والد گرامی علامہ احسان الٰہی ظہیر ملک کے معروف عالمِ دین اور سیاسی رہنما تھے۔ آپ نے اپنے عہد میں نوجوانوں کی دینی تربیت کے لیے نمایاں کردار ادا کیا۔ اس کیساتھ ساتھ آپ ملک میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی حاکمیت ،آئین اور قانون کی سربلندی کے لیے بھی کوشاں رہے۔ والد گرامی جوانی ہی میں اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ اس وقت میری عمر فقط 15برس تھی ۔ آپ کی رحلت کے بعد میں نے اپنی دینی اور دنیاوی تعلیم کے سفر کو جاری رکھا ۔مجھے اوائل عمری ہی سے تبلیغِ دین اور انسانی خدمت کیساتھ غیر معمولی شغف تھا۔ اپنے ان عزائم کی تکمیل کے لیے جہاں میں اپنے مکتبِ فکر کی تنظیموں کیساتھ وابستہ رہا‘ وہیں چند برس قبل ذاتی طور پر قرآن وسنہ موومنٹ کے نام سے ایک تحریک کو قائم کیا ۔ کچھ عرصے میں ہی یہ موومنٹ ایک منظم عملی تحریک کی شکل اختیار کر گئی۔ قرآن وسنہ موومنٹ نے بہت سی اہم دینی و ملی خدمات کو انجام دیا جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:
1۔سینکڑوں کورونا میتوں کے غسل اور تدفین کا انتظام
2۔کورونا کے ایام میں مساجد کے احیا کی کوشش
3۔بہت سی مقفل مساجد کا اجرا
4۔ملک کے طول و عرض میں قتل اور ریپ کیسز میں مظلوموں کی معاونت
5۔ملک بھر میں بیسیوں پولیس کیسز میں مظلوموں کی معاونت
6۔بہت سے مقامات پر فحاشی اور عریانی پر مبنی پروگرامز کی قانونی طریقے سے روک تھام
7۔دفاعِ شعائر اللہ کے لیے ملک بھر میں ہونے والے اہم پروگرامز میں شرکت
8۔سیلاب زدگان تک خطیر رقم اور امدادی سامان کی ترسیل
9۔ٹرانس جینڈر بل کی بھرپور مذمت
10۔بلوچستان کے مظلوم عوام کے ساتھ عملی ہمدردی
11۔ملک میں دین کے عملی نفاذ کے لیے دستوری جدوجہد کی حمایت اور نوجوانوں کی ذہن سازی
12۔ریاست کو سیکولرزم سے بچانے کے لیے دینی جماعتوں سے اشتراکِ عمل کی حمایت
13۔ الحاد‘ لادینیت‘ منکرینِ ختم نبوت‘ منکرینِ حدیث اور دیگر فتنوں کی بھرپور مخالفت
قرآن وسنہ موومنٹ اپنے اہداف کے حصول کے لیے گاہے گاہے سیمینارز اور کانفرنسوں کا انعقاد کرتی رہتی ہے۔ حالیہ دنوں میں موومنٹ کے سینئر دوست احباب نے اس بات کا فیصلہ کیا کہ دفاعِ شعائر اللہ اور استحکامِ پاکستان کے عنوان پر ایوانِ اقبال‘ لاہور میں ایک سیمینار کا انعقاد کیا جائے۔ اس سیمینار میں شرکت کے لیے پنجاب بھر سے تحریک کے ذمہ داران اور ان کیساتھ ساتھ لاہور کے گردونواح سے کارکنان اور وابستگان کی بڑی تعداد کو بھی شرکت کے لیے مدعو کیا گیا۔ 21 مئی کو ایوانِ اقبال میں ہونے والے اس سیمینار میں نوجوان اور بزرگ بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔ اس سیمینار سے جید علمائے کرام اور میرے قریبی دوست احباب نے خطاب کیا۔ سیمینار سے خطاب کرنے والوں میں مفتی عتیق الرحمن علوی، مولانا یحییٰ عارفی، مولانا شفیق الرحمن زاہد، مولانا اختر علی محمدی ، حافظ قیم الٰہی ظہیر، حافظ موذن الٰہی ظہیر، حافظ ابوبکر ایوب، حافظ ابوبکر باجوہ، مولانا عبدالرزاق اظہر، نعیم صدیق بھٹہ، ملک افضل شیرازی، حسیب ملک ، پروفسیر نوید الرحمن، اعظم سلفی اور دیگر بہت سے دوست احباب نے خطاب کیا۔
کانفرنس میں شرکا کا جذبہ دیدنی تھا اور شعائر اللہ اور استحکام پاکستان کے حوالے سے لوگ مقررین کی تقاریر میں خصوصی جوش وجذبے کا اظہار کرتے رہے۔ مجھے اس سیمینار میں خطاب کے لیے جب آخری مقرر کے طور پر دعوت دی گئی ۔اس موقع پر میں نے جن گزارشات کو سامعین کے سامنے رکھا ان کو کچھ کمی بیشی اور ترمیم کے ساتھ قارئین کے سامنے بھی رکھنا چاہتا ہوں:
اسلام اللہ تبارک وتعالیٰ کا پسندیدہ اور آخری دین ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ آل عمران کی آیت نمبر 19میں ارشاد فرماتے ہیں: ''بے شک دین تو اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہے‘‘۔ اسی طرح سورہ مائدہ کی آیت نمبر 3میں ارشاد ہوا: ''آج (کے دن) میں نے مکمل کر دیا ہے تمہارے لیے تمہارا دین اور میں نے پوری کر دی ہے تم پر اپنی نعمت اور میں نے پسند کیا ہے تمہارے لیے اسلام کو بطور دین‘‘۔
نبی کریمﷺ اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے مبعوث کیے گئے آخری نبی تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپﷺ پر نبوت و رسالت کو تمام فرما دیا اور سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر 40 میں اس امر کا اعلان فرما دیا: ''نہیں ہیں محمد (ﷺ) باپ تمہارے مردوں میں سے کسی ایک کے اور لیکن (وہ) اللہ کے رسول اور خاتم النبیین (آخری نبی) ہیں ‘‘۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپﷺ کی ذات میں غیر معمولی اوصاف کو ودیعت فرمایا تھا اور آپﷺ کی ذاتِ اقدس کو جمیع انسانیت کا مقتدیٰ اور پیشوا بنایا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر 21 میں اس امر کا اعلان فرمایا : ''بلاشبہ یقینا تمہارے لیے اللہ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے‘‘۔
نبی کریمﷺ نے عقائد کی حقیقت ،عبادات کے طریقہ کار کو واضح کرنے کیساتھ ساتھ معاشرتی زندگی میں بھی انسانوں کی بھرپور رہنمائی کی اور انسانوں کو ان طریقہ ہائے کار پر چلنے کی دعوت دی جن پر چل کر انسانیت فلاح کے راستے پر کاربند ہو سکتی ہے۔ اپنے تو اپنے رہے بیگانوں کو بھی آپﷺ کی عظمت کا اعتراف کرنا پڑا۔ نبی کریمﷺ نے کاروباری معاملات، نکاح اور شادی بیاہ کی تقریبات اور رسوم و رواج کیساتھ ساتھ اُمورِ ریاست و سیاست کی انجام دہی کا طریقہ بھی واضح فرما دیا۔ آپﷺ نے جرم وسزا کا مضبوط اور مؤثر ترین نظام دنیا میں متعارف کرایا۔ مسلمانوں کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ ایسے دین کے پیروکار ہیں جو مکمل ضابطۂ حیات ہے ۔برصغیر میں رہنے والے مسلمان بھی دین کی برکت سے طویل عرصے تک ہندوستان کی سیاست پر غالب رہے لیکن بتدریج مسلمان عقائد اور عبادات کے معاملے میں کمزور ہونے کیساتھ ساتھ اخلاقی زوال کا شکار ہوئے تو ہندو ان پر غالب آ گئے۔ ان ایام میں حضرت قائد محمد علی جناح ، علامہ اقبال، مولانا ظفر علی خان، مولانا محمد علی جوہر اور اکابر علمائے کرام نے مسلمان اُمت کی رہنمائی کے فریضے کو سرانجام دیا ۔ برصغیر کے ان اکابر رہنماؤں کی جدوجہد کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمان ایک علیحدہ وطن حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
