اللہ تعالیٰ نے ہر انسان میں جہاں عقل اور شعور کو پیدا کیا‘ وہیں انسان میں احساس اور فکر کو بھی پیدا کیا۔ ہر سلیم الطبع انسان فطرتاً ظلم سے نفرت کرتا ہے اور مظلوم کی حمایت کا جذبہ اور داعیہ اُس کے دل میں موجود ہوتا ہے۔ انسان تو انسان‘ اگر کوئی شخص کسی جانور یا دیگر مخلوقات سے رحم اور شفقت والا معاملہ کرے تو بھی اللہ تبارک وتعالیٰ اُس سے بہت زیادہ راضی ہو جاتے ہیں۔ اِس حوالے سے ایک اہم حدیث درج ذیل ہے:
صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ''ایک دفعہ کوئی کتا کسی کنویں کے چاروں طرف گھوم رہا تھا۔ قریب تھا کہ پیاس کی شدت سے اس کی جان نکل جائے۔ اچانک بنی اسرائیل کی ایک گنہگار عورت نے اسے دیکھ لیا تو اس نے اپنا موزہ اتارا اور کنویں سے پانی نکال کر کتے کو پلا دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اسی عمل کی وجہ سے اسے معاف کر دیا‘‘۔ صحیح بخاری کی اِس حدیث سے بہت سے اسباق حاصل ہوتے ہیں‘ جن میں سے بہت بڑا سبق یہ ہے کہ جب انسان کسی بے کس اور بے بس مخلوق پر رحم کرتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ بھی اُس پر رحمت فرماتے ہیں۔ کتا ایک نجس اور ناپسندیدہ جانور ہے لیکن اُس کے ساتھ بھی جب ایک برے کردار والی عورت نے رحم والا معاملہ کیا تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اِس ایک عمل کی وجہ سے اُس کی خطائوں کو معاف فرما دیا۔ اس کے برعکس کتاب و سنت سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ جب انسان کسی بھی مخلوق کے ساتھ ظلم و زیادتی والا معاملہ کرتا ہے تو اللہ تبارک و تعالیٰ اُس سے ناراض ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک عورت فقط ایک بلی کے ساتھ بدسلوکی کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ کی گرفت کا نشانہ بنی۔ اِس حوالہ سے حدیث درج ذیل ہے: صحیح بخاری و مسلم میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ایک بے درد اور بے رحم عورت محض اس لیے جہنم میں گرائی گئی کہ اُس نے ایک بلی کو باندھ کے (بھوکا مار ڈالا) نہ تو اسے خود کچھ کھانے کو دیا اور نہ اُسے چھوڑا کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑوں سے اپنی غذا حاصل کر لیتی۔
اِس حدیث یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ انسان تو انسان‘ کسی شخص کو اس بات کی بھی اجازت نہیں دی گئی کہ وہ کسی بے زبان جانور کے ساتھ ظلم و زیادتی والا معاملہ کرے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید میں جانوروں کو اُس کے راستے میں (قربانی کے موقع پر) ذبح کرنے کا حکم دیا ہے لیکن احادیث مبارکہ سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ جانور کو تیز دھار چھری یا اوزار کے ساتھ ذبح کرنا چاہیے تاکہ جانور کو ذبح کرتے وقت زیادہ تکلیف کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اِس حوالے سے حدیث شریف میں آتا ہے: ''جب تم ذبح کرو تو اچھے طریقے سے ذبح کرو، تم میں سے کوئی ایک شخص (جو ذبح کرنا چاہتا ہے وہ) اپنی چھری کو تیز کر لے اور ذبح کیے جانے والے جانور کو اذیت سے بچائے‘‘۔ (صحیح مسلم) اِسی طرح سلسلہ احادیث صحیحہ میں بھی ایک حدیث ہے: سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ ایک آدمی کے پاس سے گزرے جو اپنی ٹانگ ایک بکری کے اوپر رکھے چھری تیز کر رہا تھا۔ بکری اس کی طرف دیکھ رہی تھی‘ جس پر آپﷺ نے فرمایا ''کیا اس سے پہلے چھری تیز نہیں کر سکتے تھے؟ کیا تو اسے دو موت مارنا چاہتا ہے‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلام حمید میں اہلِ اسلام کو دوسروں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی تلقین کی ہے۔ انسان کو اپنے اہلِ خانہ اور اپنے ماتحتوں کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اہلِ ایمان کو اپنی بیویوں کیساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیتے ہوئے سورۃ النساء کی آیت نمبر 19 میں فرمایا ''اور زندگی بسر کرو اُن کیساتھ اچھے طریقے سے‘‘۔ نبی کریمﷺ نے بھی اہلِ خانہ کیساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا اور صرف اہلِ خانہ ہی کیساتھ نہیں بلکہ اپنے ماتحتوں اور غلاموں کیساتھ بھی اچھے سلوک کی تلقین کی۔ زمانۂ جاہلیت میں غلاموں کیساتھ کافی برا سلوک کیا جاتا تھا جبکہ نبی کریمﷺ نے غلاموں کو انسانوں کا بھائی قرار دیا۔ اِس حوالہ سے ایک اہم حدیث درج ذیل ہے:
صحیح مسلم میں معرور بن سوید سے روایت ہے کہ: میں نے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کو اس حالت میں دیکھا کہ ان (کے جسم) پر (آدھا) حلہ تھا اور ان کے غلام پر بھی اسی طرح کا (آدھا) حلہ تھا، میں نے ان سے اس کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ کے عہد میں انہوں نے ایک آدمی کو برا بھلا کہا اور اسے اس کی ماں (کے عجمی ہونے) کی (بنا پر) عار دلائی جس پر وہ آدمی نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپؐ کی خدمت میں یہ بات بتائی، اس پر نبیﷺ نے فرمایا ''تم ایسے آدمی ہو جس میں جاہلیت (کی خو) ہے، وہ تمہارے بھائی اور خدمت گزار ہیں، اللہ نے انہیں تمہارے ماتحت کیا ہے، تو جس کا بھائی اس کے ماتحت ہو وہ اسے اُسی کھانے میں سے کھلائے جو وہ خود کھاتا ہے اور وہی لباس پہنائے جو خود پہنتا ہے اور ان کے ذمے ایسا کام نہ لگائے جو اس کے بس سے باہر ہو اور اگر تم اپنے غلاموں کے ذمے کوئی کام لگاؤ تو اس پر ان کی اعانت کرو‘‘۔
اسلام کا پیغام مساوات، اخوت، بھائی چارے اور محبت و شفقت کا پیغام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ احادیث مبارک میں مسلمانوں کو جسدِ واحد کی مانند قرار دیا گیا ہے۔ اِس حوالہ سے ایک اہم حدیث درج ذیل ہے: بخاری و مسلم میں حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ''مومنوں کی آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ محبت و مودت اور باہمی ہمدردی کی مثال ایک جسم کی طرح ہے کہ جب اس کا کوئی عضو تکلیف میں ہوتا ہے تو سارا جسم اس تکلیف کو محسوس کرتا ہے بایں طور کہ نیند اڑ جاتی ہے اور پورا جسم بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے‘‘۔ چنانچہ اہلِ اسلام کو انسانی بھائی چارے کیساتھ ساتھ اسلامی بھائی چارے پر بھی خصوصی توجہ دینی چاہیے اور کسی بھی مسلمان کو اگر کوئی تکلیف ہو تو اُس کی تکلیف کو اپنی ذاتی تکلیف کی حیثیت سے محسوس کرنا چاہیے۔
آج دنیا بھر کے بہت سے مقامات پر مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم کی بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ مسلم امت اقوام اور اوطان میں اس انداز سے تقسیم ہو چکی ہے کہ وہ ایک مسلمان دوسرے مسلمانوں کو صحیح طور پر محسوس نہیں کرتا، اُس کو قرآن مجید کے اِس پیغام کو یا د رکھنا چاہیے کہ یقینا مومن ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ قرآن مجید کے اِس پیغام کو شاعر نے کیا خوب انداز میں بیان کیا کہ:
اخوت اس کو کہتے ہیں چبھے کانٹا جو کابل میں
تو ہندوستاں کا ہر پیر و جوان بیتاب ہو جائے
اگر مسلمانوں کے دل میں اپنے دوسرے مسلمان بھائی اور بہنوں کا درد پیدا ہو جائے تو یقینا مظلوم مسلمانوں کی حمایت اور ان کی نصرت و اعانت کے بہت سے امکانات روشن ہو سکتے ہیں۔ دنیا بھر میں جہاں بہت سے مسلمان اجتماعی حیثیت سے کفار اور ظالموں کے ظلم اور بربریت کا شکار ہیں‘ وہیں بہت سے مسلمان انفرادی حیثیت میں بھی عرصۂ دراز سے مصائب اور ظلم کو برداشت کر رہے ہیں۔ ان مظلوم مسلمانوں میں سے ایک نمایاں شخصیت ''ڈاکٹر عافیہ صدیقی‘‘ کی ہے، جو عرصہ دراز سے بغیر کسی وجہ کے امریکہ کی قید میں اپنی زندگی کے روز و شب کاٹ رہی ہیں۔ 