پاکستان کو قائم ہوئے 76برس کا عرصہ بیت چکا ہے۔مملکتِ خداداد اللہ تبارک و تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔آزادی کی نعمت کی قدر اُن لوگوں سے پوچھنی چاہیے جو برس ہا برس سے آزادی کے حصول کے لیے کوشاں ہیں۔ کشمیر،فلسطین اور میانمار کے مسلمان ایک عرصے سے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں۔ مسلمان بوڑھوں کی داڑھیوں کو لہو میں تربتر کیا جا رہا ہے، ماؤں اور بہنوں کے آنچلوں کو نوچا جا رہا ہے، معصوم بچوں کو لہو میں تڑپایا جا رہا ہے، لیکن اس کے باوجود آزادی کا خواب تاحال تشنہ ہے۔ پاکستان کا قیام آسانی کے ساتھ نہیں ہوا تھا بلکہ اس کے حصول کے لیے بہت بڑی منظم سیاسی اور عوامی تحریک کو چلایا گیا۔ حضرت قائد محمد علی جناحؒ، علامہ محمد اقبالؒ، مولانا ظفر علی خانؒ، محمد علی جوہرؒ اور اکابر علماء کرام نے قیام پاکستان کے لیے بہت زیادہ محنت اور جدوجہد کی تھی۔ برصغیر کے طول وعرض میں بہت بڑی تعداد میں اجتماعات کا انعقاد کیا گیا،جلسے، جلوسوں کے ذریعے رائے عامہ کو منظم کیا گیا اور قیام پاکستان کی راہوں کو ہموار کیا گیا۔
موجودہ پاکستان جس حصے پر قائم ہے فقط اس حصے کے رہنے والے مسلمانوں نے قیام وطن کے لیے قربانیاں نہیں دیں بلکہ ہندوستان کے دوسرے علاقوں کے مسلمانوں نے بھی قیام پاکستان کی حمایت کے لیے اپنی آواز کو بلند کیا۔ اس لیے کہ مسلمانانِ برصغیر اس بات کو سمجھ چکے تھے کہ ایک علیحدہ مملکت کا حصول اب وقت کی ضرورت بن چکا ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد اور ان کے قبیل کے دوسرے علماء متحدہ ہندوستان کو برقرار رکھنے کے لیے رائے عامہ کو ہموار کرتے رہے اور اس حوالے سے اپنے دلائل کو پیش کرتے رہے؛ تاہم مسلم عوام اور رہنماؤں نے ان کے دلائل کو اس لیے قبول نہیں کیا کہ حالات بہت زیادہ نامساعد ہو چکے تھے اور مسلمان اس قدر زوال پذیر ہو چکے تھے کہ علیحدہ مملکت کے قیام کے بغیر کوئی چارہ نہ تھا۔ پاکستان کا قیام یقینا لاکھوں قربانیوں کا نتیجہ تھا۔ ان عظیم قربانیوں کو دینے کے بعد مسلمان اس اعتبار سے مطمئن تھے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کو آزادی کی نعمت سے نواز دیا۔ پاکستان کے قیام پر ہر مسلمان کی آنکھیں آنسوؤں سے بھیگ گئیں اور روحوں اور دلوں پر رِقت طاری ہو گئی اور برصغیر کے طول وعرض میں بسنے والے مسلمانوں نے اس عظیم خوشخبری پر اطمینان اور سکون کو محسوس کیا۔
پاکستان ایک اسلامی فلاحی ریاست کے طور پر قائم کیا گیا تھا اور اس کے قیام کے وقت ایک ہی نعرے کولگایا گیا تھا کہ ''پاکستان کا مطلب کیا... لا الہ الا اللہ ‘‘۔ لیکن بدنصیبی کہ جس نعرے کی بنیاد پر پاکستان کو حاصل کیا گیا تھا‘ 76 برس گزر جانے کے بعد بھی اس پر صحیح طریقے سے عمل نہ ہو سکااور آج بھی اس حوالے سے بہت سی تشنگی محسوس کی جاتی ہے۔
