کسی بھی ملک کی بقا اور اس کے استحکام کا جہاں اس کی معاشی ترقی اور سماجی ڈھانچے کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے‘ وہیں وطن کے دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنانا بھی انتہائی ضروری ہے۔ کتاب وسنت میں اس حوالے سے بہت سی اہم تعلیمات مذکور ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۂ انفال کی آیت نمبر 60 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور تیار کرو اُن کے لیے جتنی تم استطاعت رکھتے ہو قوت سے اور بندھے ہوئے گھوڑوں سے (کہ) تم ڈراتے رہو اس سے اللہ کے دشمنوں کو اور اپنے دشمنوں کو اور کچھ دوسروں کو اُن کے علاوہ (کہ) نہیں تم جانتے ہو اُنہیں‘ اللہ جانتا ہے اُنہیں‘‘۔
اسلام کے تصورِ جہاد کا اسلامی سرحدوں کے دفاع کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہے۔ اگر مسلمان اس حوالے سے ذمہ دارانہ کردار ادا نہ کریں تو اس کے نتیجے میں بہت سے فسادی لوگ امن پسند لوگوں کو کچلنے میں کامیا ب ہو جائیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۂ بقرہ کی آیت نمبر 251 میں ارشاد فرمایا: ''اور اگر نہ ہٹاتا اللہ لوگوں کو (یعنی) ان کے بعض (شرپسندوں) کو بعض (صالح لوگوں) کے ذریعے (تو) یقینا زمین (کا نظام) بگڑ جاتا‘ لیکن اللہ فضل کرنے والا ہے تمام جہان والوں پر‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلامِ حمید میں اس بات کو بھی بیان کیا کہ بہت سے لوگ اس حد تک گراوٹ کا شکار ہوتے ہیں کہ وہ مساجد اور عبادت گاہوں کے انہدام پر بھی آمادہ ہو جائیں لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ ان کے عزائم کو اہلِ ایمان اور اسلام کی کاوشوں کے ذریعے دور فرما دیتے ہیں۔ سورۂ حج کی آیت نمبر 40 میں ارشاد ہوا: ''اور اگر نہ ہوتا (نظام) اللہ کا لوگوں کو ہٹانے کا ان کے بعض کو بعض کے ذریعے (تو) یقینا ڈھا دیے جاتے (راہیوں کے) خلوت خانے اور گرجے اور (یہودیوں کے) عبادت خانے اور مسجدیں (کہ) ذکر کیاجاتا ہے ان میں اللہ کے نام کا بہت زیادہ اور ضرور مدد کرے گا اللہ (اس کی) جو اس کی مدد کرتا ہے‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید کے متعدد مقامات پر اہلِ ایمان اور اسلام کو اسی لیے جارحیت اور کفار کے مقابلے میں قتال کرنے کی اجازت دی ہے کہ وہ اگر ایسا نہ کریں تو اہلِ کفار اُ ن پر مسلسل ظلم کرتے رہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۂ حج ہی کی آیات 39 تا 40میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اجازت دے دی گئی ہے (مقابلہ کرنے کی) ان لوگوں کو جن سے جنگ کی جاتی ہے اس وجہ سے کہ بے شک وہ ظلم کیے گئے ہیں اور بے شک اللہ ان کی مدد پر خوب قادر ہے۔ وہ جو نکالے گئے اپنے گھروں سے ناحق (کہ ان کا کوئی قصور نہ تھا) مگر یہ کہ وہ کہتے ہمارا رب اللہ ہے‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلامِ حمید میں کئی ایسے اشارے بھی فرمائے جن سے اس چیز کو جانچنا کچھ مشکل نہیں رہتا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اہلِ ایمان کو ان ذرائع کو اختیار کرنے کی تلقین فرما رہے ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر دشمن کی قوت کا مقابلہ کیا جا سکے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۂ حدید کی آیت نمبر 25میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور ہم نے لوہا نازل کیا اُس میں سخت لڑائی (کا سامان) ہے اور لوگوں کے لیے