5 فروری کا دن اس اعتبار سے خصوصی اہمیت کا حامل ہے کہ اس دن مظلوم کشمیریوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے دنیا بھر میں مختلف تنظیمیں بڑے پیمانے پر پروگراموں کا انعقاد کرتی ہیں۔ دنیا کے مختلف ممالک میں کانفرنسز، سیمینارز، جلسے، جلوسوں اور اجتماعات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی اس موقع پر ایک عرصے سے ریلیوں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ ان ریلیوں اور پروگراموں میں ہزاروں‘ لاکھوں افراد شرکت کرتے ہیں اور قومی اور نجی میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بھی بھرپور اندازمیں اہلِ کشمیر کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیاجاتا ہے۔
اس دفعہ بھی ملک کے طول وعرض میں جماعت اسلامی، قرآن وسنہ موومنٹ، مسلم لیگ، مرکزی جمعیت اہلحدیث اور دیگر تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کے زیر اہتمام مختلف مقامات پر ریلیوں، اجتماعات اور کانفرنسوں کا انعقاد کیا گیا۔ ان اجتماعات میں حسبِ سابق لوگوں نے بڑے جوش اور جذبے کے ساتھ شرکت کی اور مظلوم کشمیریوں کے ساتھ بھرپور انداز میں وابستگی کا اظہار کیا۔ اس وقت دنیا ایک گلوبل وِیلیج کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ دنیا میں خبروں اور معلومات کا ہر وقت تبادلہ جاری وساری رہتا ہے۔ اس گلوبل وِیلیج میں بہت سے مسائل ایسے ہیں جو اقوامِ عالم کی توجہات کے طلبگار ہیں لیکن عرصہ دراز سے صحیح طریقے سے ان پر توجہ نہیں دی جا رہی۔ فلسطین، میانمار (برما) اور کشمیر کے مسائل کو خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس لیے کہ ان علاقوں میں بسنے والے لوگ عرصۂ دراز سے اپنے اوپر ہونے والے مظالم کے حوالے سے صدائے احتجاج بلند کر رہے ہیں لیکن اقوام عالم کا سویا ہوا ضمیر اس حوالے سے بیدار ہوتا ہوا نظر نہیں آتا اور بین الاقوامی فورمز بھی ان اہم معاملات پر اُس انداز میں توجہ نہیں دیتے جس انداز میں توجہ دیے جانے کی ضرورت ہے۔
مقبوضہ جموں و کشمیر کے بسنے والے لوگوں کی اکثریت بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی لیکن بھارت نے مقبوضہ کشمیر پر غاصبانہ اور جبری قبضے کو برقرار رکھا ہوا ہے اور عرصۂ دراز سے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں مشغول ہے۔ بہت سے کشمیری رہنما محبوس ہیں اور عرصہ دراز سے بھارتی ظلم اور تشدد کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ سید علی گیلانی، ڈاکٹر قاسم، یاسین ملک، میر واعظ اور مولانا شوکت نے کشمیر کاز کے لیے بے مثال قربانیاں دی ہیں لیکن بھارت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ بوڑھوں کو سرعام زدوکوب کیا جاتا ہے، نوجوانوں کو ظلم اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتاہے، مقبوضہ وادی میں ماؤں اور بہنوں کی عصمت دری کے واقعات آئے دن سننے کو ملتے رہتے ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ معصوم بچوں کو بھی کئی مرتبہ بلادریغ ذبح کر دیا جاتا ہے۔آئے روز کے کرفیو اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے اکثر وبیشتر مقبوضہ کشمیر میں کاروبارِ زندگی معطل رہتا ہے۔ اس ظلم اور شقاوت پر مظلوم کشمیری آئے دن احتجاج کرتے رہتے ہیں لیکن بھارت اس احتجاج کو چنداں اہمیت دینے کے لیے آمادہ وتیار نہیں ہوتا اور احتجاج کرنے والے کشمیریوں کو مسلسل ابتلاؤں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اقوامِ عالم کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس ایشوکو اہمیت دیں۔ اقوام متحدہ کے عالمی پلیٹ فارم کو اس حوالے سے اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے لیکن یہ مقامِ افسوس ہے کہ اقوامِ عالم اپنی ذمہ داریوں سے نظریں چراتی نظر آتی ہیں اور بھارت کی خوشنودی حاصل کرنے میں مصروف رہتی ہیں۔ اقوا م عالم سے ہٹ کر‘ اہلِ کشمیر سے یکجہتی اور نسبت کا اظہار کرنا مسلم ممالک کی بالخصوص اولین ذمہ داری ہے۔ اس لیے کہ کشمیریوں کی غالب اکثریت مسلمان ہے۔ اسلام کے رشتے کے ناتے کشمیری ہمارے بھائی ہیں۔ شاعر نے کیا خوبصورت انداز میں اہلِ اسلام کے باہمی تعلق کی تصویر کھینچی ہے کہ:
اخوت اس کو کہتے ہیں کہ چبھے کانٹا جو کابل میں
تو ہندوستا ن کا ہر پیر وجواں بے تاب ہو جائے