20 سال سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے لیکن ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے امکانات پیدا نہ ہو سکے۔ گو کئی مرتبہ ایسے مواقع آئے جب ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکی جیل سے آزاد کرایا جا سکتا تھا لیکن ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات کے درست نہ ہونے کی وجہ سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی مظلومیت اور بے بسی کیساتھ اپنی زندگی کے روز و شب کو امریکہ کی جیل میں کاٹتی رہیں۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کیس کے حوالے سے حالیہ ایام میں ایک مثبت پیش رفت اُس وقت ہوئی جب حقوقِ انسانی کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پر شہرت رکھنے والے وکیل ''کلائیو سمتھ‘‘ نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے مقدمے کی مثبت انداز سے پیروی کی اور ان کی تائید کیلئے جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بڑی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے بھی اپنی آواز کو بلند کیا۔
حالیہ ایام میں سینیٹر مشتاق احمد خان اور ڈاکٹر فوزیہ صدیقی امریکہ میں موجود ہیں اور وہ اس حوالے سے جو رُوداد سنا رہے ہیں یقینا وہ ہر حساس دل کو دکھ اور کرب میں مبتلا کرنے کیلئے کافی ہے۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی قید و بند کے ایام کے دوران بہت سی ابتلائوں کا نشانہ بن چکی ہیں اور زندگی کے طویل ماہ و سال پردیس کی جیل میں گزارنے پر بہت سی محرومیوں کا سامنا کر رہی ہیں۔ امریکہ کی جیل میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی قوتِ سماعت متاثر ہو چکی ہے اور ان کے کئی دانت بھی اس قید کے دوران جھڑ چکے ہیں لیکن اس کے باوجود اللہ تبارک و تعالیٰ کے کرم سے عقلی اور نفسیاتی اعتبار سے وہ بالکل ٹھیک ہیں۔ وہ حالتِ ہوش میں ہیں اور اپنے اوپر بیتنے والی رُوداد کو بیان کرنے پر قادر ہیں۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے کیس کے حوالے سے سینیٹر مشتاق احمد خان نے یہ بات واضح کی ہے کہ اگر حکمران سنجیدگی سے اس کیس کی پشت پناہی کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ ڈاکٹر عافیہ کو آزاد نہ کرایا جا سکے۔ امریکہ کی جیل سے ڈاکٹر عافیہ کو آزاد کرانے کیلئے پوری قوم کو یکسو ہونے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم اپنی مسلم بہن کو امریکہ کی جیل سے آزاد کرانے کیلئے یکسوئی کا مظاہرہ نہیں کرتے تو اللہ نہ کرے کہ کل ہماری زندگیوں میں اگر ہمیں کسی بحران کا سامنا کرنا پڑے‘ ایسی صورت میں اس بحران سے ہمیں نجات دلانے کیلئے کوئی ہمارے لیے بھی آواز بلند کرنے پر تیار نہیں ہو گا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل و کرم سے ملک کے دینی طبقات خصوصیت سے اس معاملے کو اجاگر کر رہے ہیں، میں نے بھی حالیہ خطبۂ جمعہ میں اپنی بساط کے مطابق ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے آواز بلند کی۔ گزشتہ روز بھی کھڈیاں میں ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کیلئے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس سے بہت سے مقررین نے خطاب کیا۔ میں نے بھی اس موقع پر ڈاکٹر عافیہ کی مظلومیت کے حوالے سے اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار کیا اور حکمرانوں سے اس بات کی اپیل کی کہ اس حوالے سے ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا چاہیے۔ اس بات کی امید کی جا سکتی ہے کہ اگر پوری قوم یکسو ہو جائے تو ڈاکٹر عافیہ کو امریکہ سے آزاد کروا کر وطن واپس لایا جا سکتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور دنیا بھر میں جہاں جہاں مظلوم مسلمان موجود ہیں‘ ان کی مدد فرمائے اور ان کی مشکلات کو دور فرمائے، آمین!