پاکستان کے قیام کا مقصد ایک اسلامی ، فلاحی ریاست کا قیام تھا۔ پاکستان کے مسلمان اپنے عقائد، عبادات، رسوم ورواج اور معاملات کی انجام دہی میں مکمل آزاد تھے لیکن اس باوجود بہت سے معاملات میں اصلاح کی ضرورت تھی۔ پاکستان کے آئین اور قانون میں کتاب وسنت کی عملداری کی ضمانت دی گئی لیکن اس کے باوجود پاکستان کے مختلف مقامات پر جسم فروشی کے اڈے موجود رہے، منشیات فروشی کاکاروبار ہوتا رہا اور بینکوں میں سودی لین دین پوری شدومد سے جاری وساری رہا۔ ان اُمور کے خاتمے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ قوانین کے نفاذ کے لیے پاکستان کی دینی جماعتیں ایک عرصے سے دستوری جدوجہد کرنے میں مصروف ہیں لیکن بوجوہ ابھی تک منزل حاصل نہیں ہو سکی۔ بدقسمتی سے پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں کی ترجیح میں اسلامی قوانین کا عملی نفاذ شامل نہیں ہے۔ استحکام پاکستان کا ایک ہی راستہ ہے کہ ریاستی معاملات کو مذہب سے علیحدہ نہ کیا جائے اور آئین کی روح کے مطابق کتاب وسنت کی عملداری کو اس ملک میں یقینی بنایا جائے۔ آئین میں تمام اداروں کی حدود کو متعین کر دیا گیا ہے ۔ تمام اداروں کو اپنے اپنے دائرۂ کار میں اپنی اپنی ذمہ داریوں کو انجام دینا چاہیے۔ پاکستان کے سکیورٹی ادارے پاکستان کے تحفظ کے ضامن ہیں اور اندرونی وبیرونی دشمنوں سے نجات دلانا ان کی ذمہ داری ہے۔ اقتدار کا حق عوامی نمائندگان کو دیا گیا ہے جو اللہ تبارک وتعالیٰ کی حدود اور اطاعت کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے عوام پر حکمرانی کا حق رکھتے ہیں لیکن افسوس کہ اس حوالے سے کئی مرتبہ بے ضابطگی اور بے اعتدالی کا مظاہرہ کیا جا چکا ہے۔ پاکستان کے اسلامی قوانین کو تبدیل کرنے کی سازشیں وقفے وقفے سے منکشف ہوتی رہتی ہیں۔ لیکن اکابر علمائے اسلام اور دینی جماعتوں کی محنت اور مذہبی کارکنان کی قربانیوں کی وجہ سے تاحال کوئی سازش کامیاب نہیں ہو سکی۔ پاکستان کے استحکام کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو ہر قومی ادارے کا احترام کرنا چاہیے۔ اہلِ پاکستان کی یہ اجتماعی ذمہ داری ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے کے دوران پاکستان میں سیاسی افراتفری کی وجہ سے جس انداز میں عسکری تنصیبات اور اداروں پر حملہ کیا گیا وہ کسی بھی اعتبا رسے قابلِ قبول نہیں ہے۔ اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے ‘کم ہے۔
پاکستان کو صحیح معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے لیے اس کے معاشی ڈھانچے کو مضبوط کرنا انتہائی ضروری ہے‘ یہ تبھی ممکن ہو سکے گا جب سودی لین دین سے ملک کو آزاد کرکے صحیح معنوں میں اسلامی معیشت کو رواج دیا جائے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل وکرم سے پاک سرزمین ایک باحیا، پاکیزہ اور اخلاقی کردار کے حامل لوگوں کا دیس ہے۔اس ملک میں بعض لوگ بے حیائی کو فروغ دینے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ، نام نہاد مارچوں اور ٹرانس جینڈر بلوں کے ذریعے پاکستان میں مغربی ثقافت کو باقاعدہ طور پر رواج دینے کی کوشش کی گئی جو کسی بھی طور پر اہلِ اسلام اور اہلِ پاکستان کے لیے قابلِ قبول نہیں ہے۔ ان تمام قباحتوں سے نجات حاصل کرنے کا بھی ایک ہی طریقہ ہے کہ کتاب وسنت کی عملداری کو یقینی بنایا جائے۔
کنونشن کے شرکا نے بھرپور انداز سے مذکورہ نکات کی توثیق اور تائید کی۔ یہ سیمینار کئی گھنٹوں تک جاری رہا اور جب سیمینار ختم ہوا تو سامعین کے چہروں پر ایک بشاشت تھی اور ان کی آنکھوں میں ایک چمک نظر آئی جو اس بات کی دلیل تھی کہ پاکستانی عوام کی اکثریت کو پاکستان کے استحکام سے غیر معمولی دلچسپی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ پاکستان کو حقیقی معنوں میں ایک اسلامی فلاحی ریاست میں تبدیل فرمائے، آمین !