان سے محبت کرنے والے رہنماؤں کے بارے میں ایک پوسٹ دیکھ رہا تھا اور اس پوسٹ کو دیکھ کر غم میں ڈوب گیا کہ پاکستان سے محبت کرنے والے بہت سے رہنما شیخ حسینہ واجدکے ظلم وستم کا نشانہ بن کر دنیائے فانی سے کوچ کر چکے ہیں۔ ملا عبدالقادر شہید، پروفیسر غلام اعظم، مطیع الرحمن نظامی، قمر الزمان، صلاح الدین قادر، علی احسن امجد اور دیگر رہنماؤں نے پاکستان کی محبت میں ا س دنیائے فانی کوچھوڑا، دارورسن کی صعوبتوں کو سہنے کے بعد یہ لوگ دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ یہ وہ لوگ تھے جو اپنے دیس میں غدار اور پاکستان میں اجنبی ٹھہرے۔ یقینا اس قسم کے واقعات انسانوں کی آنکھوں کو کھولنے کے لیے کافی ہیں کہ اس دنیا میں آنے والے انسان کو آخرت کا سفر طے کرنا ہو گا اور وہی شخص کامیاب ہو گا جس نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی رِضاکے لیے اپنی زندگی کے زاویوں کو درست کیا ہو گا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ آل عمران کی آیت نمبر 185میں اس حقیقت کو واضح فرما دیا : ''ہر شخص کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے اور بے شک تمہیں پورا پورا دیا جائے گا تمہارے اعمال کا بدلہ قیامت کے دن۔ پس جو بچا لیا گیا (جہنم کی) آگ سے اور وہ داخل کر دیا گیا جنت میں تو یقینا وہ کامیاب ہو گیا اور نہیں ہے دنیاوی زندگی مگر دھوکے کا سامان‘‘۔
آیتِ مذکورہ ہمیں اس حقیقت کی طرف راغب کرتی ہے کہ ہمیں موت کی بعد آنے والی زندگی کے لیے ہمہ وقت تیار رہنا چاہیے اور اُس زندگی کی فکر ابھی سے کرنی چاہیے۔گردوپیش میں ہونے والی اموات پکار پکار کر ہمیں کہہ رہی ہیں کہ تمہیں بھی ایک دن موت کے گھاٹ اترنا ہو گا اور موت کے بعد تم بھی مٹی کے ساتھ مل کر مٹی ہو جاؤ گے۔ ایسے عالم میں انسان کا سرمایہ اور وسائل وغیرہ اس کے لواحقین میں تقسیم کر دیے جائیں گے اور اس کی یادیں دوست‘ احباب اور رشتہ داروں میں رہ جائیں گی لیکن حقیقت میں اس کے کام جو چیز آئے گی وہ نیک اعمال،صدقاتِ جاریہ اور دعا ئے مغفرت کرنے والے دوست احباب اور رشتہ دارہوں گے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو آخرت کی فکر کرنے اور نیک اعمال کو انجام دینے کی توفیق دے، آمین !