کم از کم تین ایسے بین الاقوامی تنازعات ہیں جن میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ظلم اور دہشت گردی کا نشانہ بنی ہوئی ہے۔ کشمیری کئی عشروں سے بھارتی استبداد کا نشانہ بنے ہوئے ہیں اور بہت زیادہ قربانیاں دینے کے باوجود تاحال انہیں اُن کا آئینی، قانونی، جمہوری اور مذہبی حق نہیں دیا جا رہا۔ اہلِ کشمیر کو اس بات کا مکمل حق حاصل ہے کہ وہ اپنے سیاسی مستقبل کا آزادانہ فیصلہ کریں۔ لیکن اس حوالے سے اُن کی رائے واضح ہونے کے باوجود اُن کو مسلسل دبایا جا رہا ہے۔ اسی طرح میانمار (برما) کے مسلمان بھی ایک عرصے سے انتہاپسند اور نفرتوں کے اسیر‘ بدھ مذہب کے شدت پسند پیروکاروں کے مظالم کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ وہاں پر مسلمان بوڑھوں، نوجوانوں اور عورتوں کو مسلسل اذیتوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ستم بالائے ستم یہ کہ متعدد مساجد کو بھی نذرِ آتش کیا جا چکا ہے اور مسلم بچوں کو ذبح کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جا رہا۔ اسی طرح فلسطین کے مسلمان بھی ایک عرصے سے یہود کی چیرہ دستیوں کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ یہود نے کئی عشروں کے دوران ایک منظم سارش کے تحت دنیا بھر کے علاقوں سے نقل مکانی کرکے اسرائیل میں اپنی سیاسی اور عددی قوت کو مرتکز کیا اور وہاں کے بسنے والے باشندوں کی اکثریت کو حقِ حکمرانی سے محروم کیا۔ مسلمانوں کے سیاسی اور عسکری غلبے کو برقرار رکھنے کے لیے 1967ء میں کئی عرب ممالک نے اسرائیل پر قابض یہودیوں کے ساتھ جنگ کی ۔ اس جنگ میں مسلمانوں کو ایمان، تنظیم ، اتحاد اور داخلی کمزوریوں کی وجہ سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ سقوطِ بیت المقدس کا سانحہ رونما ہونے کے بعد سے لے کر اب تک یہودی ارضِ فلسطین پر مسلسل مظالم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں۔
اہلِ فلسطین بے سرو سامانی کے عالم میں بھی یہود کی جارحیت کا مقابلہ کرنے میں مصروف و مشغول ہیں۔ لیکن انہیں صحیح طور پر اس انداز میں مسلمانوں کی اخلاقی، سیاسی، سفارتی اور تنظیمی مدد حاصل نہیں جس انداز میں اہلِ اسلام کو اُن کی مدد کرنی چاہیے۔ اگرچہ اسرائیلی یہودی اپنی تنظیم، وسائل اور حکمت عملی کے اعتبار سے بہت زیادہ مضبوط ہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلمانوں کے پاس مجموعی حیثیت سے وسائل، تنظیم، افرادی اور عسکری قوت یہود سے کہیں زیادہ ہے؛ تاہم مسلمانوں کی اکثریت اس مسئلے کو اُمت کے بجائے قومیت کے تناظر میں دیکھتی ہے جس وجہ سے تاحال یہودی قابضین سے اس علاقے کو نہیں چھڑایا جا سکا۔ یہود کے مسلمانوں کے خلاف جارحانہ رویے اور طرزِ عمل کی درحقیقت ایک لمبی تاریخ ہے۔ یہود کی کج روی اور سرکشی سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے کلام میں مسلمانوں کو بھرپور طریقے سے آگاہ کیا۔
نبی کریمﷺ جس وقت ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لائے تو وہاں یہودی قبیلے درحقیقت نبی آخر الزماں کی آمد کے منتظر تھے لیکن جب اُنہوں نے نبی کریمﷺ کے حوالے سے اس بات کو جانا کہ آپﷺ کا تعلق آلِ اسحق کے بجائے آلِ اسماعیل سے ہے تو اُنہوں نے نبوت کی علامات اور نشانیاں دیکھنے کے باوجود دینِ اسلام کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ نبی کریمﷺ اور اہلِ اسلام کی عداوت میں ہر حد عبور کرنے والے اِن یہودیوں کے حوالے سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے کلام میں بہت سی باتوں کو واضح کیا اور نبی کریمﷺ پر اس