"AIZ" (space) message & send to 7575

دو اہم پروگرام

ملکی سطح پر بہت سے ایسے اہم ایشوز توجہ طلب ہیں جن کو صحیح طور پر اجاگر نہیں کیا جاتا۔ بعض ادارے اور تحریکیں ان ایشوز کو اجاگر کرتے ہیں تاکہ رائے عامہ کی اس حوالے سے ذہن سازی کی جا سکے اور حکومت اور پالیسی ساز اداروں تک اپنا پیغام پہنچایا جا سکے۔ قومی اہمیت کے حامل دو اہم ایشوز پر 23 ستمبر کو دو مختلف پروگراموں کا انعقاد کیا گیا۔ 23 ستمبر کو عافیہ موومنٹ نے ملک بھر کے اہم پریس کلبوں کے سامنے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے پروگرام رکھے۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی ایک عرصے سے امریکہ کی قید میں ہیں اور اس دوران بہت سی سیاسی جماعتیں ملک میں حکمران رہ چکی ہیں لیکن یہ دکھ اور تاسف کا مقام ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے کما حقہٗ کوشش نہیں کی گئی۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی گرفتاری اس اعتبار سے ایک المیہ ہے کہ ایک پڑھی لکھی اور دین سے محبت کرنے والی خاتون امریکہ کی جیل میں قیدِ تنہائی کی زندگی گزار رہی ہے۔ اس طویل عرصے کے دوران ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی والدہ دنیا سے رخصت ہو چکی اور اُن کے بچے جوان ہو چکے ہیں۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے اِن برسوں کے دوران بہت سے ذہنی اور جسمانی تشدد کو سہا لیکن اس کے باوجود وہ تاحال جسمانی اور نفسیاتی اعتبار سے صحت مند ہیں۔چند ماہ قبل سینیٹر مشتاق احمد اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی امریکہ کے اس عقوبت خانے تک پہنچنے میں کامیاب ہوئیں جہاں پر طویل عرصے سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی محبوس ہیں۔ اس ملاقات کی روداد برادرِ اکبر سینیٹر مشتاق احمد نے مجھے بڑی تفصیل سے سنائی۔ میں نے ماضی کے بعض پروگرامز، خطبات اور اجتماعات میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کیا تاکہ اس اہم کاز پر حصہ بقدر جثہ ڈالا جا سکے ۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے اس حوالے سے مجھ سے رابطہ بھی کیا اور بعد ازاں لاہور میں سینیٹر مشتاق احمد صاحب کے ہمراہ ملاقات کے لیے بھی وہ تشریف لائیں۔ اس ملاقات میں جہاں انہوں نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے حوالے سے اپنے جذبات اور جدوجہد کا ذکر کیا وہیں اُن کی گفتگو میں خاص قسم کی بے بسی بھی نظر آئی کہ خواہش کے باوجود وہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو پاکستان لانے کے حوالے سے شدید ذہنی الجھن کا شکار ہیں۔ اس موقع پر انہوں نے اپیل کی کہ 23 ستمبر کو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے حوالے ملک گیر احتجاج میں 'قرآن وسنہ موومنٹ‘ کے وابستگان اپنی شرکت کو یقینی بنائیں۔ 23 ستمبر کو لاہور پریس کلب پر میں نے ،اسی طرح کراچی پریس کلب میں میرے ساتھی مولانا اختر علی محمدی اور گوجرانوالہ میں حافظ احسان الٰہی سعید اور دیگر مقامات پر بہت سے ساتھیوں نے اپنی حاضری یقینی بنائی۔
لاہور پریس کلب کے باہر ہونے والے پروگرام میں میں نے اربابِ اقتدار سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی اپیل کی اور اس بات کو اجاگر کیا کہ پاکستان کی شہریت رکھنے والے بہت سے لوگ دنیا کے بہت سے مقامات پر پریشانیوں اور ابتلاؤں کا شکار ہیں لیکن ریاست پاکستان اس حوالے سے صحیح طور پر اپنی ذمہ داریوں کو ادا نہیں کر رہی۔ ریاست ماں کی مانند ہوتی ہے جسے اپنے ہر شہری کو اپنی اولاد کی نظر سے دیکھنا چاہیے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں اس حوالے سے حکومتی کارکردگی کبھی بھی تسلی بخش نہیں رہی۔ اِن احتجاجی پروگراموں کے توسط سے پاکستانی عوام حکمرانوں سے یہ مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہے کہ کیا پاکستان کے شہریوں کی سرپرستی کرنا اور اُن کی مشکلات میں اُن کی معاونت کرنا ریاست کی ذمہ داری نہیں۔ کلائیو سمتھ جو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے وکیل ہیں اس حوالے سے خاصی ذمہ داری کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے مقدمے کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر آگے بڑھانے کے ساتھ ساتھ میڈیا اور ذرائع ابلاغ کا بھرپور استعما ل کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے حوالے سے ہونے والے پروگراموں کو بھی کلائیو سمتھ نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے پوسٹ کیا اور دنیا بھر میں مظلوم انسانوں سے ہمدردری رکھنے والے افراد کو اس حوالے سے متوجہ کیا۔ اب ہماری قوم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس ساری صورتحال میں ڈاکٹر عافیہ کے مقدمے کو آگے بڑھائے اور امریکی حکومت اور دفتر خارجہ کو پاکستان قوم کے مطالبات سے آگاہ کرے۔ اگر اس حوالے سے حکمران اور عوام ایک پیج پر آ جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان کی بیٹی پاکستان میں واپس نہ آ سکے۔
گزشتہ کچھ عرصے سے ملک میں ایک اہم ایشو مہنگائی بھی ہے۔ اشیائے ضروریات کی قیمتوں میں مسلسل اضافے نے عوام کا جینا محال کر رکھا ہے۔ اس غربت اور مہنگائی کی بہت بڑی وجہ ماضی کی حکومتوں کی غلط پالیسیاں ہیں ۔ پاکستانی حکومتوں نے کبھی بھی معاشی استحکام کے لیے ایسی پالیسیوں کووضع نہیں کیا کہ جس سے پاکستان خود انحصاری کی منزل کی طرف گامزن ہو سکے بلکہ بالعموم ریاست کے معاملات کو چلانے کے لیے بیرونی قرضوں پر انحصار کیاجاتا ہے۔ پاکستان میں وسائل اور افرادی قوت کی کوئی کمی نہیں ۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور زرعی اجناس کی برآمدات کے ذریعے پاکستان کی معیشت کو تقویت دی جا سکتی ہے۔ اسی طرح پاکستان میں صنعت کاری کو فروغ دے کر بہت سی مصنوعات کو بنایا جا سکتا ہے اور درآمدات کی شرح کو کم سے کم کیا جا سکتا ہے ۔ صنعتی ترقی کے حوالے سے حکومتوں نے کسی مضبوط حکمت عملی کو وضع نہیں کیا ۔ پاکستان میں ٹیکس کا نظام صنعت کاری کی حوصلہ شکنی کرنے والا ہے۔ صنعت کار بالعموم پاکستان میں صنعت لگانے سے اس لیے کتراتے ہیں کہ جوں جوں وہ معاشی اعتبار سے مستحکم ہوتے ہیں توں توں اُن پر ٹیکس کی بھاری شرح کو لاگو کر کے کاروباری معاملات میں مختلف طرح کی پیچیدگیوں کو پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پاکستان کا خوشحال طبقہ اس صورتحال سے مایوس ہو کر بیرونِ ملک کا رُخ کرتا ہے اور اپنے سرمائے کو ان ممالک میں مختلف کاروباوں میں لگا کر اپنی ذاتی معیشت کو مستحکم کرتا اور اپنی اولادوں کے مستقبل کو محفوظ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
