"AIZ" (space) message & send to 7575

حسد

ہمارے معاشرے میں کئی مقامات پرلوگوں کے درمیان اختلافات دیکھنے کو ملتے ہیں، جب تجزیہ کیا جائے تو ان اختلافات کی بنیاد کوئی معقول نظر نہیں آتی۔ لوگ کئی مرتبہ معمولی سی بات پر ایک دوسرے کی توہین پر آمادہ ہو جاتے‘ ایک دوسرے کو گالیاں دیتے‘ ایک دوسرے کے بارے میں بہتان طرازی والا رویہ اپناتے ہیں۔ جب ان معاملات کی تہہ میں پہنچنے کی کوشش کی جائے تو دیگر محرکات کے علاوہ ایک بڑا محرک حسد کی شکل میں نظر آتا ہے۔ جب انسان کے دل میں کسی کے بارے میں حسد کی کیفیت پیدا ہو جائے تووہ بغیر کسی سبب کے محسود کو نقصان پہنچانے کی کوشش شروع کر دیتا ہے۔ حسد کی وجہ سے کئی مرتبہ انسان راہِ ہدایت سے بھی انحراف شروع کر دیتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں حضرت آدم علیہ السلام اور ابلیس کے واقعہ کو بڑی شرح و بسط سے بیان کیا ہے۔ آدم علیہ السلام کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرشتوں اور جنات کے بعدپیدا کیا لیکن صفتِ علم سے متصف فرمایا۔ جب اشیا کے ناموں کی بابت فرشتوں سے سوال کیا گیا تو فرشتوں نے لاعلمی کا اظہار کیا جبکہ آدم علیہ السلام کو اللہ تبارک وتعالیٰ ان اشیا کے ناموں سے پہلے ہی آگاہ کرچکے تھے؛ چنانچہ آدم علیہ السلام نے ان اشیا کے نام فوراً سے پیشتر بتلا دیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرشتوں کو آدم علیہ السلام کے سامنے جھکنے کا حکم دیا لیکن ابلیس اس بات پر آمادہ نہ ہوا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ابلیس کے ساتھ مکالمے کو قرآنِ مجید میں مختلف مقامات پر بیان کیا ہے جن میں سے ایک اہم مقام سورۃ الاعراف ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃالاعراف کی آیات 11 اور 12میں بیان فرماتے ہیں ''اور ہم نے تم کو پیدا کیا، پھر ہم نے تمہاری صورت بنائی، پھر ہم نے ہی فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو، پس سب نے سجدہ کیا بجز ابلیس کے، وہ سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :تُو جو سجدہ نہیں کرتا تو تجھ کو اس سے کون امرمانع ہے جبکہ میں تجھ کو حکم دے چکا، کہنے لگا: میں اس سے بہتر ہوں، آپ نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو خاک سے پیدا کیا‘‘۔ ابلیس کی اس نافرمانی اور استکبار کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اُس کے دل میں حضرت آدم علیہ السلام کے بارے میں حسد کی کیفیت پیدا ہوچکی تھی اور وہ کسی بھی طور پر آدم علیہ السلام کی فضیلت کو تسلیم کرنے پر آمادہ و تیار نہ تھا۔ اس حسد کے نتیجے میں پیدا ہونے والے تکبر نے اس کی عبادات اور نیکیوں کو اس قدر نقصان پہنچایا کہ وہ ہمیشہ کیلئے راندۂ درگا بن گیا۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں کا واقعہ بھی بیان کیا۔ ایک بیٹے کی قربانی کو قبول کرلیا گیا جبکہ دوسرے بیٹے کی قربانی قبول نہ ہوئی۔ جس کی قربانی قبول نہ ہوئی تھی‘ اُس نے دوسرے کو‘ جس کی قربانی قبول ہوئی تھی‘ قتل کرنے کا ارادہ کیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس واقعہ کو سورۃ المائدہ کی آیات 27 تا 30 میں کچھ یوں بیان کرتے ہیں: ''آدم کے دونوں بیٹوں کا کھرا کھرا حال بھی انہیں سنا دو، ان دونوں نے نذرانہ پیش کیا، ان میں سے ایک کی نذر تو قبول ہوگئی اور دوسرے کی مقبول نہ ہوئی تو وہ کہنے لگا کہ میں تجھے مار ہی ڈالوں گا، اس نے کہا: اللہ تقویٰ والوں کا ہی عمل قبول کرتا ہے۔ گو تُو میرے قتل کیلئے دست درازی کر لیکن میں تیرے قتل کی طرف ہرگز اپنے ہاتھ نہ بڑھاؤں گا، میں تو پروردگارِ عالم سے خوف کھاتا ہوں۔ میں تو چاہتا ہوں کہ تُو میرا گناہ اور اپنے سر پر رکھ لے اور دوزخیوں میں شامل ہو جائے، ظالموں کا یہی بدلہ ہے۔ پس اسے اس کے نفس نے بھائی کے قتل پر آمادہ کیا اور اس نے اسے قتل کر ڈالا جس سے وہ نقصان پانے والوں میں سے ہو گیا‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں برادرانِ یوسف کے واقعے کو بھی ذکر کیا ہے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کو حضرت یوسف علیہ السلام اور بنیامین سے زیادہ محبت تھی جس کی وجہ سے حضرت یوسف علیہ السلام کے سوتیلے بھائی آپ کے بارے میں حسد کا شکار ہو گئے۔ انہوں نے حضرت یوسف اور حضرت یعقوب علیہما السلام کے درمیان جدائی ڈالنے کی کوشش کی۔ بھائیوں کے درمیان ایک رائے یہ بھی سامنے آئی کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو شہید کردیا جائے لیکن اس رائے کو قبول نہ کیا گیا اور یوسف علیہ السلام کو حضرت یعقوب علیہ السلام سے جدا کر دیا گیا۔ حسد کی وجہ ہی سے یوسف علیہ السلام کو انتقام کا نشانہ بنایا گیا اور انہیں اپنے خاندان سے لمبی جدائی کا سامنا کرنا پڑا۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں اس بات کا ذکر کیا کہ درحقیقت حسد کرنے والے لوگ اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل اور اُس کی عطا اور فیصلوں کے خلاف سرکشی اور بغض کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس حقیقت کو سورۃ النساء کی آیت نمبر 54 میں بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ''یا یہ لوگوں پر حسد کرتے ہیں اس پر جو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے انہیں دیا ہے؛ پس ہم نے آلِ ابراہیم کو کتاب اور حکمت بھی دی ہے اور بڑی سلطنت بھی عطا فرمائی ہے‘‘۔
کفارِ عرب میں سے کئی لوگ نبی کریمﷺ سے صرف حسد کی وجہ سے عداوت رکھتے تھے اور آپﷺ کی دعوت کو قبول کرنے پر آمادہ و تیار نہیں تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اُن کے اس قول کو سورۃ الزخرف کی آیت نمبر 31 میں کچھ یوں بیان کیا: ''اور کہنے لگے: یہ قرآن ان دونوں بستیوں (مکہ اور طائف) میں سے کسی بڑے آدمی پر کیوں نہ نازل کیا گیا؟‘‘۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں یہود کا بھی ذکر کیا جو نبی کریمﷺ پر نازل ہونے والی وحی کو اس طرح پہچانتے تھے کہ جس طرح لوگ اپنے سگے بیٹوں کو پہچانتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ حق کو قبول کرنے پر آمادہ نہ ہوئے۔ اس کی ایک بڑی وجہ حسد ہی تھی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس حقیقت کو سورۃ البقرہ کی آیت نمبر146 میں کچھ یوں بیان فرماتے ہیں: ''جنہیں ہم نے کتاب دی ہے وہ تو اسے ایسا پہچانتے ہیں جیسے کوئی اپنے بچوں کو پہچانے، ان کی ایک جماعت حق کو پہچان کر پھر (اس کو) چھپاتی ہے‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو جس وقت آخری نبی کے طور پر منتخب کیاتو یہود نے نبی کریمﷺ کی رسالت کو قبول کرنے کے بجائے حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ عداوت کا اظہار کرنا شروع کردیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اُن کی عداوت اور حسد کی مذمت کرتے ہوئے سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 98 میں ارشاد فرمایا: ''جو شخص خدا کا اور اس کے فرشتوں کا اور اس کے پیغمبروں کا اور جبرائیل اور میکائیل کا دشمن ہو تو ایسے کافروں کا دشمن (خود) خدا ہے‘‘۔ قرآنِ مجید کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ معرفتِ حق کے باوجودحق کو قبول نہ کرنے کی بڑی وجہ حسد رہی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ابوجہل کی اس بات کو بھی قرآنِ مجید کاحصہ بنایا کہ جس وقت اس نے حق بات واضح ہونے کے باوجوددعوتِ قرآن کو قبول کرنے سے انکار کردیا اور اللہ تعالیٰ کا عذاب طلب کیا۔ اس حقیقت کا ذکراللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ الانفال کی آیت نمبر32میں کچھ یوں کیا: ''اور جبکہ ان لوگوں نے کہا کہ اے اللہ! اگر یہ قرآن آپ کی طرف سے برحق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا‘ یا ہم پر کوئی دردناک عذاب واقع کر دے‘‘۔
کتب احادیث سے بھی یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اہلِ اسلام کو ایک دوسرے کیساتھ حسد نہیں کرنا چاہیے۔ اس حوالے سے چند اہم احادیث درج ذیل ہیں:
صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ''بدگمانی سے بچتے رہو کیونکہ بدگمانی کی باتیں اکثر جھوٹی ہوتی ہیں، لوگوں کے عیوب تلاش کرنے کے پیچھے نہ پڑو، آپس میں حسد نہ کرو، کسی کی پیٹھ پیچھے برائی نہ کرو، بغض نہ رکھو بلکہ اللہ کے بندو! آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو‘‘۔
صحیح بخاری میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''آپس میں بغض نہ رکھو، حسد نہ کرو، پیٹھ پیچھے کسی کی برائی نہ کرو بلکہ اللہ کے بندو! آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو اور کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ ایک بھائی کسی بھائی سے تین دن سے زیادہ سلام کلام چھوڑ دے‘‘۔
صحیح بخاری کی ایک تفصیلی حدیث‘ جس کے راوی حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ ہیں‘ میں یہ بات مذکور ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ''خدا کی قسم! میں تمہارے بارے میں اس بات سے نہیں ڈرتا کہ تم میرے بعد شرک کرو گے؛ البتہ اس سے ڈرتا ہوں کہ تم دنیا کے لالچ میں پڑ کر ایک دوسرے سے حسد کرنے لگو گے‘‘۔
صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''بدگمانی سے دور رہو کیونکہ بدگمانی سب سے زیادہ جھوٹی بات ہے، دوسروں کے ظاہری عیب تلاش کرو نہ دوسروں کے باطنی عیب ڈھونڈو، مال و دولت میں ایک دوسرے کے ساتھ مسابقت نہ کرو، ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، آپس میں بغض نہ رکھو، ایک دوسرے سے روگردانی نہ کرو، اللہ کے ایسے بندے بن کر رہو جو آپس میں بھائی بھائی ہیں‘‘۔
کتب احادیث میں مزید بہت سی ایسی احادیث ہیں جن سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حسد انسانوں کے درمیان دشمنی کی ایک بنیاد ہے اور اللہ تبارک وتعالیٰ حسد اور بغض کو پسند نہیں کرتے۔ حسد اور بغض کے نتیجے میں کئی مرتبہ حاسد محسود کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے‘اس نقصان سے بچنے کے لیے انسان کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی خصوصی پناہ اور معاونت کی ضرورت ہوتی ہے؛ چنانچہ نبی کریمﷺ نے صبح و شام اور تمام نمازوں کے بعد معوذات (آخری تین قل) پڑھنے کا حکم دیا۔ انسانوں کو حاسد کے حسد سے بچنے کیلئے آخری تین سورتوں‘ بالخصوص معوذتین کی تلاوت کرنی چاہیے تاکہ اللہ تبارک وتعالیٰ حاسد کے حسد اور شر سے محفوظ فرمالے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کوحسد اور بغض سے پاک زندگی گزارنے کی توفیق دے، اپنے فیصلوں پرراضی ہونے والا بنادے، ہمیں دوسروں کی صلاحیت اور قابلیت کااعتراف کرتے ہوئے ان کی تحسین کے راستے پر چلنے کی توفیق دے اورکسی کو نقصان پہنچانے اور اس کے بارے میں غلط افواہ پھیلانے سے ہم سب کو محفوظ ومامون فرمائے، آمین!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں