پہلے پارے کا آغاز سورۂ فاتحہ سے ہوتا ہے۔ اس سورہ کو اُمّ الکتاببھی کہا جاتا ہے۔ حدیث پاک کے مطابق‘ سورۂ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے تمام امراض کی شفا رکھی ہے۔ سورۂ فاتحہ کا آغاز بسم اللہ سے ہوتا ہے۔ بسم اللہ کی تلاوت کے ذریعے اس بات کا اظہار کیا جاتا ہے کہ ہم ہر کام کا آغاز اللہ تعالیٰ کے بابرکت نام کے ساتھ کرتے ہیں‘ جو نہایت مہربان اور بہت رحم فرمانے والا ہے۔ بسم اللہ کے بعد سورۂ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ کی حمد اور ثناء کا بیان ہے کہ تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ہیں جو مہربان اور بہت زیادہ رحم فرمانے والا ہے۔ اس کے بعد اس بات کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ یومِ جزا کا مالک ہے۔ یومِ جزا ایک ایسا دن ہے‘ جس میں جزا اور سزا کا صحیح اور حقیقی فیصلہ ہوگا۔ ہر ظالم‘ کافر اور غاصب کو اپنے کیے کا جواب دینا پڑے گا۔ اس کے بعد سورۂ فاتحہ میں اس عقیدے کا اظہار کیا گیا ہے کہ ہم تیری ہی عبادت کرنے والے اور تجھ ہی سے مدد مانگنے والے ہیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ سے سیدھے راستے کی طلب کی گئی ہے جو کہ ان لوگوں کا راستہ ہے‘ جن پر اللہ کا انعام ہوا اور ان لوگوں کا راستہ نہیں‘ جو اللہ کے غضب کا نشانہ بنے یا گمراہ ہوئے۔
سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ بقرہ ہے۔ سورۃالبقرہ کے آغاز میں تین گروہوں کا ذکر کیا گیا؛ ایک ایمان والوں کا گروہ‘ جن کا اللہ‘ یومِ حساب‘ قرآن مجید اور سابقہ کتب پر ایمان ہے اور جو نمازوں کو قائم کرنے والے اور زکوٰۃ ادا کرنے والے ہیں۔ دوسرا کافروں کا گروہ ہے‘ جو کسی بھی طور پر ایمان اور اسلام کے راستے کو اختیار کرنے پر تیار نہیں۔ تیسرا گروہ منافقین کا ہے‘ جو بظاہر تو ایمان کا دعویدار ہے‘ لیکن ان کے دِلوں میں کفر چھپا ہوا ہے۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہونے والی کتاب کے بارے میں شک میں مبتلا ہیں ان کو چاہیے کہ قرآن کی کسی سورت جیسی کوئی سورت بنا کر لے آئیں؛ اگر وہ ایسا نہیں کر سکتے تو انہیں چاہیے کہ اس آگ سے ڈر جائیں جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔ اس پارے میں اللہ تعالی نے انسانوں کے جدِ امجد جناب آدم علیہ السلام کی پیدائش کا ذکر کیا ہے۔ آدم علیہ السلام کی پیدائش کاواقعہ ان تمام سوالوں کا جواب پیش کرتا ہے کہ انسان کی پیدائش کب‘ کیوں اور کیسے ہوئی۔ انسانوں کی تخلیق سے قبل زمین پر جنات آباد تھے‘ جنہوں نے زمین پر سرکشی اور بغاوت کی‘ جسے کچلنے کے لیے اللہ تعالی نے فرشتوں کی ایک جماعت کو کہ جس میں ابلیس (عزازیل) بھی شامل تھا‘ روانہ کیا۔ ابلیس؛ اگرچہ گروہِ جنات سے تھا‘ لیکن مسلسل بندگی کی وجہ سے وہ فرشتوں کی جماعت میں شامل ہوگیا تھا۔ اس بغاوت کوکچلنے کے بعد ابلیس کے دل میں ایک خفیہ تکبرکی کیفیت پیدا ہو گئی جس سے اللہ علیم و قدیر پوری طرح آگاہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر انسانوں کی تخلیق کا فیصلہ فرمایا اور فرشتوں سے مخاطب ہو کرکہا: میں زمین پر ایک خلیفہ پیدا کرنے والا ہوں۔ فرشتے اس سے قبل زمین پر جنات کی یورش دیکھ چکے تھے؛ چنانچہ انہوں نے کہا: اے اللہ! تُو زمین پر اُسے پیدا کرے گا‘ جو خون بہائے گا اور فساد پھیلائے گا‘ جبکہ ہم تیری تعریف اور تقدیس میں مشغول رہتے ہیں۔ اللہ نے کہا: جو میں جانتا ہوں‘ تم نہیں جانتے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو مٹی سے بنانے کے بعد ان کو علم کی دولت سے بہرہ ور فرمایا اور ان کو اشیا کے ناموں سے آگاہ کر دیا۔ اس کے بعد فرشتوں اور آدم علیہ السلام کو جمع کر کے بعض اشیا کے ناموں کے بارے میں ان سے سوالات کیے‘ چونکہ فرشتے ان اشیا سے بے خبر تھے‘ اس لیے انہوں نے اللہ عزوجل کی پاکیزگی کا اعتراف اور اپنی عاجزی کا اظہار کیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو ان اشیا کا نام بتلانے کا حکم دیا تو انہوں نے ان اشیا کے نام فوراً بتلا دیے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرشتوں کو مخاطب ہو کر فرمایا کہ کیا میں نے تمہیں نہیں کہا تھا کہ میں زمین و آسمان کی پوشیدہ باتوں کو جانتا ہوں اور جو تم ظاہر کرتے ہو اور چھپاتے ہو‘ اس کو بھی جانتا ہوں۔ جب آدم علیہ السلام کی فضیلت ظاہر ہو گئی‘ تو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ آدم علیہ السلام کے سامنے جھک جائیں۔ فرشتوں میں چونکہ سرکشی نہیں ہوتی‘ اس لیے تمام فرشتے آدم علیہ السلام کے سامنے جھک گئے؛ تاہم ابلیس نے حضرت آدم علیہ السلام کی فضیلت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ اس تکبر پر اللہ تعالیٰ نے ابلیس کو ذلیل و خوار کر کے اپنی رحمت سے دُور فرما دیا اور آدم علیہ السلام کو ان کی اہلیہ کے ساتھ جنت میں آباد فرمایا۔ ابلیس نے اس موقع پر اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ رہتی دنیا تک آدم علیہ السلام اور ان کی ذُریت کو راہِ ہدایت سے بھٹکانے کے لیے سرگرم رہے گا۔
جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو جنت میں آباد فرمایا تو ان کو ہر چیز کھانے پینے کی اجازت دی ‘مگر ایک مخصوص درخت کے قریب جانے اور اس کا پھل کھانے سے روک دیا۔ ابلیس جو کہ آتشِ انتقام میں جل رہا تھا‘ اس نے آدم علیہ السلام اور جناب حوا علیہا السلام کے دل میں وسوسہ ڈالا کہ آپ کو شجرِ ممنوعہ سے اس لیے روکا گیا ہے کہ کہیں آپ کو ہمیشہ کی زندگی حاصل نہ ہو جائے۔ آدم اور ان کی اہلیہ حوا علیہما السلام اس وسوسے میں مبتلا ہو کر شجرِ ممنوعہ کے پھل کو کھا لیتے ہیں‘ اللہ تعالیٰ اس پر خفگی کا اظہار فرماتے ہیں اور ان سے لباسِ جنت اور جنت کی نعمتوں کو چھین لیتے ہیں اور ان کو جنت سے زمین پر اُتار دیتے ہیں۔ آدم علیہ السلام اور حوا علیہا السلام جب معاملے پر غور کرتے ہیں تو انتہائی نادم ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں آ کر دُعا مانگتے ہیں۔ ''اے ہمارے پروردِگار! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم یقینا خسارہ پانے والوں میں سے ہو جائیں گے‘‘۔ آدم علیہ السلام اور حوا علیہا السلام جب اللہ کی بارگاہ میں فریاد کرتے ہیں تو اللہ ان کی خطا کو معاف فرما دیتے ہیں اور ساتھ ہی اس امر کا بھی اعلان کر دیتے ہیں کہ زمین پر رہو‘ میں تمہارے پاس اپنی طرف سے ہدایت بھیجوں گا۔ پس‘ جو کوئی میری ہدایت کی پیروی کرے گا‘ نہ اس کو غم ہو گا‘ نہ خوف۔
اس پارہ میں اللہ تعالیٰ نے یہودیوں پر اپنے احسانات اور انعامات کا ذکر بھی کیا ہے اور ان کی نافرمانیوں اور ناشکریوں کا بھی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ انہوں نے بنی اسرائیل پر من و سلویٰ کو نازل فرمایا، ان کو رزق کی تگ ودو کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی تھی۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان پر بادلوں کو سایہ فگن فرما دیا اور ان کو دھوپ سے محفوظ فرما دیا۔ بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے بارہ چشموں کو جاری فرمایا لیکن ان تمام نعمتوں کو حاصل کرنے کے بعد بھی وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور نا شکری کرتے رہے۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے جناب ابراہیم علیہ السلام کے واقعے کا بھی ذکرکیا کہ انہوں نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ہمراہ اللہ تعالیٰ کی بندگی کے لیے اللہ تعالیٰ کے گھر (خانہ کعبہ) کو تعمیر فرمایا۔ تعمیر فرمانے کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعامانگی: اے باری تعالیٰ! ہمارے عمل کو قبول فرما‘ بے شک تو سننے اور جاننے والا ہے۔ آ پ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یہ دعا بھی مانگی: ''اے اللہ! اہلِ حرم کی رہنمائی کے لیے ایک ایسا رسول بھی مبعوث فرمایا جو ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم د ے اور ان کو پاک کرے‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے جناب ابراہیم علیہ السلام کی دعا کو قبول فرما کرجناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث فرمایا۔ دُعا ہے کہ اللہ ہمیں پہلے پارے کے مضامین کو سمجھنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے، آمین!