حافظ شفیق زاہد علمی اور تحقیق اعتبار سے ایک نمایاں شخصیت ہیں۔ وہ ایک منظم تعلیمی ادارہ چلاتے ہیں اور مدارس اور یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل طلبہ کے لیے مختلف کورسز کا اہتمام کرتے رہتے ہیں۔ روحانی علاج معالجے میں بھی گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ جادو، شیطانی اثرات اور نظرِ بد کے حوالے سے نہ صرف یہ کہ انہوں نے تحقیقی اور فکری اعتبار سے مربوط کام کیا ہے بلکہ عملی طور پر بھی روحانی امراض کا شکار بہت سے لوگ ان سے رجوع کرتے رہتے ہیں۔ حافظ شفیق زاہد ایک باعمل انسان ہیں اور ان کی روحانی اور علمی شخصیت سے بہت سے لوگ متاثر ہیں۔ حافظ شفیق زاہد کا مجھ سے بھی دیرینہ تعلق ہے۔ وہ جب بھی ملتے ہیں انتہائی پیار اور محبت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ان کے ادارے کے زیرِ اہتمام مختلف عناوین پرلیکچرز کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے اور اس حوالے سے علماء کرام اور دانشوروں کو مدعو کیا جاتا ہے۔ کچھ روز قبل ان کے ادارے کے ایک نمائندے محمد سلیم نے مجھ سے رابطہ کیا اور بتلایا کہ لاہور کے علاقے جوہر ٹاؤن میں ایک نئے تعلیمی ادارے اور جدید مدرسے کی بنیاد رکھی جا رہی ہے۔
ان ایام میں کچھ نجی مصروفیات کی وجہ سے میرے لیے وقت نکالنا مشکل ہوتا ہے لیکن محمد سلیم نے اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ تقریب میں زیادہ وقت نہیں لگے گا؛ چنانچہ میں نے تقریب میں شرکت کی ہامی بھر لی۔ عصر کی نمازکی ادائیگی کے بعد جب میں ادارے کی سنگِ بنیاد رکھنے کی تقریب میں پہنچا تو وہاں شیخ حافظ مسعود عالم صاحب، ڈاکٹر عبدالرحمن مدنی صاحب، ڈاکٹر حمزہ مدنی، مولانا نواز چیمہ اور مولانا بشیر خاکی کوموجود پایا۔ اکابرین کے ہمراہ سنگِ بنیاد رکھنے کے بعد میں نے مساجدکے حوالے سے اپنے علم اور مشاہدے کی روشنی میں کچھ گزارشات کو سامعین کے سامنے رکھا۔ جن کو کچھ اضافہ اور ترمیم کے ساتھ میں اپنے قارئین کے سامنے بھی رکھنا چاہتا ہوں:
مساجد بنیادی طور پر اللہ تبارک وتعالیٰ کی زمین پر اس کی عبادت کے لیے قائم کی جاتی ہیں۔ نماز کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ مساجد روحانی تربیت کے مراکز کی حیثیت بھی رکھتی ہیں۔ انبیاء کرام نے مساجدکی تعمیر و ترقی کے لیے اپنی ذمہ داریوں کو بطریق احسن انجام دیا۔ قرآن مجید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دیگر کارہائے نمایاں کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی ذکر کیا کہ آپ علیہ السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ہمراہ بیت اللہ شریف کی تعمیر کے مقدس فریضے کو سرانجام دیا تھا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 127میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور جب بلند کر رہے تھے ابراہیم بنیادیں بیت اللہ کی اور اسماعیل بھی (اور وہ دعا کر رہے تھے) اے ہمارے رب ! قبول فرما ہم سے (یہ خدمت) بے شک تو ہی سننے والا‘ جاننے والا ہے‘‘۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیت اللہ شریف کی تعمیر کے بعد اللہ تبارک وتعالیٰ سے گرد و نواح میں بسنے والے لوگوں کے لیے ایک رسول کی بعثت کی دعا بھی مانگی۔ یہ دعا سورہ بقرہ کی آیت نمبر 129 میں کچھ یوں مذکورہے: ''اے ہمارے رب! بھیج ان میں ایک رسول انہی میں سے (جو) تلاوت کرے ان پر تیری آیتیں اور وہ تعلیم دے انہیں کتاب وحکمت کی اور وہ انہیں پاک کرے‘ بے شک تو ہی غالب حکمت والا ہے‘‘۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا قبول ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسول کریمﷺ کو سرزمینِ حجاز میں مبعوث فرما یا۔ آپﷺنے لوگوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کے تزکیے کابھی بھرپور انداز میں اہتمام کیا۔
نبی کریمﷺ کو بھی مساجد سے بہت زیادہ محبت تھی۔ آپﷺ جس وقت مدینہ طیبہ ہجرت کرکے تشریف لے گئے تو آپﷺ نے دو اہم مساجد کی بنیاد رکھی۔ مسجد قبا اور مسجد نبوی شریف، ان کی تعمیر میں آپﷺ نے بہت زیادہ دلچسپی کا اظہار کیا۔ نبی کریمﷺ ان مساجد کی تعمیر کے ساتھ ساتھ ان کی آبادکاری کے لیے بھی ہمہ وقت کوشاں رہا کرتے تھے اور اہلِ ایمان اپنی فرض نمازوں کی ادائیگی کے لیے مسجد نبوی میں کشاں کشاں چلے آیا کرتے تھے۔ نبی کریمﷺ کی ایک حدیث مبارکہ میں بلا عذر مسجد سے پیچھے رہنے والوں کی زبردست انداز میں مذمت کی گئی ہے۔
صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے‘ میں نے ارادہ کر لیا تھا کہ لکڑیوں کے جمع کرنے کا حکم دوں، پھر نماز کے لیے کہوں، اس کے لیے اذان دی جائے پھر کسی شخص سے کہوں کہ وہ امامت کرے اور میں ان لوگوں کی طرف جاؤں (جو نماز باجماعت میں حاضر نہیں ہوتے) پھر انہیں ان کے گھروں سمیت جلا دوں۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر یہ جماعت میں نہ شریک ہونے والے لوگ اتنی بات جان لیں کہ انہیں مسجد میں ایک اچھے قسم کی گوشت والی ہڈی مل جائے گی یا دو عمدہ کھر ہی مل جائیں گے تو یہ عشا کی جماعت کے لیے مسجد میں ضرور حاضر ہو جائیں۔
سورہ نور کی آیت نمبر 37میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان اہلِ ایمان کی تحسین کی ہے جو کاروبار اور تجارت کے دوران بھی نمازوں کے قیام کی طرف مائل رہتے ہیں : ''وہ مرد(کہ) نہیں غافل کرتی انہیں تجارت اور نہ خریدوفروخت اللہ کے ذکر سے اور نماز قائم کرنے سے اور زکوٰۃ اداکرنے سے‘ وہ ڈرتے ہیں اس دن سے (کہ) اُلٹ جائیں گے اس میں دل اور آنکھیں‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے سورہ فتح میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جماعت کی تعریف کرتے ہوئے یہ بات بیان فرمائی کہ وہ ہمہ وقت رکوع اور سجدے میں مشغول رہا کرتے ہیں اور ان کی پیشانیوں پر سجدوں کے آثار نمایاں نظر آتے ہیں۔ سورہ فتح کی آیت نمبر 29میں ارشادہوا: ''محمد (ﷺ) اللہ کے رسول ہیں اور (وہ لوگ) جو اُس کے ساتھ ہیں‘ بہت سخت ہیں کافروں پر (اور) بہت رحم دل ہیں اپنے درمیان (یعنی آپس میں)‘ آپ دیکھیں گے اُنہیں (اس حال میں کہ) رکوع کرنے والے ہیں‘ سجدہ کرنے والے ہیں‘ وہ تلاش کرتے ہیں اللہ کا فضل اور (اس کی) خوشنودی‘ ان کی نشانی ان کے چہروں میں (موجود) ہے سجدے کرنے کے اثر سے‘ یہ ان کا وصف تورات میں ہے اور ان کا وصف انجیل میں(بھی) ہے‘‘۔ اس آیت مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نمازوں سے کس قدر پیار کرنے والے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی اس صفت کو ہمیشہ کے لیے اپنے کلام کا حصہ بنا دیا۔
صحابہ کرامؓ کو نماز سے جو محبت تھی‘ درحقیقت وہ نبی کریمﷺ کی صحبت اور آپﷺ کی رفاقت اور شاگردی کا نتیجہ تھی۔ اس وقت اُمت مسلمہ جس زوال کا سامنا کر رہی ہے اس کی ایک بڑی وجہ مساجد اور نماز سے دوری بھی ہے۔ ہم دنیا کے ہر کام کو بطریق احسن انجام دینے کی کوشش کرتے ہیں لیکن جب نمازوں کی ادائیگی کا وقت آتا ہے تو مختلف وجوہات کی بنیاد پر نماز کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ فجر کی نماز بالعموم بستر میں گزر جاتی ہے جبکہ ظہر اور عصر کی نمازیں دکانداری، تجارت، کاروبار اور نوکری کی نذر ہو جاتی ہیں۔ مغرب کی نماز شام کی سیر اور عشا کی نماز کسی نہ کسی ڈنر پارٹی کی نذر ہو جاتی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ مسلمان اللہ تبارک وتعالیٰ کے اس حق کی ادائیگی کے لیے کیوں کوشش نہیں کرتے‘ جس نے انسان کو پیدا کیا اور انسان کو مختلف طرح کی صلاحیتوں اور توانائیوں سے نوازا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ انسانوں کی اس غفلت کا ذکر سورہ انفطار کی آیات 6 تا 8 میں کچھ یوں فرماتے ہیں: ''اے انسان کس (چیز) نے دھوکے میں ڈالا تجھے اپنے کرم کرنے و الے رب کے بارے میں؟ جس نے پیدا کیا تجھے‘ پھر درست کیا تجھے‘ پھر متناسب بنایا تجھے (برابر کیا)۔ جس صورت میں چاہا تجھے جوڑ دیا‘‘۔
دنیا میں رہتے ہوئے جن بداعمالیوں کی وجہ سے انسان کل قیامت کے دن جہنم کی آگ میں جلایا جائے گا‘ ان میں سے ایک بُرا عمل نماز کو ترک کرنا بھی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ جہنمیوں سے پوچھے جانے والے سوال اور اس کے جواب کو سورہ مدثر کی آیات 42 تا 43میں کچھ یوں بیان فرماتے ہیں: ''(اہلِ جنت جہنمیوں سے سوال کریں گے) کس چیز نے داخل کر دیا تمہیں سقر (جہنم) میں؟ وہ کہیں گے: نہیں تھے ہم نمازادا کرنے والوں میں سے‘‘۔ اس کے مدمقابل اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان لوگوں کا بھی ذکر کیا جنہیں کامیابی اور کامرانی سے ہمکنار فرمانا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ اعلیٰ کی آیات 14 تا 15میں ارشاد فرماتے ہیں: ''یقینا کامیاب ہو گیا‘ جو پاک ہو گیا اور اس نے یاد کیا اپنے رب کا نام‘ پس نماز پڑھی‘‘۔ نمازکی بروقت اور باجماعت ادائیگی کے لیے مساجد کا قیام انتہائی ضروری ہے؛ چنانچہ مساجد کو بنانے والوں کو کل قیامت کے دن جنت میں گھر کی بشارت دی گئی ہے۔ صحیح مسلم میں نبی کریمﷺ کا ارشاد عالیٰ ہے: جو شخص اللہ تعالیٰ کے لیے مسجد بنائے اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنائے گا‘‘۔
نبی کریمﷺ کے عہد مبارک میں جہاں مساجد میں نمازوں کو باجماعت ادا کیا جاتا تھا‘ وہاں عسکری اور سیاسی معاملات کے حوالے سے بھی مساجد میں مشاورت کی جاتی ہے۔ جب سے مسلمانوں نے مساجد سے لاتعلقی کو اختیار کیا ہے اور بتدریج اللہ تبارک وتعالیٰ کے اوامر کو فراموش کیا ہے‘ اس کے نتیجے میں اقوامِ عالم میں اہلِ اسلام کا مقام بتدریج کم ہوتا چلا گیا ہے۔ ہمیں اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ صحابہ کرامؓ اور ان کے بعد آنے والے زمانوں میں مسلمان مادی کمزوری کے باوجود کفار پر غالب رہے ا ور آج کا مسلمان مادی مضبوطی کے باوجود بھی غیر مسلموں کے مقابلے میں مغلوب ہے، اس کی بنیادی وجہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات، اس کے اوامراور عبادات سے دوری ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو مساجد سے محبت کرنے والا، ان کو آباد کرنے والا، ان میں باجماعت نماز کو ادا کرنے والا اور ان کی صفائی ستھرائی کے لیے اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے والا بنا دے، آمین !