فوائد ہیں‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے راستے میں گردن کٹوانے والے اور دین کے دشمنوں کے ساتھ ٹکرانے والوں کے ساتھ جنت کا وعدہ بھی فرمایا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۂ توبہ کی آیت نمبر111 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''یقینا اللہ نے خرید لیاہے مومنوں سے ان کی جانوں اور ان کے مالوں کو اس کے بدلے کہ بے شک ان کے لیے جنت ہے وہ (مومن) لڑتے ہیں اللہ کے راستے میں؛ پس وہ قتل کرتے ہیں (یا) قتل کیے جاتے ہیں (یہ) وعدہ ہے اس (اللہ) کا سچا‘ تورات میں اور انجیل میں اور قرآن (میں)‘ اور کون ہے زیادہ پورا کرنے والا اپنے وعدے کو اللہ سے (بڑھ کر)‘‘۔
نبی کریمﷺ کی تعلیمات سے بھی وطن سے محبت اور اس کے دفاع کے لیے کاوش کا پیغام اور سبق ملتا ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ جب کبھی سفر سے واپس آتے اور مدینہ کی دیواروں کو دیکھتے تو اپنی سواری کو تیز فرما دیتے اور اگر کسی جانور کی پشت پر ہوتے تو مدینہ کی محبت میں اسے ایڑ لگاتے‘‘۔ اپنے پیارے شہر مدینہ طیبہ کی محبت اس حدتک آپﷺ کے دل میں موجود تھی کہ آپﷺ اس کے پہاڑوں کے ساتھ بھی محبت فرمایا کرتے تھے۔ آپﷺ نے اُحد پہاڑ کے ساتھ محبت کا اظہار بڑے ہی خوبصورت انداز میں فرمایا۔ اس حوالے سے معجم الکبیر طبرانی کی ایک اہم روایت درج ذیل ہے: سیدنا عبد اللہ مزنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے والد سے اوروہ آپ کے دادا سے روایت کرتے ہیں‘ انہوں نے فرمایا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:چار پہاڑ جنتی ہیں،عرض کیا گیا وہ کون سے ہیں؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا (1)''احد‘‘جنت کے پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ ہے،وہ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔ (2) ''طور‘‘جنت کے پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ ہے۔ (3) ''لبنان‘‘ جنت کے پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ ہے۔اور (4)''نَجَبَۃ‘‘ جنت کے پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ ہے۔
نبی کریمﷺ جہاں مدینہ طیبہ سے محبت فرمایا کرتے تھے وہیں اس کے دفاع کے لیے بھی انتہائی مستعد رہا کرتے تھے۔ اس حوالے سے صحیح بخاری کی ایک اہم حدیث درج ذیل ہے: نبی کریمﷺ سب سے زیادہ خوبصورت، سب سے زیادہ سخی اور سب سے زیادہ بہادر تھے۔ ایک رات مدینہ والے (شہر کے باہر شور سن کر) گھبرا گئے۔ (کہ شاید دشمن نے حملہ کیا ہے) سب لوگ اس شور کی طرف بڑھے۔ لیکن آنحضرتﷺ آواز کی طرف بڑھنے والوں میں سب سے آگے تھے اور فرماتے جاتے تھے کہ کوئی ڈر کی بات نہیں، کوئی ڈر کی بات نہیں۔ آنحضرتﷺ اس وقت حضرت ابوطلحہؓ کے (مندوب نامی) گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سوار تھے، اس پر کوئی زین نہیں تھی اور گلے میں تلوار لٹک رہی تھی۔
آپﷺ نے اپنی حیاتِ مبارکہ میں ہمیشہ قوت کو مجتمع کرنے کی تلقین کی اور آپﷺ نے قوت نشانے بازی کو قرار دیا۔ اس حوالے سے مسلم شریف کی ایک حدیث درج ذیل ہے: سیدنا عقبہ بن عامررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو منبر پر یہ فرماتے ہوئے سنا کہ: ''کفار کے مقابل ہر ممکن قوت مہیا رکھو اور خبردار!قوت تو صرف رَمی (نشانہ بازی) ہے،قوت تو رَمی ہے،قوت تو رَمی ہے‘‘۔
کتاب اللہ اور سنت نبوی شریف سے اس بات کو جانچنا کچھ مشکل نہیں کہ اسلامی سرحدوں کے دفاع اور مملکت اسلامیہ کو محفوظ بنانے کے لیے مسلمانوں کو کس حد تک یکسو اور مرتکز ہونا چاہیے۔
