پاکستان ایک اسلامی جمہوری ریاست ہے۔ ملک میں بہت سی مذہبی سیاسی جماعتیں اور دینی طبقات اللہ کے دین کی خدمت اور نشر و اشاعت کا کام کرتے رہتے ہیں۔ ملک میں بسنے والے مسلمان مذہبی اعتبار سے مختلف مکاتب فکر میں تقسیم ہیں لیکن یہ مکاتبِ فکر ہمیشہ سے اُمت کے وسیع ترمفاد میں مشترکات پر اکٹھے ہو کر اہم مسائل کے حل کے لیے کوششیں کرتے رہے ہیں۔ ماضی میں بہت سی منظم تحریکیں مختلف مکاتبِ فکر کے اشتراکِ عمل کی وجہ سے کامیابی سے ہمکنار ہوئیں۔ تحریک نظام مصطفی اور تحریک ختم نبوت کی کامیابی کے لیے تمام مکاتبِ فکر نے مشترکہ طورپر اپنا کردار ادا کیا تھا۔ اس کے بعد بھی بہت سے اُمور پر دینی طبقات نے مشترکہ طور پر کوششیں جاری رکھیں۔ حرمتِ قرآن، حرمتِ رسول، سود کے خاتمے اور ملک میں مغربی تہذیب کے تسلط کے خلاف مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام ایک پیج پر جمع ہو جاتے ہیں۔ سرکاری سطح پر بھی بہت سی اہم تقاریب کو وقفے وقفے سے منعقد کیا جاتا ہے جن میں مختلف مکاتبِ فکر کے علماء کرام کو جمع کرکے ان کی آرا طلب کی جاتی ہیں۔ مختلف مکاتبِ فکر کے جید علما یکسو ہو کر مفید آرا پیش کرتے ہیں اور اِن آرا پر عمل پیرا ہو کر مستقبل کے حوالے سے بہتر لائحۂ عمل تیار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
حالیہ ایام میں سویڈن میں وقفے وقفے سے قرآنِ کریم کی بے حرمتی کی ناپاک جسارت کی گئی جس پر تمام مکاتبِ فکر کے جید علماء کرام نے شدید تشویش کا اظہار کیااور اپنے اپنے انداز میں اس کی بھرپور طریقے سے مذمت کی۔ ہمارے ملک میں کئی مرتبہ فرقہ وارانہ کشیدگی کے ناخوشگوار واقعات بھی دیکھنے کو ملتے رہے۔ ان واقعات کے سدباب کے لیے مختلف مکاتبِ فکر کے علما نے ماضی میں ملی یکجہتی کونسل کے نام سے ایک پلیٹ فارم قائم کیا اور اس پلیٹ فارم پر مقدساتِ اُمت کے احترام کو یقینی بنانے اور مسلمانوں کے مختلف مسالک کے ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر چلنے کے لیے مثبت لائحہ عمل کو تیار کیا گیا۔ اگر مقدساتِ اُمت کے احترام کو یقینی بنا دیا جائے اور اس میں کسی قسم کی کمی اور کوتاہی کا ارتکاب نہ کیا جائے تو ملک میں مذہبی اعتبار سے ہم آہنگی کو برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ اسی مسئلے پر علما کو یکسو اور اکٹھا کرنے کے لیے ماضی میں قاضی حسین احمدصاحب نے ملی یکجہتی کونسل کے پلیٹ فارم پر بہت زیادہ کوششیں کیں اور تمام مسالک کے علمائے کرام اور اکابرین نے اس پر دستخط کیے کہ اکابرینِ امت کی تکفیر اور تنقیص حرام ہے لیکن اس کے باوجود بعض غیر ذمہ دارافراد اور منفی سوچ رکھنے والے عناصر مقدساتِ اُمت کے بارے میں لب کشائی کرکے نامناسب رویوں کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ ایسے عناصر کسی قسم کی رُو رعایت کے مستحق نہیں ہوتے اور ان کے احتساب کے لیے ایک لائحہ عمل کا بنایا جانا انتہائی ضروری ہے۔ اِن تمام اُمور پر تبادلۂ خیال کے لیے تدارک کے لیے ہفتے کے روز اسلامی نظریاتی کونسل کے مرکزی سیکرٹریٹ میں اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ ڈاکٹر قبلہ ایاز کی سربراہی میں ملک کے جید علماء کرام کو جمع کیا گیا۔ اس اجلاس میں مختلف علما نے سویڈن کے ناپسندیدہ عمل اور ملک میں فرقہ واریت کے خاتمے کے لیے مفید آرا پیش کیں اور بعد ازاں ان آرا کو ایک اعلامیے کی شکل دے کر پریس کے حوالے بھی کیا گیا۔ اعلامیے کے اہم نکات درج ذیل ہیں:
1۔ تمام شہریوں کا یہ فرض ہے کہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کی بالادستی کو تسلیم کریں،ریاستِ پاکستان کی عزت و تکریم بجا لائیں اور ساتھ ہی ساتھ ہر حال میں ریاست کے ساتھ اپنی وفاداری کے حلف کو نبھائیں۔
2۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تمام شہری بنیادی حقوق کی عزت و تکریم کو یقینی بنائیں جیسا کہ دستورِ پاکستان میں مندرج ہے‘ بشمول قانون کی نظر میں مساوات، سماجی اور سیاسی حقوق، اظہارِ خیال، عقیدہ، عبادت اور اجتماع کی آزادی۔
3۔ دستورِ پاکستان کی اسلامی ساخت اور قوانینِ پاکستان کا تحفظ کیا جائے گا،پاکستان کے شہریوں کو یہ حق حاصل ہے کہ شریعت کے نفاذ کے لیے پُرامن جدوجہد جاری رکھیں۔
4۔ اسلام کے نفاذ کے نام پر جبر کا استعمال، ریاست کے خلاف مسلح کاروائی، تشدد اور انتشار کی تمام صورتیں بغاوت سمجھی جائیں گی اور یہ شریعت کی روح کے خلاف ہیں اور کسی فرد کو یہ حق نہیں کہ وہ حکومت، مسلح افواج اور دیگر سکیورٹی اداروں کے افراد میں سے کسی بھی فرد کے خلاف کوئی فتویٰ دے ۔
5۔ علماء مشائخ اور زندگی کے ہر شعبے سے متعلقہ افراد کو چاہیے کہ وہ ریاست اور ریاستی اداروں‘ خاص طور پر قانون نافذ کرنے والے اداروں اور مسلح افواج کی بھرپور حمایت کریں تاکہ معاشرے میں سے تشدد کو جڑ سے اکھاڑ دیا جائے۔
6۔ ہر فرد ریاست کے خلاف لسانی، علاقائی، مذہبی اور فرقہ وارانہ تعصبات کی بنیاد پر چلنے والی تحریکوں کا حصہ بننے سے گریز کرے، ریاست ایسے گروہوں کے خلاف سخت کاروائی کرے گی۔
7۔کوئی شخص فرقہ وارانہ منافرت، فرقہ وارانہ تنازع اور جبراً اپنے نظریات کسی دوسرے پر مسلط نہ کرے کیونکہ یہ شریعت کی کھلی خلاف ورزی اور فساد فی الارض ہے۔
8۔ کوئی نجی یا سرکاری یا مذہبی تعلیمی ادارہ عسکریت کی تبلیغ نہ کرے، تربیت نہ دے اور نفرت انگیزی، انتہا پسندی اور تشدد کو فروغ نہ دیے، ایسی سرگرمیوں میں ملوث افراد اور اداروں کے خلاف قانون کے مطابق ثبوت اور شواہد کی بنیاد پر سخت کارروائی کی جائے گی۔
9۔ انتہا پسندی، فرقہ واریت اور تشدد کو فروغ دینے والوں‘ خواہ وہ کسی بھی تنظیم یا گروہ سے ہوں‘ کے خلاف سخت انتقامی اور تعزیری اقدامات کیے جائیں گے۔
10۔ اسلام کے تمام مکاتبِ فکر کو یہ حق ہے کہ وہ اپنے اپنے مسلک اور عقائد کی تبلیغ کریں مگر کسی کو کسی شخص ادارے یا فرقے کے خلاف نفرت انگیزی اور اہانت پر مبنی جملوں یا بے بنیاد الزامات لگانے کی اجازت نہیں ہوگی۔
11۔ خاتم النبیین سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، جملہ انبیاء کرام، امہات المومنینؓ، اہلِ بیت اطہارؓ، خلفائے راشدینؓ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی اہانت سے متعلق زیرو ٹالرنس کی پالیسی ہو گی مگر کوئی فرد یا گروہ قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لے گا، نہ ہی توہین رسالت کے کیسز کی تفتیش یا استغاثہ میں رکاوٹ بنے گا۔