وحی کا نزول فرمایا کہ یہود کو جبرائیل علیہ السلام کے ذریعے نازل ہونے والی وحی کی وجہ سے ان سے دشمنی ہے جبکہ جبرائیل علیہ السلام جو کچھ بھی لے کر آتے ہیں وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم پر ہی لے کر آتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس حقیقت کو سورۃ البقرہ کی آیات 97 تا 98 میں کچھ یوں بیان فرمایا: ''کہہ دیجئے جو دشمن ہے جبریل کا (تو یہ اُس کی سرکشی ہے) پس بے شک اس نے (تو) اُسے اتارا ہے آپ کے دل پر اللہ کے حکم سے‘ (یہ قرآن) تصدیق کرنے والا ہے ان کی جو اس سے پہلے (کتابیں گزری) ہیں اور ہدایت ہے (اس میں) اور خوشخبری ہے مومنوں کے لیے۔ جو دشمن ہے اللہ کا اور اس کے فرشتوں کا اور اس کے رسولوں اور جبریل اور میکائیل کا تو بے شک اللہ (بھی) دشمن ہے کافروں کا‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی کریمﷺ پر اس حقیقت کا بھی نزول فرمایا کہ یہود نے اپنے نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھی بڑی اذیتیں دیں اور اُن کے فرامین کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے رہے۔ اِنہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی عدم موجودگی میں بچھڑے کو اپنا معبود بنا لیا۔ جب موسیٰ علیہ السلام کوہِ طور سے واپس پلٹے تو اس بات پر انتہائی ناراض ہوئے ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس حقیقت کو سورۃ الاعراف کی آیت نمبر 152میں یوں بیان فرماتے ہیں: ''بے شک جن لوگوں نے (معبود) بنایا بچھڑے کو‘ عنقریب پہنچے گا اُنہیں غضب اُن کے رب کی طرف سے اور ذلت دنیوی زندگی میں اور اسی طرح ہم بدلہ دیتے ہیں بہتان باندھنے والوں کو‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس حقیقت کو بھی بیان کیا کہ یہودی حضرت عزیز علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا قرار دیا کرتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ سورۃ التوبہ کی آیت نمبر 30 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور کہا یہودیوں نے ''عزیر‘‘ اللہ کا بیٹا ہے اور کہا نصاریٰ نے ''مسیح‘‘ اللہ کا بیٹا ہے، یہ بات ہے اُن کے مونہوں کی، وہ مشابہت کرتے ہیں (ان لوگوں کی) بات کی جنہوں نے کفر کیا (ان) سے پہلے، غارت کرے اُنہیں اللہ کہاں وہ بہکائے جا رہے ہیں‘‘۔
حضرت عزیر علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا کہنے کے ساتھ ساتھ نسلی تفاخر کا شکار یہود ی اپنے آپ کو اللہ تبارک وتعالیٰ کا بیٹا اور محبوب بھی قرار دیا کرتے تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس حقیقت کا ذکر سورۃ المائدہ کی آیت 18 میں کچھ اس انداز میں فرمایا ہے: ''ا ور کہا یہود و نصاریٰ نے‘ ہم اللہ کے بیٹے ہیں اور اس کے پیارے ہیں (ان سے) کہیں تو (پھر) کیوں وہ عذاب دیتا ہے تمہیں تمہارے گناہوں کے بدلے، بلکہ تم انسان ہو ان میں سے جو اس نے پیدا کیے ہیں‘‘۔ یہود نے جہاں اللہ تبارک وتعالیٰ کی وحدانیت کے حوالے سے منفی تصورات پیش کیے وہیں اللہ تبارک وتعالیٰ کے خزانوں کی وسعت اور اس کے کائنات کے پالنہار ہونے پر بھی طعن کیا اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے خزانوں کی وسعت کے باوجود اللہ تبارک وتعالیٰ کو (معاذ اللہ) تنگ دست قرار دیتے رہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اُن کی ہرزہ سرائی کو سورۃ المائدہ کی آیت 64 میں کچھ یوں بیان فرمایا ہے: ''اور یہودیوں نے کہا: اللہ کا ہاتھ تنگ ہے (حالانکہ) تنگ تو ان کے (اپنے) ہاتھ ہیں اور لعنت کی گئی اُن پر اس وجہ سے جو انہوں نے کہا، یقینا اُس کے دونوں ہاتھ کشادہ ہیں وہ خرچ کرتا ہے‘ جس طرح وہ چاہتا ہے‘‘۔