نظریاتی اعتبار سے یقینا پاکستان ایک مسلم ریاست ہے جس کے آئین میں کتاب و سنت کی عملداری کی ضمانت دی گئی ہے لیکن اس کے باوجود اس بات کو محسوس کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں بہت سے ایسے کام جاری و ساری ہیں جو کتاب و سنت کی روح کے خلاف ہیں۔ پاکستان میں سودی لین دین اپنے پورے عروج پر ہے، قحبہ گری کے اڈے بھی ملک کے کئی بڑے شہروں میں موجود ہیں،منشیات اور شراب فروشی کا کام بھی جاری و ساری ہے۔ اس ساری صورتحال کو دیکھ کردینی طبقات بہت زیادہ تکلیف محسوس کرتے ہیں اوران قباحتوں کے خاتمے کے لیے آواز بھی اُٹھاتے رہتے ہیں۔ لیکن عملی صورتحال یہ ہے کہ ان قباحتوں سے نجات حاصل ہونے کے لیے تا حال مؤثر اقدامات بروئے کار نہیں لائے جا سکے۔ پاکستان کا آئین اس اعتبار سے ایک زبردست دستاویز ہے کہ اس نے حرِمت رسول اللہﷺ اور ختم نبوت کے تحفظ کی ضمانت دی ہے۔ 295-Cکا قانون نبی کریمﷺ کے شانِ اقدس میں توہین کے راستے میں ایک بہت بڑی دیوار ہے۔اس قانون کو کئی مرتبہ سازشوں کے ذریعے کالعدم کرنے کی کوشش بھی کی جاتی رہی لیکن علماء کرام،دینی طبقات اور دینی رہنماؤں کی کوششوں اور یکسوئی کی وجہ سے اس قسم کی کوئی بھی سازش کامیاب نہ ہو سکی۔ اس آئین نے ختم نبوت کے منکروں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا،اسی طرح مقدساتِ اُمت کی حرمت کو یقینی بنانے کے لیے ناموس صحابہؓ و اہل بیتؓ بل کو بھی اس ملک میں پیش کرنے کی کوششیں کی جاتی رہیں جو بالآخر کامیابی سے ہمکنار ہوئیں اور اس وقت یہ بل قومی اسمبلی اور سینیٹ سے پاس ہو چکا ہے۔ اس قانون کے نتیجے میں حرمت صحابہؓ اور اہل بیتؓ کو بھی یقینی بنا دیا گیا ہے اور کوئی بھی شخص جو ان کی توہین کا مرتکب ہوگا‘ اس کو 10 سال قید کی سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔
پاکستان ایک عرصے سے اقتصادی بحران کا شکار ہے اور ملک کے معاملات بڑے پیمانے پر قرضوں پر چل رہے ہیں۔ ان قرضوں سے نجات حاصل کرنے کے دعوے ہر حکمران اور پارٹی نے کیے لیکن افسوس کہ ان پر عمل نہ ہوسکا۔اس کی بہت بڑی وجہ سودی لین دین ہے جس کی وجہ سے ملک کی معیشت دباؤ کا شکار ہے ‘جب اللہ اور اس کے رسول کے خلاف اعلانِ جنگ کیا جائے گا تو معیشت کے معاملات بہتری کی طرف کیسے گامزن ہو سکتے ہیں؟ ملک کی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے سودی نظام سے نجات حاصل کرنا ضروری ہے۔ لیکن افسوس کہ یہ بات ہمارے حکمرانوں اور پالیسی سازوں کو سمجھ نہیں آ رہی۔ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 276 میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس امر کا اعلان فرما دیا: ''مٹاتا ہے اللہ سود کو اور بڑھاتا ہے صدقات کو اور اللہ نہیں پسند کرتا ہر ناشکرے گنہگار کو‘‘۔ اس آیت مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ سود کو گھٹاتے اور صدقات کو بڑھاتے ہیں؛ چنانچہ اگر ہم اپنے ملک کی معیشت کو بہتر بنانا چاہتے ہیں تو اس کے لیے سودی نظام اور لین دین سے نجات حاصل کرنا ہوگی۔
ملکی معیشت ہی کو بہتر بنانے کے لیے ایک اور امر جس کی طرف توجہ دینا انتہائی ضروری ہے وہ توانائی کا بحران ہے۔ اگر توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے مضبوط حکمت عملی کو تیار کر لیا جائے تو پیداواری اخراجات میں نمایاں کمی واقع ہو سکتی ہے اور صنعتوں کو ملنے والی سستی بجلی کی وجہ سے مصنوعات کی قیمتوں میں بہت نمایاں کمی واقع ہو سکتی ہے۔ توانائی کے اِس بحران پر قابو پانے کے لیے جس خلوصِ نیت کی ضرورت تھی افسوس کہ اس کا مظاہرہ ہمارے سابق حکمران نہ کر سکے۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس میں شمسی توانائی کا حصول انتہائی آسان ہے لیکن بد نصیبی سے شمسی توانائی کے ذریعے اس بحران پر قابو پانے کے لیے کوئی مضبوط لائحہ عمل اختیار نہیں کیا گیا۔اس حوالے سے ہمیں برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک کے ماڈل سے رہنمائی حاصل کرنے کی ضرورت ہے جہاں سورج کبھی کبھار نکلتا ہے لیکن اس کے باوجود شمسی توانائی سے بھرپور طریقے سے استفادہ کیا جاتا ہے۔ہمارے ملک کے کئی مقامات بالخصوص ساحلی علاقوں میں تیز ہوائیں چلتی ہیں ان مقامات پر پون چکیوں کی تنصیب سے سستی بجلی پیدا کی جا سکتی ہے اور توانائی کے بحران پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ کراچی سے بلوچستان تک اور دیگر تیز ہوا والے مقامات پر اگر پون چکیوں کی تنصیب کی جائے تو اس سے توانائی کے بحران کے حل میں مدد مل سکتی ہے۔پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے قیام کا بہت بڑا مقصد توانائی کے بحران پر قابو پانا تھا ‘افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم نے جوہری توانائی کو اس مقصد کے لیے استعمال نہیں کیا۔ اگر ان تمام ذرائع کو استعمال کرنے کی کوشش کی جائے تو ہمارے ملک میں توانائی کے بحران پر بہ آسانی قابو پایا جا سکتا ہے۔
ملک کو مضبوط اور مستحکم بنانے کے لیے ملک میں طبقاتی کشمکش کا خاتمہ ضروری ہے۔ ہمارا ملک لسانی اور قومی بنیادوں پر بہت حد تک تقسیم کا شکار ہے جس کا نتیجہ ہم ماضی میں سقوطِ ڈھاکہ کے المیے کی شکل میں بھی دیکھ چکے ہیں کہ لسانی تعصبات اس حد تک بڑھ گئے کہ ملک دولخت ہو گیا۔ افسوس کہ ہم نے اِن واقعات سے سبق نہیں سیکھا۔اگر ہم اِن واقعات سے سبق سیکھیں اور ملک میں مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دیں تو اللہ تبارک و تعالیٰ کے فضل و کرم سے قومی اور لسانی عصبیتوں پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
ہمارا ملک ایک عرصے سے سیاسی عدم استحکام سے دوچار ہے جس کی بہت بڑی وجہ دھاندلی کے الزامات ہیں۔ سقوطِ ڈھاکہ کی بہت بڑی وجہ بھی عوامی مینڈیٹ کو تسلیم نہ کیا جانا تھا۔ جس پارٹی نے الیکشن میں اکثریت حاصل کی تھی‘ اس کو اقتدار ملنا چاہیے تھا لیکن بدنصیبی سے ایسا نہ ہو سکا۔ملک میں آئندہ بھی اگر ہم سیاسی استحکام چاہتے ہیں تو ہمیں منصفانہ انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانا ہوگا۔ ہر انتخابات کے بعد کوئی نہ کوئی پارٹی انتخابی نتائج کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کرتی ہے جس کی وجہ سے ملک میں بے یقینی اور افراتفری کی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔ انتخابات میں غیر سیاسی عناصر کی مداخلت کے دروازے کو بند کیے بغیر ملک میں سیاسی استحکام پیدا نہیں ہو سکتا۔ معاشی اور داخلی استحکام کے لیے سیاسی استحکام ازحد ضروری ہے وگرنہ ملک نفرت اور تعصبات کے لاؤ میں جس انداز سے جھلس رہا ہے اس سے باہر نکلنا مشکل ہوتا چلا جائے گا۔مضبوط اور مستحکم پاکستان کا تصور اور خواہش ہر پاکستانی کے دل میں موجود ہے۔اللہ تبارک و تعالیٰ تمام طبقات، جماعتوں اور اداروں کو مضبوط کرے اور مستحکم پاکستان کے لیے انہیں اپنی توانائیوں اور وسائل کو صحیح طریقے سے استعمال کرنے کی توفیق دے، آمین !