معاشرے میں کئی مرتبہ ایسے المناک واقعات رونما ہوجاتے ہیں جن کے منفی اثرات مدتِ مدید تک محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ ان واقعات کی وجہ سے کئی مرتبہ بین المذاہب ہم آہنگی کو بھی زبردست نقصان پہنچتا ہے اور ملک کا تاثر بھی بین الاقوامی سطح پر خراب ہوتا ہے۔
پاکستان ایک اسلامی فلاحی مملکت ہے جس میں بسنے والے مسلمانوں کو جہاں بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کی یقین دہانی کرائی گئی ہے وہیں اقلیتوں کو بھی تمام بنیادی حقوق کی فراہمی کا یقین دلایا گیا ہے۔ ہمارے ملک میں مجموعی طور پر مسیحی مسلم تعلقات خوشگوار ہیں۔ مسیحی اپنی عبادات اور رسومات کی بجاآوری میں ہر اعتبار سے آزاد ہیں اور کوئی بھی مسلمان اس حوالے سے ان سے تعرض نہیں کرتا۔ تعلیم اور ملازمتوں کے دروازے مسلمانوں کی طرح‘ ان کے لیے بھی کھلے ہیں۔مسیح برادری کے گرجا گھر ملک میں مجموعی اعتبار سے محفوظ ہیں لیکن کبھی کبھار ایسے واقعات رونما ہو جاتے ہیں جن کی وجہ سے معاشرے میں تناؤ اور کشیدگی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔
چند روز قبل اسی قسم کا ایک سانحہ جڑانوالہ میں پیش آیا جہاں مبینہ طور پر مسیحی برادری کے بعض افراد نے قرآنِ مجید کی توہین کا ارتکاب کیا۔ اس واقعے پر جڑانوالہ میں غم و غصے کی ایک لہر دوڑ گئی؛ تاہم رد عمل کے طور پر جس قسم کے رویوں کا اظہار کیا گیا وہ کسی طور پر بھی اسلامی تعلیمات کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتے تھے۔ گرجا گھروں اور مسیحی برادری کے گھروں پر حملے کرکے انہیں ہراساں کرنے کی کوشش کی گئی۔ انتظامیہ نے بروقت مداخلت کی جس کی وجہ سے اب حالات کسی حد تک پُرامن ہو چکے ہیں اور افراتفری اور کشیدگی پر قابو پایا جا چکا ہے۔ اس حوالے سے دو اہم امور کی طرف توجہ دینا ریاست کی ذمہ داری ہے۔جو درج ذیل ہیں:
1۔ قرآنِ مجید اور صاحبِ قران کی حرمت کی یقین دہانی: قرآن اور صاحبِ قرآن محمد کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حرمت کے حوالے سے مسلمان کسی بھی طور پر سمجھوتے پر آمادہ نہیں ہو سکتے۔ ان کے بارے میں بے ادبی اور معاندانہ رویے کا اظہار مسلمانوں کے لیے کسی بھی طور پر قابلِ قبول نہیں ہے۔ چنانچہ جب بھی کبھی اس قسم کے واقعات رونما ہوتے ہیں مسلمان گہری تشویش میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ کچھ عرصے سے بین الاقوامی سطح پر بھی اس قسم کے واقعات وقفے وقفے سے رونما ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے دنیا بھر کے مسلمان ذہنی اذیت اور کوفت کا شکار ہیں۔ فرانس میں ناموسِ رسالت پر سرکاری سرپرستی میں حملہ کیا گیا اور سویڈن میں بھی تکرار سے قرآنِ مجید کی بے حرمتی کی گئی جس کے حوالے سے دنیائے اسلام میں زبردست قسم کے احتجاجی اجتماعات اور مظاہروں کا انعقاد کیا گیا لیکن اس کے باوجود نفرت اور تشدد کا سوداگروں کا کما حقہٗ احتساب نہ ہو سکا۔توہین پر مبنی واقعات جب بھی کبھی مسلمانوں کے کسی دیس میں رونما ہوتے ہیں تو مسلمان اس بات کو زیادہ شدت سے محسوس کرتے ہیں۔مسلمانوں کو اس بات کو ضرور مدنظر رکھنا چاہیے کہ جب بھی کبھی اس قسم کا کوئی واقعہ رونما ہو تو ایسے رد عمل کا اظہار نہیں کرنا چاہیے جس سے اُمتِ مسلمہ کی عظمت اور شناخت مجروح ہوتی ہو۔ مسلمانوں کو اس حوالے سے قانونی اور عدالتی راستوں ہی کو ترجیح دینی چاہیے اور ذمہ داران کو عدالتی طریقے سے کیفر کردار تک پہنچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ کئی مرتبہ اس قسم کے واقعات کے بعد اس قسم کا منفی تاثر بھی اُبھرتا ہے کہ بین الاقوامی دباؤ اور اثرات توہین کے مجرموں کے احتساب کے راستے میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ اس تاثر کی وجہ سے معاشرے میں غصے اور تشدد کے ساتھ ساتھ احساسِ محرومی کی بھی کیفیت پیدا ہو تی ہے جس کی وجہ سے کئی مرتبہ منفی ردعمل اور ماورائے عدالت اقدامات دیکھنے کو ملتے ہیں جو کسی بھی طور پر مناسب نہیں ہیں۔
2۔ اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانا: شعائر ِاسلام کے ساتھ ساتھ اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ بھی اسلامی حکومت کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے ایک ہے۔ مسلمانوں کے لیے کسی بھی طور پر روا نہیں کہ وہ کسی کو جبراً دائرہ اسلام میں داخل کریں۔ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 256 میں اللہ تبارک و تعالی نے اس حقیقت کو یوں واضح فرما دیا: ''کوئی زبردستی نہیں دین کے معاملے میں‘‘۔
مسلمانوں کو اہلِ کتاب کے ساتھ خصوصیت سے اچھا برتاؤ کرنا چاہیے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اہلِ کتاب کے حلال کھانے اور ان کی پاکدامن عورتوں سے نکاح کو بھی جائز قرار دیا ہے۔ سورۃ المائدہ کی آیت نمبر 5 میں ارشاد ہوا: ''آج حلال کر دی گئیں تمہارے لیے تمام پاکیزہ چیزیں اور کھانا ان لوگوں کا (ذبیحہ) جو دیے گئے کتاب‘ تمہارے لیے حلال ہے اور تمہارا کھانا ان کے لیے حلال ہے اور پاکدامن مومن عورتیں (بھی حلال ہیں)اور پاکدامن عورتیں ان لوگوں میں سے جوکتاب دیے گئے تم سے پہلے‘ (حلال ہیں)جب کہ تم دو انہیں ان کے مہر‘‘۔
اہلِ کتاب کو جب دعوت دی جائے یا اُ ن سے مجادلہ کیا جائے تو وہ بھی احسن طریقے سے ہونا چاہیے۔اللہ تبارک و تعالیٰ سورۃ العنکبوت کی آیت نمبر 46 میں اس بات کا اعلان فرماتے ہیں: ''اور تم مت جھگڑو اہلِ کتاب سے مگر اس (طریقے) سے جو (کہ) سب سے اچھا ہو‘‘۔
اہلِ کتاب کے ساتھ حسنِ سلوک کا تقاضا یہ بھی ہے کہ ان کی جان،مال اور املاک کے حوالے سے کسی بھی قسم کے معاندانہ رویے کا اظہار نہ کیا جائے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں اس بات کو واضح فرمایا کہ کسی ایک انسان کا بلا جواز قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔اللہ تعالیٰ سورۃ المائدہ کی آیت نمبر 32میں ارشاد فرماتے ہیں: ''جس نے قتل کیا کسی جان کو بغیر کسی جان (قصاص)کے یا زمین میں فسادمچانے کے تو گویا کہ اس نے قتل کیا تمام لوگوں کو اور جس نے (کسی کو ناحق قتل سے بچا کر) زندگی دی تواس نے گویا زندگی دی تمام لوگوں کو‘‘۔
جہاں اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسانی جان کی حرمت کو مجموعی طور واضح کیا وہاں اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورۃ الحج میں خصوصیت سے عبادت گاہوں کے انہدام کی مذمت کی ہے۔ سورۂ حج کی آیت نمبر 40 میں اعلان ہوا: ''اور اگر نہ ہوتا(نظام) اللہ کا لوگوں کو ہٹانے کا ان کے بعض کو بعض کے ذریعے (تو) یقینا ڈھا دیے جاتے (راہبوں کے) خلوت خانے اور گرجے اور (یہودیوں کے) عبادت خانے اور مسجدیں (کہ) ذکر کیا جاتا ہے ان میں اللہ کے نام کا بہت زیادہ اور یقینا ضرور مدد کرے گا اللہ (اس کی) جو اس کی مدد کرتا ہے، بلاشبہ اللہ یقینا بہت طاقت والا، خوب غالب ہے‘‘۔
اِن آیات مبارکہ کی روشنی میں اس بات کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ تمام مسلمانوں کو عبادت گاہوں کے تحفظ کی طرف راغب کرتے ہیں۔ معاشرے میں قیامِ امن کے لیے ایسے عناصر کا احتساب کرنا انتہائی ضروری ہے جو شعائرِ دین پر حملہ کر کے مسلمانوں کے جذبات کوانگیخت اور مشتعل کرتے ہیں۔ اسی طرح ان عناصر کا احتساب بھی انتہائی ضروری ہے جو ایسے موقع پر افرا تفری اور کشیدگی پھیلا کر کسی گروہ یا طبقے کو بحیثیت مجموعی ہراساں کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے افراد جو معاشرے میں بدامنی اور فساد کو پھیلاتے ہیں‘ کسی بھی قسم کی رورعایت کے حقدار نہیں ہوتے۔شریعت اسلامیہ نے فساد فی الارض کو انتہائی ناپسند کیا اور اس کے لیے انتہائی کڑی سزائیں مقرر کی ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سورۃ المائدہ کی آیت نمبر 33 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''بے شک سزا اُن لوگوں کو‘ جو جنگ کرتے ہیں اللہ اور اس کے رسول سے اور کوشش کرتے ہیں زمین میں فساد مچانے کی‘(یہ ہے) کہ وہ قتل کر دیے جائیں یا سولی پر چڑھا دیے جائیں یا کاٹ دیے جائیں ان کے ہاتھ ان کے پاؤں مخالف(سمتوں) سے یا وہ نکال دیے جائیں زمین(ملک) سے یہ ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور ان کے لیے آخرت میں بڑا عذاب ہے‘‘۔
شریعتِ اسلامیہ نے سنگین نوعیت کے جرائم کے مرتکبین کے لیے کڑی سزاؤں کو مقرر کیا ہے اس حوالے سے ایک اہم احادیث درج ذیل ہیں:
صحیح بخاری میں حضرت انس بن مالک ؓنے بیان کیا کہ قبائل عکل و عرینہ کے کچھ لوگ نبی کریمﷺ کی خدمت میں مدینہ آئے اور دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے۔ پھر انہوں نے کہا: اے اللہ کے نبیﷺ! ہم لوگ مویشی رکھتے تھے‘ کھیت وغیرہ ہمارے پاس نہیں تھے‘ (اس لیے ہم صرف دودھ پر بسر اوقات کیا کرتے تھے) اور انہیں مدینہ کی آب و ہوا ناموافق آئی تو نبی کریمﷺ نے کچھ اونٹ اور چرواہا ان کے ساتھ روانہ کر دیا اور فرمایا کہ ان اونٹوں کا دودھ وغیرہ پیو، وہ لوگ (چراگاہ کی طرف) گئے۔ لیکن مقام حرہ کے کنارے پہنچتے ہی وہ اسلام سے پھر گئے اور نبی کریمﷺ کے چرواہے کو قتل کر دیا اور اونٹوں کو لے کر بھاگنے لگے۔ اس کی خبر جب آپﷺ کو ملی تو آپ نے چند صحابہ کو ان کے پیچھے دوڑایا۔ (وہ افراد پکڑ کر مدینہ لائے گئے) تو آپﷺ کے حکم سے ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیر دی گئیں اور ان کے ہاتھ اور پیر کاٹ دیے گئے (کیونکہ انہوں نے بھی چرواہے کے ساتھ ایسا ہی کیا تھا) اور انہیں حرہ کے کنارے چھوڑ دیا گیا، آخر وہ اسی حالت میں مر گئے۔
اس حدیث مبارک سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ معاشرے میں بدامنی اور فساد کو روکنے کے لیے قوانین کا صحیح طریقے سے نفاذ نہایت ضروری ہے۔اگر معاشرے میں قوانین کو صحیح طریقے سے نافذ کیا جائے تو معاشرے سے بد امنی کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ سانحہ جڑا نوالہ جیسے واقعات کے تدارک کے لیے حرمتِ قرآن پر حملہ کرنے اور اقلیتوں کی املاک اور گرجا گھروں کو نقصان پہنچانے والے عناصر کا کڑا احتساب ہونا چاہیے تاکہ ملک میں مستقبل میں قیام امن کو یقینی بنایا جا سکے۔