ملک کے طول و عرض میں دینی جماعتیں تسلسل سے تبلیغی و دینی پروگراموں کا انعقاد کرتی رہتی ہیں جن کا مقصد لوگوں کواسلامی تعلیمات سے آگاہ کرنا اور اُن کی ذہن سازی کرنا ہوتا ہے۔ یہ اجتماعات ہر موسم میں جاری و ساری رہتے ہیں۔ مجھے بھی برسہا برس سے اس طرح کی کانفرنسوں اور اجتماعات میں شرکت کا موقع ملتا رہا ہے۔ مختلف علاقوں کے دوست احباب اپنے پروگراموں میں مدعو کرتے رہتے ہیں اور اِن عوامی اجتماعات میں شرکت کر کے کتاب و سنت کی روشنی میں اپنی گزارشات کو بیان کرنے کا سلسلہ عرصہ دراز سے جاری ہے۔ کئی مرتبہ انسان زندگی کے معاملات میں اس قدر مگن ہوتا ہے کہ دوست احباب کے اصرار کے باوجود ان کی دعوت کو قبول کرنا مشکل ہو جاتا ہے؛ تاہم دوستوں کا مسلسل اصرار کئی مرتبہ انسان کے انکار پر غالب آ جاتا ہے اور انسان اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضا کے حصول اور دین کی محبت کے جذبے کے ساتھ دوستوں کی دعوت پر دور دراز مقامات پر پہنچ کر اپنی گزارشات کو ان کے سامنے رکھتا ہے۔
قریب ایک مہینہ قبل قرآن و سنہ موومنٹ تحصیل کوٹ رادھا کشن کے چیئرمین مہر جمیل الرحمن نے بھوئے آصل کے قریب سیرت امام الانبیاءﷺ کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی۔ نجی اور تنظیمی مصروفیات کے دباؤ کی وجہ سے ابتدائی طور پر میں اس کانفرنس میں شرکت کے حوالے سے پس و پیش سے کام لیتا رہا لیکن کانفرنس کے دلکش عنوان اور دوستوں کے اصرار کی وجہ سے میں نے اس کانفرنس میں جانے کی ہامی بھر لی۔ 11 نومبر کو ہونے والی اس کانفرنس میں شرکت کے لیے میں عشا کی نماز کے بعد لاہور سے روانہ ہوا۔ کوٹ رادھا کشن اور بھوئے آصل کے دوست احباب نے بڑی تعداد میں استقبال کیا۔ دوستوں کے ہمراہ جب جلسہ گاہ میں پہنچا تو وہاں سامعین کی بڑی تعداد موجود تھی۔ اس موقع پر سیرت امام الانبیاءﷺ کے عنوان کی مناسبت سے میں نے اپنی جن گزارشات کو سامعین کے سامنے رکھا‘ ان کو کچھ کمی بیشی اور ترامیم کے ساتھ اپنے قارئین کے سامنے بھی رکھنا چاہتا ہوں۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کائنات میں جو شرف اور مقام انسانوں کو عطا کیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ التین کی آیت نمبر 4 میں ارشاد فرماتے ہیں ''یقینا ہم نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا‘‘۔ انسانوں میں جو رفعت اور شان اللہ تبارک وتعالیٰ نے انبیاء کرام علیہم السلام کو عطا کی وہ کسی دوسرے انسان کو حاصل نہیں ہو سکتی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے انبیاء کرام علیہم السلام کو یہ امتیازی خصوصیت عطا کی کہ وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے ساتھ ہم کلام ہوئے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ انبیاء کرام علیہم السلام کی اس عظمت اور بلندی کے حوالے سے سورۃ الشوریٰ کی آیت نمبر 51 میں ارشاد فرماتے ہیں ''ناممکن ہے کہ کسی بندہ سے اللہ کلام کرے مگر وحی کے ذریعے یا پردے کے پیچھے سے یا کسی فرشتہ کو بھیجے اور وہ اللہ کے حکم سے جو وہ چاہے وحی کرے‘ بیشک وہ برتر حکمت والا ہے‘‘۔ انبیاء کرام علیہم السلام کی جماعت میں سے رسل اللہ کا مقام انتہائی بلند ہے اس لیے کہ جہاں اللہ تبارک وتعالیٰ ان سے ہم کلام ہوئے وہیں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کو شریعت بھی عطا فرمائی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کے تمام رسل برابر نہیں بلکہ بعض کا مقام دوسروں کے مقام سے بلند و بالا ہے۔ اس حقیقت کا ذکر اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ البقرہ کی آیت 253 میں کچھ یوں کیا: ''یہ رسول ہیں جن میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے، ان میں سے بعض وہ ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے بات چیت کی ہے اور بعض کے درجات بلند کیے ہیں‘‘۔ اس آیت مبارکہ سے اس بات کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں کہ رسل اللہ میں درجات اور مقام کے لحاظ سے کئی رسول دوسروں کے مقابلے میں افضل ہیں۔ ان تمام رسل اللہ میں سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے اولو العزم رسولوں کو جو فوقیت عطا فرمائی وہ باقی رسولوں سے جداگانہ حیثیت کی حامل ہے۔ حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ علیہم السلام اور نبی کریمﷺ کا مقام جمیع رسل اللہ سے بلند ہے؛ جبکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو جو شان اور مقام عطا کیا ہے وہ جملہ انبیاء کرام علیہم السلام سے بلند و بالا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپﷺ کو بیت اللہ یعنی مکہ کے علاقے میں مبعوث فرمایا لیکن آپﷺ کو معراج کی رات صحن بیت المقدس میں پہنچا کر اس بات کو ثابت کیاکہ آپﷺ ایک قبلے کے مقتدا نہیں بلکہ نبی القبلتین ہیں۔ شب اسراء و معراج ہی کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے بیت المقدس میں انبیاء کرام علیہم السلام کو آپﷺ کی امامت میں جمع فرما کر اس حقیقت کو واضح فرما دیا کہ آپﷺ فقط آنے والوں کے امام بن کے نہیں آئے بلکہ جانے والوں کے بھی مقتدا ہیں۔ نبی کریمﷺ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپﷺ کو عالمگیراور آفاقی نبوت عطا فرمائی۔ آپﷺ سے پیشتر جتنے بھی انبیا آئے، وہ اپنے اپنے علاقے کے مقتدا اور پیشوا بن کے آئے لیکن جب نبی کریمﷺ کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے رسالت کا منصب عطا کیا تو اللہ نے سورۂ سبا کی آیت نمبر 28 میں اس امر کا اعلان فرما دیا کہ ''ہم نے آپ کو تمام لوگوں کے لیے خوشخبریاں سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے، ہاں مگر (یہ صحیح ہے کہ) لوگوں کی اکثریت بے علم ہے‘‘۔
اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی کریمﷺ پرنبوت و رسالت کو تمام فرما کر سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر 40 میں اس امر کا اعلان فرما دیا ''(لوگو!) محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں لیکن آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور تمام نبیوں کے ختم کرنے والے‘‘۔ اس آیت مبارکہ میں اس حقیقت کو واضح کر دیا گیا کہ نبی کریمﷺ کے بعد جو بھی دعویِٰ نبوت کرے گا، وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہو گا۔ چنانچہ آپﷺ کے بعد آنے والا ہر مدعیِ نبوت کذاب اور ملعون ٹھہرا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہر اُس شخص کو‘ جس نے بھی دعویٰ نبوت کیا‘ ناکام و نامراد بنا دیا۔ نبی کریمﷺ کے بعد بہت سے جھوٹے مدعیانِ نبوت سامنے آئے جن میں مسیلمہ کذاب، اسود عنسی، سجاح، علی محمد باب، حسین علی مازندانی، غلام احمد قادیانی، یوسف کذاب اور احمد عیسیٰ جیسے بدبخت لوگ شامل ہیں، یہ تمام لوگ ناکام و نامراد ٹھہرے‘ اللہ تبارک و تعالیٰ کی لعنتوں کے مستحق بنے اور مخلوق نے بھی ان کو مسترد کر دیا۔ نبی کریمﷺ کے شرف میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپﷺ کے اُسوہ کو اُسوہ کامل بنا دیا اور آپﷺ کو رہتی دنیا تک کے انسانوں کیلئے ہر شعبہ زندگی میں امام اور مقتدا بنا دیا۔ اپنے تو اپنے‘ بیگانے بھی آپﷺ کی عظمت کا اعتراف کیے بغیر نہ رہ سکے۔ نبی کریمﷺ کی ذات کے حوالے سے اہلِ اسلام پر مختلف طرح کی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:
(1) آپﷺ کی عظمت کا اعتراف: ہر مسلمان کے دل میں آپﷺ کی عظمت کا گہرا احساس ہونا چاہیے اور ہمیں اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ جمیع انسانیت میں کوئی شخص بھی نبی کریمﷺ کے ہم پلہ نہیں ہو سکتا۔
(2) اتباعِ رسولﷺ: جس طرح نبی کریمﷺ کی ذات اعلیٰ ہے اسی طرح آپﷺ کی بات کو بھی ہمیں ہر بات سے اعلیٰ اور آپﷺ کے طریقے کو بھی ہر طریقے سے افضل سمجھنا چاہیے۔ آپﷺ کی غیر مشروط اتباع کرنی چاہیے۔ جو شخص آپﷺ کی اتباع کے راستے پہ چل نکلتا ہے اللہ تبارک وتعالیٰ اُس کے گناہوں کو معاف کر دیتے ہیں اور اُس کو اپنی محبتوں کا مرکز بنا لیتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورۂ آلِ عمران کی آیت نمبر 31 میں اس امر کا اعلان فرمایا کہ ''کہہ دیجئے! اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اطاعت کرو، خود اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرما دے گا‘‘۔
(3) نبی کریمﷺ کی محبت: نبی کریمﷺ کی محبت کو بھی ہر محبت سے بالاتر ہونا چاہیے اور آپﷺ کے مقابلے میں کسی دوسرے شخص کی محبت کو اپنے دل میں جگہ نہیں دینی چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس حقیقت کو سورۃ التوبہ کی آیت نمبر 24 میں کچھ اس انداز سے بیان فرمایا ''آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہارے باپ، تمہارے بیٹے، تمہارے بھائی، تمہاری بیویاں، تمہارے کنبے قبیلے، تمہارے کمائے ہوئے مال اور وہ تجارت جس کی کمی سے تم ڈرتے ہو اور وہ حویلیاں جنہیں تم پسند کرتے ہو، اگر یہ تمہیں اللہ اور اس کے رسول سے اور اس کی راہ کے جہاد سے بھی زیادہ عزیز ہیں تو تم انتظار کرو کہ اللہ تعالیٰ اپنا عذاب لے آئے، اور اللہ تعالیٰ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا‘‘۔ اسی طرح احادیث مبارکہ کے مطابق: کوئی بھی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے والدین، اپنی اولاد اور جمیع انسانیت سے بڑھ کر آپﷺ سے محبت و پیار نہ کرے۔
(4) نظامِ مصطفی کے قیام کی جدوجہد: نبی کریمﷺ اپنے ساتھ ایک نظام کو لے کر آئے جس نے تمام شعبہ ہائے زندگی میں انسانیت کی کامل رہنمائی کی۔ آج مسلمانوں نے آپﷺ کے عطا کردہ نظام کو عقائد اور عبادات تک محدود کر رکھا ہے۔ تجارت‘ سیاست اور دیگر امور میں اپنی من مانی کی جا رہی ہے جبکہ مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ زندگی کے تمام شعبہ جات میں آپﷺ کے نظام کو من و عن تسلیم کریں اور صرف تسلیم کرنے پر ہی اکتفا نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس کے غلبے کے لیے اپنی توانائیوں اور وسائل کو بھی بھرپور طریقے سے استعمال کرنا چاہیے۔
جب تک ہم مذکورہ بالا تمام کام نہیں کرتے‘ ہماری نبی کریمﷺ کے ساتھ نسبت کے دعوے میں حقیقت اور پختگی نہیں ہے۔ ہم سب کو حضرت امام الانبیاءﷺ کی سیرت و کردار کو سمجھتے ہوئے آپﷺ کی ذات اقدس کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ سامعین نے بڑی توجہ کے ساتھ خطبا کی باتوں کو سنا اور پُرجوش انداز میں اُن کی تائید کی اور یوں یہ کانفرنس اپنے جلو میں بہت سی خوبصورت یادوں کو لیے اختتام پذیر ہو گئی۔