ملک میں صنعت کاری کی حوصلہ افزائی کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اگر ریاست اس حوالے سے مثبت حکمت عملی تیار کرے تو نہ صرف یہ کہ پاکستانی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری پر آمادہ و تیار کیا جا سکتا ہے بلکہ بیرونی سرمایہ کاروں کو بھی ملک میں لایا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں ٹیکس کے نظام پر نظر ثانی کرنے اور سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی کے لیے مضبوط حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ وگرنہ آنے والے سالوں میں پاکستان سے ذہین افراد اور بڑے سرمایہ داروں کے بیرونِ ملک جانے کے سلسلے کو روکنے کی کوئی صورت کامیاب ہوتی نظر نہیں آ رہی۔ اگر یہ سلسلہ یونہی برقرار رہا تو پاکستان ذہین اور پیشہ ور افراد اور بڑے سرمایہ داروں سے محروم ہوتا چلا جائے گا۔
مہنگائی پر قابو پانے کے لیے سودی نظامِ معیشت پر کاری ضرب لگانا بھی ضروری ہے۔ پاکستان کی روایتی سیاسی جماعتیں اس حوالے سے مداہنت اور خود غرضی کا شکار ہیں ۔ایک عرصے سے پاکستان کی بعض جماعتیں اور ادارے اس حوالے سے مسلسل آواز اُٹھا رہے ہیں۔ جماعت اسلامی بھی اس حوالے سے عرصے سے ایک منظم تحریک چلا رہی ہے کہ غربت اور پسماندگی کے خاتمے کے لیے اسلامی نظام معیشت کو ملک میں لاگو کیا جائے۔ جماعت اسلامی نے اس حوالے سے اپنی بساط کی حد تک مختلف مقامات پر بڑے پروگراموں کا انعقاد کیا اور رائے عامہ کو ہموار کرنے کی کوشش کی۔ حالیہ ایام میں بھی اس حوالے سے گورنر ہاؤس کے باہر تین روزہ دھرنے کا انعقاد کیا گیا۔ جمعرات کو شروع ہونے والا یہ دھرنا ہفتے کی رات تک جاری رہا۔ ہفتے کی شام مجھے بھی اس دھرنے میں شرکت کا موقع ملا۔ اس موقع پر میں نے عوام کی کثیر تعداد کے سامنے اپنی رائے کا اظہار کیا جس کا خلاصہ درج ذیل ہے:
پاکستان ایک اسلامی فلاحی ریاست ہے اور ہم نے اگر یہ ملک حاصل کیا تو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے چنگل میں رہنے کے لیے نہیں بلکہ ان کے شکنجے سے نکلنے کے لیے حاصل کیا تھا ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہی انسانوں کو رزق فراہم فرمانے والے ہیں۔ ہم نے اللہ تبارک وتعالیٰ سے اس بات کا عہد کیا تھا کہ آزاد مملکت میں اس کے احکامات کی تنفیذ کی جائے گی لیکن بدقسمی سے بوجوہ ہم نے وعدہ خلافی اور عہد شکنی کی۔ جس کی پاداش میں آج ہمارے ملک کی معیشت بدحالی اور مسلسل گراوٹ کا شکار ہے۔ اس کیفیت سے باہر نکلنے کے لیے ملک میں اسلامی نظام معیشت کا نفاذ اور کتاب وسنت کی حقیقی عملداری انتہائی ضروری ہے۔ اس ملک میں اسلام کے نفاذ کے لیے دستوری جدوجہد کرنے والی تمام مذہبی اور دینی تحریکوں کو ایک پیج پر آکر ان جماعتوں کے مقابلے میں اپنا منشور عوام کے سامنے رکھنا چاہیے جنہوں نے معیشت کے معاملات میں کبھی بھی دین کو ترجیح نہیں دی۔ اگر اللہ کی زمین پر اللہ کے قوانین کو نافذ کیا جائے تو اللہ نے اس بات کی یقین دہانی کرائی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ معیشت کو مستحکم فرما دیں گے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ المائدہ کی آیت نمبر 66میں ارشاد فرماتے ہیں : ''اور اگر یہ لوگ تورات، انجیل اور ان کی جانب جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل فرمایا گیا ہے ان کے پورے پابندرہتے تو یہ لوگ اپنے اوپر اور نیچے سے روزیاں پاتے اور کھاتے، ایک جماعت تو ان میں درمیانہ روش کی ہے باقی ان میں سے بہت سے لوگوں کے برے اعمال ہیں‘‘۔
عوام نے اس موقع پر بھرپور ہم آہنگی کا مظاہرہ کیا اور معاشی دباؤ اور بحران سے نکلنے کے لیے اسلامی نظام کے مطالبے کی بھرپور انداز میں تائید کی۔ یہ دو اہم تقریبات اپنے جلو میں بہت سی مثبت یادوں کو لیے اختتام پذیر ہوئیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کا بندوبست فرمائے اور ملکی معیشت کو مضبوط کر دے، آمین !

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں