قرآنِ پاک کے بائیسویں پارے کا آغاز سورۃ الاحزاب سے ہوتا ہے۔ سورۂ احزاب کے آغاز میں اللہ تعالیٰ نے امہات المومنین سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ جو کوئی بھی امہات المومنینؓ میں سے اللہ اور اس کے رسولﷺ کے لیے اپنے آپ کو وقف کرے گا اور نیک اعمال کرے گا‘ اللہ اس کو دو گنا اجر عطا فرمائے گا اور اس کے لیے پاک رزق تیار کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے امہات المومنینؓ کو اس امر کی بھی تلقین کی کہ جب وہ کسی سے بات کریں تو نرم آواز سے بات نہ کیا کریں تاکہ جس کے دل میں مرض ہے‘ وہ ان کی آوازوں کو سن کر طمع نہ رکھے اور معروف طریقے سے بات کریں۔ اللہ تعالیٰ نے امہات المومنینؓ کو اس امر کی بھی تلقین کی کہ وہ اپنے گھروں میں مقیم رہیں اور جاہلیت کی بے پردگی اور بنائو سنگھار کا اظہار نہ کریں اور نماز کو قائم کریں‘ زکوٰۃ ادا کریں اور اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کریں۔ بے شک اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ نبی کریمﷺ کے گھر والوں سے ناپاکی کو دور کر دیا جائے اور ان کو پاک صاف کر دیا جائے۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو حکم دیا کہ وہ اپنی بیویوں‘ بیٹیوں اور مومن عورتوں کو کہہ دیں کہ گھروں سے نکلیں تو وہ جلباب کو اوڑھا کریں۔ جلباب سے مراد ایک ایسا لباس ہے‘ جس نے عورت کو سر کے بالوں سے لے کر پائوں کے ناخن تک ڈھانپا ہو اور صرف ایک آنکھ نظر آ رہی ہو۔ اس لباس کا مقصد یہ تھا کہ وہ پہچان لی جائیں اور کوئی ان کو تنگ نہ کرے۔
اس سورہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے منہ بولے بیٹے کے مسئلے کو بھی واضح کیا کہ منہ بولا بیٹا حقیقی بیٹا نہیں ہوتا اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے یہ امر بھی واضح فرما دیا کہ جناب رسول اللہﷺ تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں‘ بلکہ اللہ کے رسول اور اس کے آخری نبی ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے مومنوں کو حکم دیا کہ وہ اللہ کا کثرت سے ذکر کیا کریں اور صبح شام اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہا کریں۔ اللہ اور اس کے فرشتے مومنین پر رحمت بھیجتے ہیں تاکہ اہلِ ایمان کو گمراہی کے اندھیروں سے نکال کر (ہدایت کی) روشنی کی طرف لے جائیں۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے نبی کریمﷺ پر درود و سلام بھیجتے ہیں، اس لیے اے ایمان والو! تم بھی نبی اکرمﷺ پر خوب درود و سلام بھیجا کرو۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو اللہ اور اس کے رسولﷺ کو ایذا دیتے ہیں ان کے لیے دنیا و آخرت میں درد دینے والا عذاب ہے۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن کے حوالے سے بتلایا کہ جب قیامت کا دن آئے گا تو جہنمیوں کو اوندھے منہ جہنم کی آگ میں ڈالا جائے گا۔ اس موقع پر جہنمی کہیں گے کہ اے کاش! ہم نے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی بات کو مانا ہوتا اور کہیں گے کہ ہم نے اپنے بڑوں اور سرداروں کی بات کو مانا‘ پس انہوں نے ہمیں گمراہ کر دیا اور کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار! ان کو دُگنا عذاب دے اور ان پر لعنت برسا۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کو اس بات کی نصیحت کی ہے کہ اے ایمان والو! تم ان کی طرح نہ ہو جائو‘ جنہوں نے موسیٰ علیہ السلام کو تکلیف پہنچائی تو اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی کہی ہوئی بات سے موسیٰ علیہ السلام کی برأت ظاہر کر دی اور وہ اللہ کے نزدیک بڑی عزت والے تھے۔ اہلِ ایمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے نبی کی تکریم کریں اور آپﷺ کی ذات کا ہر ممکن دفاع کریں۔ اس سورت میں سچی بات کہنے کے فوائد بھی بتلائے گئے ہیں کہ اگر بات سیدھی کی جائے تو معاملات سنور جاتے ہیں اور اللہ حق گو شخص کے گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں۔
سورۂ سبا
سورۃ الاحزاب کے بعد سورۂ سبا ہے۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں‘ جس کے لیے آسمان و زمین میں موجود سب کچھ ہے اور آخرت میں بھی اسی کی حمد و تعریف ہے اور وہ باخبر حکمت والا ہے۔ وہ جانتا ہے‘ جو زمین میں جاتا ہے اور جو اس سے نکلتا ہے اور جو آسمان سے اترتا اور اس کی طرف چڑھتا ہے اور وہ رحمت کرنے والا اور بخشنے والا ہے۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے جناب دائود اور سلیمان علیہم السلام پر اپنے انعامات کا ذکر کیا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے جناب دائود علیہ السلام کے لیے پہاڑ اور پرندوں کو مسخر فرما دیا اور لوہے کو ان کے ہاتھوں میں نرم کر دیا تھا۔ جناب سلیمان علیہ السلام کے لیے ہوائوں کو مسخر فرما دیا تھا اور مہینے کا سفر وہ چند پہروں میں کر لیتے تھے، جنات کو ان کے احکامات کے تابع کر دیا تھا۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے سبا کی بستی کا ذکر کیا ہے کہ یقینا سبا والوں کے لیے ان کے مقامِ رہائش میں نشانی تھی کہ ان کے دائیں اور بائیں دو باغ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم اپنے رب کی دی ہوئی روزی کھائو اور اس کا شکر ادا کرو کہ یہ پاکیزہ شہر ہے اور تمہارا رب گناہوں کو معاف کرنے والا ہے‘ لیکن انہوں نے رو گردانی کی تو‘ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ‘ ہم نے ان پر ایک سخت اُمڈتا ہوا سیلاب بھیج دیا اور ان کے دونوں باغوں کو بدمزہ پھل‘ جھاڑیوں اور کچھ بیری والے باغوں میں بدل دیا‘ ہم نے ان کو یہ بدلہ ان کے کفر کی وجہ سے دیا تھا اور ہم صرف ناشکروں کو ایسا بدلہ دیتے ہیں۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ اللہ نے اپنے رسول محمد عربیﷺ کو جمیع انسانیت کے لیے بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے مگر لوگوں کی اکثریت اس بات کو نہیں جانتی۔
سورۂ فاطر
سورۂ سبا کے بعد سورۂ فاطر ہے۔ سورۂ فاطر میں اللہ تعالیٰ بیان کرتے ہیں کہ تمام تعریفیں زمین اور آسمان بنانے والے اللہ کے لیے ہیں۔ اس نے فرشتوں میں سے بھی رسول (پیامبر) چنے ہیں۔ بعض فرشتے دو پروں والے بعض تین اور بعض چار پروں والے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنی خلقت میں جس طرح چاہتا ہے اضافہ کرتا ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ جناب جبریل امینؑ جو فرشتوں کے سردار ہیں‘ کو اللہ تعالیٰ نے چھ سو پر عطا فرمائے ہیں۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے ان گمراہ لوگوں کا ذکر کیا کہ جن کو ان کے غلط اعمال بھی اچھے معلوم ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ نبی رحمتﷺکو دلاسہ دیتے ہیں کہ آپ ان اعمال پر حسرت نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ کو پتا ہے جو یہ کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں دنیا میں جتنی عورتیں حاملہ ہوتیں اور جتنی بچوں کو جنتی ہیں اور جو کوئی بھی بوڑھا ہوتا ہے اور جس کی عمر کم ہوتی ہے‘ اللہ کو ہر بات کا علم ہوتا ہے۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ یہ بھی ارشاد فرماتے ہیں کہ اندھا اور بینا برابر نہیں ہو سکتے اور نہ ہی دھوپ اور چھائوں برابر ہو سکتے ہیں اور نہ ہی زندہ اور مردہ برابر ہو سکتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جو شخص ہدایت کے راستے پر ہو وہ گمراہ انسانوں کے برابر نہیں ہوتا۔
سورہ یٰسٓ
سورہ فاطر کے بعد سورہ یٰسٓ ہے۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم کی قسم کھا کر کہا بے شک محمدﷺ رسولوں میں سے ہیں اور ان کا راستہ ہی سیدھا راستہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ جو لوگ کافر ہیں‘ ان کو ڈرایا جائے یا نہ ڈرایا جائے‘ ان کے لیے برابر ہے‘ وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ رسول کریمﷺ اس کو ڈراتے ہیں جو قرآنِ مجید کی پیروی کرتا اور اللہ تعالیٰ کے ڈر اور تقویٰ کو اختیار کرنے والا ہے۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے ایک بستی کا ذکر کیا‘ جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے دو پیغمبروں کو بھیجا لیکن بستی والوں نے ان کو جھٹلایا تب اللہ تعالیٰ نے تیسرے پیغمبر سے ان کی مدد کی۔ ان پیغمبروں نے کہا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے ہیں جس پر بستی والوں نے کہا کہ رحمن نے کچھ بھی نازل نہیں کیا اور (معاذ اللہ) تم جھوٹ بول رہے ہو۔ بستی والوں کا مقابلہ کرنے کے لیے بستی کے ایک کنارے سے ایک شخص اٹھا اور اس نے کہا کہ اے میری قوم کے لوگو! رسولوں کی پیروی کرو جو تم سے کچھ بھی طلب نہیں کر رہے اور وہ ہدایت پر ہیں۔ اس کے بعد کا واقعہ تئیسویں پارے میں بیان ہوگا۔
دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں قرآنِ مجید پڑھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے، آمین!