کسی بھی معاشرے کے استحکام اور ترقی میں نظامِ عدل کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ جس ملک میں عدل وانصاف کا نظام اچھے طریقے سے قائم کیا جاتا ہے وہاں لوگ تسلی اور اطمینان سے اپنی زندگی گزارتے رہتے ہیں جبکہ انصاف کی عدم فراہمی اورجرم وسزاکے کمزور نظام کی وجہ سے بہت سے لوگ ریاست اور اس سے متعلقہ اداروں سے بدگمان ہو جاتے ہیں۔انصاف کی عدم فراہمی کی وجہ سے معاشرہ مایوسی اور اضطراب کا شکار ہو جاتا ہے اور کئی مرتبہ انصاف کی عدم فراہمی کی وجہ سے معاشرے میں جرائم کی شرح میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔بہت سے لوگ جذبۂ انتقام اور احساسِ محرومی سے مغلوب ہو کر قانون کو پامال کرنے کے راستے پر چل نکلتے ہیں۔
معاشرے میں عدل وانصاف کی فراہمی کے حوالے سے کتاب وسنت کی تعلیمات بالکل واضح ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۂ نحل کی آیت نمبر 90 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''بے شک اللہ حکم دیتا ہے عدل اور احسان کا‘‘۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید کے دیگر بہت سے مقامات پر بھی عدل اور انصاف کے قیام کا حکم دیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نساء کی آیت نمبر135 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! ہو جاؤ انصاف پر قائم رہتے ہوئے گواہی دینے والے اللہ کی خاطر اور اگرچہ اپنے آپ کے خلاف ہی ہو یا والدین او رقریبی رشتہ داروں کے (خلاف ہی کیوں نہ ہو) اگر ہو وہ امیر یا فقیر تو اللہ تعالیٰ (تم سے) زیادہ خیر خواہ ہے اُن دونوں کا‘ تو نہ پیروی کرو خواہشِ نفس کی کہ تم عدل (نہ) کرو اور اگر توڑ مروڑ کر بات کرو گے (گواہی دیتے ہوئے) یا منہ موڑو گے (گواہی دینے سے) تو بے شک اللہ (اُس) پر جو تم عمل کرتے ہو‘ خوب خبردار ہے‘‘۔ اس آیت مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انصاف کا قیام کس قدر ضروری ہے۔ اس آیت مبارکہ میں اس بات کو واضح کر دیا گیا ہے کہ چاہے قریبی عزیز ہی کیوں نہ ہوبلکہ اس سے بھی بڑھ کر انسان کی اپنی ذات کا ہی کوئی مسئلہ کیوں نہ ہو‘ انسان کو ہر صورت انصاف او ر عدل سے کا م لینا چاہیے اور چاہت، محبت اور الفت کے رشتوں اور اپنی خواہشات کو قیامِ انصاف کے راستے میں حائل نہیں ہونے دینا چاہیے۔
اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۂ مائدہ میں بھی اس حقیقت کو واضح فرمایا کہ کسی بھی انسان کو کسی دوسرے کی دشمنی کی وجہ سے انصاف کے راستے کو نہیں چھوڑنا چاہیے۔ سورہ نساء کی آیت نمبر 8میں ارشاد ہوا: ''اے وہ ولوگو جوایمان لائے ہو! ہو جاؤ قائم رہنے والے اللہ کے لیے گواہی دینے والے انصاف کی اور ہرگز نہ آمادہ کرے تم کو کسی قوم کی دشمنی اس بات پر کہ تم عدل نہ کرو‘ عدل کیا کرو (کہ) وہ زیادہ قریب ہے تقویٰ کے اور اللہ تعالیٰ سے ڈر جاؤ، بے شک اللہ تعالیٰ خوب باخبر ہے اس سے جو تم عمل کرتے ہو‘‘۔ اس آیت مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ کسی دشمنی اور عداوت کی وجہ سے اہلِ ایمان کو کسی بھی طور انصاف کا راستہ نہیں چھوڑنا چاہیے۔ بعض لوگ کسی کی دشمنی سے مغلوب ہو کر نفرت اور تعصب کی وجہ سے ایسا رویہ اپنا لیتے ہیں جو انصاف کے معیار پر پورا نہیں اترتا۔ گھریلو ناچاقیوں کی بہت بڑی وجہ ناانصافی ہوتی ہے۔ اگر گھریلو سطح پر بھی انصاف اور عدل سے کام لیا جائے تو گھروں میں امن وسکون کو قائم رکھا جا سکتا ہے۔ معاشرتی خلفشار اور انتشار کی بہت بڑی وجہ ناانصافی ہے۔ اگر ہمارے معاشرے میں انصاف اور عدل کے قیا م پر توجہ دی جائے تو ہمارے معاشرے میں بہت سے جرائم اور ناہمواریوں کا بہ آسانی خاتمہ ہو سکتا ہے۔ اس حوالے سے نبی کریمﷺ کی سیرت مبارکہ میں ہمارے لیے بہترین رہنمائی موجود ہے۔ معاشرے میں اعتدال کو قائم رکھنے کے لیے انصاف کا قیام کس قدر اہم ہے‘ اس حوالے سے ایک اہم حدیث درج ذیل ہے:
صحیح بخاری میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے مروی ہے کہ ایک مخزومیہ خاتون (فاطمہ بنت اسود) نے (غزوۂ فتح کے موقع پر) چوری کر لی تھی، اس کے معاملے نے قریش کو فکر میں ڈال دیا۔ انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اس معاملہ پر رسول اللہﷺ سے گفتگو کون کرے! آخرکار یہ طے پایا کہ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما آپﷺ کو بہت عزیز ہیں‘ ان کے سوا اور کوئی اس کی ہمت نہیں کر سکتا؛ چنانچہ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے آپﷺ سے اس بارے میں کچھ کہا تو آپﷺ نے فرمایا: اے اسامہ! کیا تو اللہ کی حدود میں سے ایک حد کے بارے میں مجھ سے سفارش کرتا ہے؟ پھر آپﷺ کھڑے ہوئے اور خطبہ دیا (جس میں) آپﷺ نے فرمایا: پچھلی بہت سی امتیں اس لیے ہلاک ہو گئیں کہ جب ان کا کوئی شریف آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور اگر کوئی کمزور چوری کرتا تو اس پر حد قائم کرتے اور اللہ کی قسم! اگر (بالفرض محال) فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرے تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ ڈالوں۔
نبی کریمﷺ نے عدل وانصاف کے قیام کے لیے کتاب اللہ کی روشنی میں معاشرے میں سنگین جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے کڑی سزاؤں کو قائم کیا۔ اسلام کے حدود و تعزیرات کے نظام پر غور کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی قائم کردہ حدود کا بنیادی مقصد معاشرے میں عدل اور انصاف کو قائم رکھنا ہی ہے۔ زنا کی حد کا مقصد نسب کی حفاظت کرنا، قذف کی حد کا مقصد ناموس کی حفاظت کرنا، شراب کی حد کا مقصد عقل کا تحفظ کرنا اور چوری کی حد کا مقصد مال کا تحفظ کرنا ہے۔ نبی کریمﷺ کی حیاتِ مبارکہ میں جن لوگوں نے سنگین نوعیت کے جرائم کا ارتکاب کیا ان کو کڑی سزاؤں کا سامنا کرنا پڑا۔
عکل عرینہ کے بعض لوگوں نے مدینہ آکر پناہ حاصل کی لیکن اس پناہ کے ملنے کے بعد جرائم کے راستے پر چل نکلے تو ان کاکڑا احتساب کیا گیا۔ اس حوالے سے صحیح بخاری کی ایک اہم حدیث درج ذیل ہے: حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ قبیلہ عکل اور عرینہ کے چند لوگ مدینہ طیبہ میں نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کلمہ توحید پڑھ کر اظہارِ اسلام کیا اور عرض کرنے لگے: اللہ کے نبیﷺ! ہم لوگ مویشی رکھتے ہیں، زرعی زمینوں والے نہیں ہیں۔ انہیں مدینہ طیبہ کی آب و ہوا موافق نہ آئی تو رسول اللہﷺ نے کچھ اونٹ اور ایک چرواہا ان کے ساتھ کر دیا اور حکم دیا کہ شہر سے باہر کھلی فضا میں نکل جائیں اور ان اونٹوں کا دودھ وغیرہ نوش کریں۔ وہ روانہ ہوئے لیکن حرہ کے کنارے پہنچتے ہی وہ اسلام سے برگشتہ ہو گئے اور نبیﷺ کے چرواہے کو قتل کر کے اونٹوں کو ہانک کر لے گئے۔ نبی کریمﷺ کو جب ان کی خبر ملی تو آپ نے چند صحابہ کو ان کے تعاقب میں بھیجا (جب وہ انہیں پکڑ کر لائے تو) آپﷺ نے انہیں سزا دینے کا حکم دیا؛ چنانچہ ان کی آنکھوں میں گرم آہنی سلائیاں پھیر دی گئیں، ان کے ہاتھ کاٹ دیے گئے اور انہیں گرم پتھریلی زمین میں ڈال دیا گیا۔ آخر وہ اسی حالت میں مر گئے۔ واضح رہے کہ انہوں نے بھی چرواہے کو اسی طرح قتل کیا تھا۔
اسی طرح مدینہ طیبہ میں جب ایک یہودی نے ایک انصاری لڑکی کو اس کی بالیوں کے حصول کے لیے قتل کیا تو نبی کریمﷺ نے اس کو بھی اسی طرح قتل کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس حوالے سے صحیح بخاری کی ایک اہم حدیث درج ذیل ہے: حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک یہودی نے ایک (انصاری) لڑکی کا سر دو پتھروں کے درمیان میں رکھ کر کچل دیا تھا۔ اس لڑکی میں ابھی کچھ جان باقی تھی، اس سے پوچھا گیا کہ تمہارا سر اس طرح کس نے کیا ہے؟ کیا فلاں شخص نے کیا؟ کیا فلاں نے کیا؟ آخر اس یہودی کا بھی نام لیا گیا (جس نے اس کا سر کچل دیا تھا) تو لڑکی نے سر کے اشارے سے ہاں میں جواب دیا۔ پھر اس یہودی کو بلایا گیا اور آخرکار اس نے اقرارِ جرم کر لیا جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے اس کا سر بھی پتھر سے کچل دیا گیا۔
ان احادیث مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ نبی کریمﷺ جرائم کے خاتمے کے لیے قانون کے نفاذ میں کس قدر دلچسپی لیا کرتے تھے۔ نبی کریمﷺ کی رحلت کے بعد خلفائے راشدین نے بھی آپﷺ کی سنت وطریقے کو جاری وساری رکھا اور جہاں کہیں بھی جرائم نظر آئے اُن کو کچلنے کے لیے بھرپور طریقے سے اپنا کردار ادا کیا۔ خصوصاً حضرت عمر فاروق ؓ قیام عدل وانصاف میں غیر معمولی دلچسپی لیتے رہے۔ حضرت عمرفاروقؓ کی زندگی میں جب بھی کبھی کوئی جرم رونما ہوا‘ آپؓ نے اس جرم کے تدارک کے لیے بھرپور کردار ادا کیا۔ اس حوالے سے صحیح بخاری کی ایک اہم حدیث درج ذیل ہے: حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے روایت ہے کہ ایک لڑکے اصیل نامی کو دھوکے سے قتل کر دیا گیا تھا۔ حضرت عمر ؓنے کہا کہ سارے اہلِ صنعاء (یمن کے لوگ) اس کے قتل میں شریک ہوتے تو میں سب کو قتل کرا دیتا۔ اور مغیرہ بن حکیم نے اپنے والد سے بیان کیا کہ چار آدمیوں نے ایک بچے کو قتل کر دیا تھا اور ان چاروں کو سزا دیتے وقت حضرت عمر ؓنے یہ بات فرمائی تھی۔
نبی کریمﷺ اور خلفائے راشدینؓ کے طریقے پر اگر آج بھی عمل کیاجائے تو معاشرے میں عدل وانصاف کے قیام کو یقینی بنایاجا سکتا ہے۔ اس حوالے سے ہمارے حکمران طبقے کواپنی ذمہ داریوں کوبھرپورطریقے سے ادا کرنا چاہیے اور معاشرے میں قیامِ عدل کے لیے قانون کو صحیح طریقے سے نافذ کرنا چاہیے۔