پاکستان ہمارا دیس ہے اور اس کے دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنانے کے لیے افواجِ پاکستان اور پاکستان کے سائنسدانوں نے ہر دور میں اپنی ذمہ داریوں کو بطریق احسن نبھایا۔ بہت سی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے بھی اس حوالے سے اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کے لیے محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان مرحوم کی خدمات سنہرے حروف سے لکھی جائیں گی جنہوں نے پاکستان کو ایٹمی ملک بنانے کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتوں اور وسائل کو بھرپور طریقے سے استعمال کیا۔ مجھے ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے کئی پروگرامز ااور تقریبات میں ملاقات کرنے کا موقع ملا۔ایک چینل کے ایک پروگرام میں بھی ہم اکٹھے شریک ہوئے، ان کی رہائش گاہ پر بھی کئی اہم میٹنگز میں شرکت کی، ان کے ساتھ میری بہت سی خوشگوار یادیں وابستہ ہیں۔ مجھے ان سے والہانہ محبت تھی۔ وہ بھی مجھ سے بہت زیادہ پیار اور شفقت کرتے تھے۔ مجھے اپنا چھوٹا بھائی کہا کرتے تھے۔ یقینا ان کی دفاعِ وطن کے لیے خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ان کے رفقا نے جس صلاحیت کے حصول کے لیے شبانہ روز محنتیں کیں اس کا عملی مظاہرہ 28 مئی 1998ء میں اس وقت کیا گیا جب واجپائی حکومت نے اس سے قبل 11 اور 13 مئی کو پانچ ایٹمی دھماکے کرکے پاکستان کو مرعوب کرنے کی کوشش کی چونکہ پاکستان ایٹمی صلاحیت کو حاصل کر چکا تھا اس لیے پاکستان نے بھارت کی برہنہ جارحیت کا بروقت جواب دے کر بھارت کے گھمنڈ اور تکبر کو خاک میں ملا کر رکھ دیا۔ پاکستان کا دفاع اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے اس وقت سے لے کر آج تک ناقابلِ تسخیر تصور کیاجاتا ہے۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو رول بیک کرنے اور غیر مؤثر بنانے کے لیے بین الاقوامی سطح پر کئی مرتبہ سازشیں کی گئیں لیکن پاکستان کے عسکری ادارے اس حوالے سے کسی بھی د باؤ کو قبول کرنے پر آمادہ وتیار نہیں ہیں۔ پاکستان کے دفاع کو مؤثر بنانے کے لیے جہاں افواج پاکستان اپنی ذمہ داریاں نبھا رہی ہیں وہیں پاکستانی قوم بھی افواج پاکستان کی پشت پر کھڑی ہے اور جب بھی کبھی ملک پر ابتلا اور آزمائش کا وقت آتا ہے تو پاکستانی قوم بالعموم اور دینی طبقات خصوصاً پاکستان کے دفاع کے لیے اپنا کردار ادا کرنے پر بھرپور طریقے سے آمادہ وتیار ہو جاتے ہیں۔
پاکستان اللہ تبارک وتعالیٰ کی ایک نعمت ہے اور اس نعمت کو برقرار رکھنے کے لیے جہاں پاکستان کی ترقی اور استحکام کے لیے تمام شعبوں میں پاکستان کی قوم اور اداروں کو ایک پیج پر آکر اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے وہیں دفاعِ پاکستان کے لیے بھی پوری قوم یکسو ہے۔ ان شاء اللہ پاکستان کا دفاع ناقابلِ تسخیر رہے گا اور پاکستان کے دشمن ناکام اور نامراد رہیں گے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل وکرم سے ہر پاکستانی شہری کتاب وسنت کی تعلیمات کے مطابق دفاعِ وطن کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے پاکستان اس حوالے سے درپیش ہر چیلنج کا بھرپور طریقے سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ پاکستان کی حفاظت فرمائے اور ہم سب کو مل کر اس کے دفاع کا فریضہ انجام دینے کی توفیق دے، آمین !