یہود کی سرکشی کے حوالے سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ البقرہ میں اس بات کو بھی واضح کیا کہ یہ اللہ کی آیات کو جھٹلاتے اور حق بات کہنے والوں کو شہید کیا کرتے تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ البقرہ کی آیت 61 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور مسلط کر دی گئی ان پر ذلت اور محتاجی اور وہ لوٹے اللہ کاغضب لے کر، وہ اس وجہ سے کہ وہ انکار کرتے تھے اللہ کی آیات کا اور نبیوں کو قتل کرتے تھے ناحق، اس وجہ سے جو اُنہوں نے نافرمانی کی اور وہ تھے حد سے تجاوز کرتے‘‘۔
یہود پر اللہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دور میں بہت سی نعمتوں کا نزول فرمایا لیکن اس کے باوجود وہ سرکشیاں کرتے رہے اور ناشکری کے راستے پر چلتے رہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اُن پر بادلوں کو سایہ فگن کیا اور آسمان سے اُن کی خوراک کے لیے من و سلویٰ کا نزول فرمایا۔ لیکن وہ من و سلویٰ جیسی نعمت پر بھی راضی نہ ہوئے اور زمین کی ترکاریوں کا مطالبہ کرنے لگے۔ یہود کی سرکشی اور کج روی کے حوالے سے تاریخ کا وہ دور انتہائی اہم ہے جب انہوں نے نبی کریمﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اپنی شقاوت، بدبختی اور عداوت کا نشانہ بنایا۔ اللہ تعالیٰ نے اُن کی سازشوں کو کلی طور پر ناکام کر دیا ۔ خندق کی جنگ میں یہود نے ایک بڑے لشکر جرار کے مقابلے میں مسلمانوں سے غداری کی اور معاہدے کے باوجود اہلِ اسلام کو جنگ میں تنہا چھوڑ کر فرار ہو گئے۔ نتیجتاً اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم پر اُن کی بیخ کنی کا فیصلہ کیا گیا اور ان کے ساتھ باقاعدہ طور پر جنگ تک نوبت آ پہنچی۔ خیبر میں یہود کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا اور اُن کا بڑا سردار مرحب حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ سے قتل ہوا اور اہلِ اسلام کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہود پر غلبہ عطا فرما دیا۔
قرونِ اولیٰ کے دور سے لے کر آج تک یہود مسلمانوں کے بدترین دشمن رہے اور سورۃ المائدہ کی آیت نمبر 82 میں اس حقیقت کو واضح کر دیا گیا: ''البتہ ضرور پائیں گے آپ (دوسرے) لوگوں سے زیادہ سخت دشمنی میں ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائے ہیں‘ یہودیوں کو اور اُن لوگوں کو جنہوں نے شرک کیا‘‘۔
یہود اہلِ اسلام کو سیاسی اور معاشی طور پر نقصان پہنچانے کے لیے ہمیشہ کمر بستہ رہے، بالخصوص مظلوم فلسطینی مسلسل اُن کی سازشوں کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ ارضِ فلسطین میں بسنے والے مظلوم مسلمان عرصہ دراز سے یہود کے پنجۂ ستم سے نکلنے کے لیے اپنی استطاعت کے مطابق جستجو کر رہے ہیں لیکن تاحال اُن کو اس سلسلے میں واضح کامیابی ملتی نظر نہیں آ رہی جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ابھی تک اُمت مسلمہ اپنی ترجیحات کا درست تعین نہیں کر سکی۔ مسلم حکمرانوں کو اس حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی ضرورت ہے اور سیاسی، سفارتی، اخلاقی اور مادی اعتبار سے اہلِ فلسطین کی بھرپور مدد کرنی چاہیے تاکہ اُن کی آئینی حیثیت کو بحال کرایا جا سکے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو اہلِ فلسطین کی بھرپور طریقے سے معاونت کرنے کی توفیق دے، ان کی تکالیف کو دور فرمائے اور القدس کے علاقے کو پنجۂ یہود سے آزاد فرما دے، آمین!