قرآنِ مجید میں سورۂ حجرات میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اہلِ ایمان کو ایک دوسرے کا بھائی بھائی قرار دیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ حجرات کی آیت نمبر 10میں ارشاد فرماتے ہیں: ''یقینا صرف مومن (تو ایک دوسرے کے) بھائی ہیں‘‘۔ حدیث پاک سے بھی یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ مسلمان ایک جسدِ واحد کی مانند ہیں اگر جسم کے کسی ایک حصے کو تکلیف ہوتو پورا جسم اس کی شدت کو محسوس کرتا ہے؛ چنانچہ ہمیں اسلام کے رشتۂ اخوت کے تحت مسلمانوں کے مسائل پر اپنی توجہات کو مرکوز کرنا چاہیے اور جہاں کہیں بھی مسلمان مظلوم نظر آئیں‘ ان کی حمایت کے لیے ترجیحی بنیادوں پر آواز کو اُٹھانا چاہیے لیکن شومیٔ قسمت سے اس وقت اہلِ اسلام اپنے اپنے مسائل میں کچھ یوں الجھے ہوئے ہیں کہ مسلمانوں کے بہت سے اہم اور مرکزی مسائل پر صحیح طریقے سے توجہ نہیں دی جارہی۔ ریاستی اور قومی ترجیحات کی وجہ سے کشمیر جیسے مسائل پر اس انداز میں توجہ نہیں دی جاتی جس انداز میں اہلِ اسلام کو اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
سعودی عرب پاکستان کا قریبی دوست ہے اور بہت سے مشکل مواقع پر پاکستان کے کام آتا رہتا ہے۔ قدرتی آفات کے دوران بھی سعودی عرب کی حمایت اور تائید پاکستان کے ساتھ ہوتی ہے۔بہت سے معاشی بحرانوں کے دوران بھی سعودی عرب نے پاکستان کی بھرپور امداد کی ہے جس کی وجہ سے پاکستان ان بحرانوں سے نکلنے کے قابل ہوا۔ کشمیر کے مسئلے پر بھی ماضی میں کئی مرتبہ سعودی عرب نے پاکستان کی حمایت کی ہے۔ رابطہ عالم اسلامی کے جنرل سیکرٹری اور ایڈیشنل سیکرٹری کچھ سال قبل پاکستان تشریف لائے تو انہوں نے جہاں مختلف تقریبات میں کئی اہم اُمور پر اظہارِ خیال فرمایا‘ وہیں رابطہ عالم اسلامی کے ایڈیشنل جنرل سیکرٹری نے سردار عتیق احمد کی میزبانی میں ہونے والے ایک پروگرام میں بھرپور طریقے سے اہلِ کشمیر کے لیے اپنی حمایت اور تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ لیکن ان تمام یقین دہانیوں کے باوجود اہلِ کشمیر کے مسئلے کو جس انداز میں حل ہونا چاہیے اس انداز میں ان کو حل نہیں کیا جا رہا۔ او آئی سی اور دیگر پلیٹ فارمز پر اس مسئلے کو امتیازی حیثیت سے اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن بدنصیبی سے یہ مسئلہ تاحال صحیح طریقے سے اُبھر کر سامنے نہیں آیا۔ اہلِ کشمیر کی معاونت کے لیے اگر مسلم اور عرب ممالک یکسو ہو جائیں تو بھارت پر سفارتی اور سیاسی دباؤ ڈالا جا سکتا ہے اور کشمیریوں کے خود حق ارادیت کے حصول میں آسانیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ اقوام عالم اور مسلم اُمت سے کہیں بڑھ کر اہلِ پاکستان اور وطن عزیز کے حکمرانوں پر مسئلہ کشمیر کے حل کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
پاکستانی قوم اور عوام تو گاہے گاہے اہلِ کشمیر کے ساتھ اپنی وابستگی کا اظہار کرتے ہی رہتے ہیں لیکن حکومتی سطح پر جس انداز میں پیش رفت ہونی چاہیے ‘دُکھ اور تاسف کا مقام ہے کہ سات دہائیاں گزر جانے کے بعد بھی اس انداز سے پیش رفت نہ ہو سکی۔ اس غفلت کی وجہ سے کشمیریوں پر ہونے والے ظلم میں اضافہ ہی ہوتا چلا گیا۔ ہمارے حکمران 5 فروری کو اہلِ کشمیر سے اظہار یکجہتی کے لیے بیانات تو دے دیتے ہیں لیکن مقبوضہ کشمیر کے لیے سفارتی سطح پر جس بھرپور تحریک کو چلانے کی ضرورت ہے اس حوالے سے منظم اور مربوط تحریک کو نہیں چلایا جاتا۔ جب تک مسئلہ کشمیر کو ترجیحی حیثیت نہیں دی جائے گی اور اس کے لیے سفارتی سطح پر بھرپور کوششیں نہیں کی جائیں گی یہ مسئلہ جوں کا توں رہے گا۔
ہمارے حکمرانوں کو دردمندی سے سمجھنا چاہیے کہ کشمیریوں پر ہونے والے مظالم کی بنیادی وجہ پاکستان کے ساتھ ان کی نسبت ہے۔ ہر سال 14 اگست کو مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کے جھنڈے لہرائے جاتے ہیں۔ کھیلوں کے میدان میں جب بھی کبھی پاکستان کو فتح حاصل ہوتی ہے تو جتنی خوشی ہر پاکستانی کو ملتی ہے‘ اتنی ہی خوشی اہلِ کشمیر کو بھی ہوتی ہے۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان اہلِ کشمیر کی توقعات پر صحیح طریقے سے پورا اُتر نہیں پا رہا۔ جس کی وجہ سے الحاقِ پاکستان کی کوششوں کے ساتھ ساتھ خود مختار کشمیر کا نعرہ اور تحریک بھی مقبوضہ وادی میں زور پکڑتی جا رہی ہے۔ ہمیں اہلِ کشمیر کی وفاؤں کا پاس کرتے ہوئے بھرپور انداز سے مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لیے اپنی توانائیوں کو صرف کرنا چاہیے تاکہ کشمیری پاکستان سے جن توقعات کا اظہارکرتے رہتے ہیں‘ ان پر پورا اترا جا سکے اور وہ دن ہم اپنی زندگیوں میں دیکھ سکیں جب مقبوضہ جموں و کشمیر پاکستان کا حقیقی جغرافیائی حصہ بن جائیں، آمین!