12۔ کوئی شخص کسی مسلمان کی تکفیر نہیں کرے گا اور صرف مذہبی سکالر ہی شرعی اصولوں کی وضاحت مذہبی نظریے کی اساس پر کرے گا؛ البتہ کسی کے بارے میں کفر کے مرتکب ہونے کا فیصلہ صادر کرنا عدالت کا دائرہ اختیار ہے، مسلمان کی تعریف وہی معتبر ہوگی جو دستورِ پاکستان میں ہے۔
13۔ کوئی شخص کسی قسم کی دہشت گردی کو فروغ نہیں دے گا، دہشت گردوں کی ذہنی و جسمانی تربیت نہیں کرے گا، ان کو بھرتی نہیں کرے گا اور کہیں بھی دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہوگا۔
14۔ سرکاری و نجی اور مذہبی تعلیمی اداروں کے نصاب میں اختلافِ رائے کے آداب کو شامل کیا جائے گا کیونکہ فقہی اور نظریاتی اختلافات پر تحقیق کرنے کے لیے سب سے موزوں جگہ صرف تعلیمی ادارے ہوتے ہیں۔
15۔ تمام مسلم شہری اور سرکاری حکام اپنے فرائض کی انجام دہی اسلامی تعلیمات اور دستورِ پاکستان کی روشنی میں کریں گے۔
16۔ بزرگ شہریوں، خواتین، بچوں اور دیگر تمام مستفیض افراد کے حقوق کے حوالے سے اسلامی تعلیمات ہر سطح پر دی جائیں گی۔
17۔ پاکستان کے غیر مسلم شہریوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مذہب اور مذہبی رسومات کی ادائیگی اپنے اپنے مذہبی عقائد کے مطابق کریں۔
18۔ اسلام خواتین کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے‘ کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ خواتین سے ان کے ووٹ، تعلیم اور روزگار کا حق چھینے اور ان کے تعلیمی اداروں کو نقصان پہنچائے، ہر فرد غیرت کے نام پر قتل، قرآن پاک سے شادی، ونی، کاروکاری اور وٹہ سٹہ کی شادی سے باز رہے کیونکہ یہ اسلام کی روح سے ممنوع ہیں۔
19۔ کوئی شخص مساجد، منبر و محراب، اور مذہبی تقاریب میں نفرت انگیزی پر مبنی تقریر نہیں کرے گا اور فرقہ وارانہ موضوعات کے حوالے سے اخبارات، ٹی وی پروگرامز اور سوشل میڈیا پر متنازع گفتگو نہیں کرے گا۔
20۔ آزادیٔ اظہارِ رائے اسلام اور ملک کے قوانین کے ماتحت ہے اس لیے کوئی ایسا پروگرام نہ چلایا جائے جو فرقہ وارانہ نفرت پھیلانے کا سبب بنے اور ملک کی اسلامی شناخت کو مجروح کرے۔
اِن نکات پر سنجیدگی سے عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ اور اس ضابطۂ اخلاق کو اخلاقی سطح سے بڑھ کر قانونی طور پر آگے بڑھایا جائے تو یقینا ملک میں امن وامان کو احسن طریقے سے قائم کیا جا سکتا ہے۔ ماضی قریب میں مولانا عبدالاکبر چترالی نے ناموسِ صحابہ واہلِ بیت بل کو قومی اسمبلی میں پیش کیا اور حالیہ ایام میں اس کو سینیٹ میں بھی پیش کیا جا چکا ہے۔ اگر سینیٹ سے یہ بل پاس ہو جاتا اور ملکی قانون کا حصہ بن جاتا ہے تو یقینا وہ عناصر جو ملک میں انتشار اور فساد چاہتے ہیں اور اپنے مذموم مقاصد کے لیے مقدساتِ اُمت کی تنقیص کرتے ہیں اُن کا اچھے طریقے سے احتساب کیا جاسکتا ہے۔ اگر اس امر کو یقینی بنا دیا جائے تو ملک ایک پُرامن اور مستحکم ریاست کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ وطن عزیز کو امن وسکون کا گہوارہ بنائے اور ہم سب کو ملک و ملت کی خدمت کرنے کی توفیق دے، آمین !