انسانی زندگی مشکلات اور تکالیف سے عبارت ہے۔ زندگی میں مختلف طرح کی تحریصات اور ترغیبات بھی انسان کو دامن گیر رہتی ہیں۔ انسان ابتلاؤں اور مشکلات کے حوالے سے کئی مرتبہ یاسیت کے راستے پر چل نکلتا ہے، اس وجہ سے مصائب اور مشکلات سے باہر نکلنے کے امکانات مزید کمزور ہو جاتے ہیں۔ شہوات، ترغیبات اور تحریصات کئی مرتبہ انسان کو راہِ ہدایت سے بھٹکا دیتی ہیں اور انسان صراطِ مستقیم سے دور ہوتا چلا جاتا ہے۔ ان مسائل سے عہدہ برآ ہونے کے لیے انسان کو صبر اختیار کرنا چاہیے۔ جو انسان صبر اختیار کرتا ہے اللہ تبارک و تعالیٰ کی نصرت اور تائید اس کے شاملِ حال ہو جاتی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں اس حقیقت کو واضح فرمایا کہ اللہ تعالیٰ انسانوں کو مختلف طریقے سے آزماتے ہیں۔ چنانچہ سورۃ البقرہ کی آیت 155 میں ارشادہوا ''اور یقینا ہم تمہیں خوف، بھوک، مالوں، جانوں اور پھلوں کی کمی میں سے کسی نہ کسی چیز کے ساتھ ضرور آزمائیں گے‘‘۔ اس آیت مبارکہ پہ غور کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ انسان کو مالی و جانی نقصانات کا زندگی کے مختلف ادوار میں سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان کا مقابلہ کرنے کیلئے انسان کو صبر کے دامن کو تھام لینا چاہیے۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اسی مقام پر اعلان فرمایا کہ ''اور صبر کرنے والوں کو خوش خبری دے دیجیے۔ وہ لوگ کہ جب انہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے توکہتے ہیں: بے شک ہم اللہ کے ہیں اور بے شک ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ یہ لوگ ہیں کہ جن پر ان کے رب کی طرف سے کئی مہربانیاں اور بڑی رحمت ہے اور یہی لوگ ہدایت پانے والے ہیں‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلام اللہ میں اس بات کو بھی بیان فرمایا کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کی مدد کو صبر اور نماز کے ذریعے حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ البقرہ کی آیت 153 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اے لوگو جو ایمان لائے ہو! صبر اور نماز کے ساتھ مدد طلب کرو، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘۔ اسی طرح سورۃ البقرہ ہی کی آیت 45 میں ارشاد ہوا ''اور صبر اور نماز کے ساتھ مدد طلب کرو اور بلاشبہ وہ یقینا بہت بڑی (چیز) ہے مگر ان عاجزی کرنے والوں پر‘‘۔ ان آیاتِ مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہمیں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی نصرت کو صبر اور نماز کے ذریعے طلب کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ انسان کو مختلف ابتلاؤں سے گزارنے کے بعد جب اُسے صبر پر کاربند دیکھتے ہیں تو انسان کی تکالیف کو دور بھی کر دیتے اور اس کو اپنی قربت بھی عطا فرما دیتے ہیں۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید کے مختلف مقامات پر اُن انبیاء کرام علیہم السلام کا ذکر کیا جنہون نے مصائب اور تکالیف پر بہت زیادہ صبر کیا۔ حضرت نوح علیہ السلام کو زندگی میں بہت سی اذیتوں اور تکالیف کا سامنا کرنا پڑا اور ساڑھے نو سو برس تک لوگ آپ کی سچی رسالت کی تکذیب کرتے رہے لیکن حضرت نوح علیہ السلام نے ساڑھے نو سو برس پوری خندہ پیشانی کے ساتھ اِن ابتلاؤں کا مقابلہ کیا۔ اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی مسلسل تکالیف کا سامنا کیا، بستی والوں کی مخالفت کو سہا اور نمرود کے دباؤ کو برداشت کیا۔ جب آپ علیہ السلام کو نمرود کی جلائی گئی آگ میں اتارا گیا تو آپ علیہ السلام نے اُس وقت بھی صبر کے دامن کو نہیں چھوڑا اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی نصرت کے طلبگار ہوئے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانبیاء کی آیت 69 میں اس امر کا اعلان فرما دیا ''ہم نے کہا اے آگ! تُو ابراہیم پر سراسر ٹھنڈک اور سلامتی بن جا‘‘۔ قرآنِ مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے صبر کا بھی ذکرکیا۔ جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں یہ دکھایا گیا کہ آپ جناب اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کر رہے ہیں تو آپ علیہ السلام نے اپنے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کو مخاطب ہو کر فرمایا (جس کا ذکر سورۃ الصافات کی آیت 102میں موجود ہے) ''بلاشبہ میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں، تو دیکھ تو کیا خیال کرتا ہے؟‘‘ اُس موقع پر سیدنا اسماعیل علیہ السلام نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے سامنے اس بات کو رکھا کہ ''اے میرے باپ! آپ کو جو حکم دیا جا رہا ہے کر گزریے، اگر اللہ نے چاہا تو آپ ضرور مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیے گا‘‘۔
اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعے کا ذکر بھی کیا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کو زندگی میں بہت سی تکالیف اور ابتلاؤں سے گزرنا پڑا۔ بچپن میں آپؑ کو بھائیوں نے اندھیرے کنویں میں پھینک دیا، اس کے بعد آپ کو مصر میں فروخت کر دیا گیا۔ بعدازاں جب آپ علیہ السلام جوان ہوئے تو آپ کی کفالت کرنے والے عزیزمصر کی بیوی نے آپؑ کو برائی کی دعوت دی لیکن سیدنا یوسف علیہ السلام نے اُس برائی کی دعوت کو ٹھکرا دیا۔ پھر آپ نے ایک لمبا عرصہ جیل میں گزارا اور بالآخر اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت یوسفؑ کے صبر و استقامت کو قبول فرماتے ہوئے آپؑ پر اپنے فضل عظیم کا نزول فرمایا اور آپ کو تختِ مصر پر بٹھا دیا۔ حضرت یوسف علیہ السلام جب مصر کے حاکم بنے تو اُس موقع پر آپؑ کے بھائی عالمی قحط کے بعد آپ کے پاس غلے کے حصول کے لیے آئے۔ آپ علیہ السلام نے اُن سے انتقام لینے کے بجائے انہیں معاف کر دیا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے ساتھ ساتھ قرآن مجید میں حضرت ایوب علیہ السلام کے صبر کا بھی ذکر ہے کہ جنہوں نے ایک لمبا عرصہ صبر اور رضا کی زندگی گزاری۔ آپؑ نے صبر و تحمل اور خندہ پیشانی سے بیماری کو برداشت کیا اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں اس بیماری سے نجات کے لیے رحمت کی دعا مانگی۔ سورۃ الانبیاء کی آیت 83 میں ارشاد ہوا''اور ایوب کو (یاد کرو) جب اس نے اپنے رب کو پکارا کہ بے شک مجھے بیماری لگ گئی ہے اور تو رحم کرنے والوں میں سب سے زیادہ رحم والا ہے‘‘۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپؑ کی اِس دعا و فریاد کو قبول کیا اور آپ کو اس بیماری سے نجات دے دی‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں سورۃ الاحقاف کی آیت 35 میں نبی کریمﷺ پر اس وحی کا بھی نزول فرمایا کہ ''پس صبر کر جس طرح پختہ ارادے والے رسولوں نے صبر کیا‘‘۔ نبی کریمﷺ کی اپنی زندگی بھی صبر اور رضا کی ایک خوبصورت تصویر ہے۔ آپﷺ کو زندگی میں جتنی بھی ابتلاؤں کا سامنا کرنا پڑا‘ آپﷺ نے خندہ پیشانی سے انہیں برداشت کیا۔ سرزمین مکہ کو آپﷺ کے وجود پر تنگ کرنے کی کوشش کی گئی، آ پﷺ کے راستوں میں کانٹے بچھائے گئے، آپﷺ کے گلوئے اطہر میں چادر ڈال کر بھینچا گیا،حالتِ نماز میں آپﷺ کی بے ادبی کی گئی لیکن ان تمام تکالیف کو آپﷺ نے خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کیا۔ طائف کی وادی میں آپﷺ پر تشدد کی انتہا کر دی گئی۔ آپﷺ زخمی تھے کہ حضر ت جبرائیل علیہ السلام پہاڑوں کے فرشتے کے ساتھ حاضر ہوئے اور عرض کی کہ اگر آپﷺ حکم دیں تو طائف کی اس وادی کو دو پہاڑوں کے درمیان پیس کے رکھ دیا جائے لیکن آپﷺ نے اس موقع پر بھی صبر و رضا کو اختیار کیے رکھااور اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کی ''اللہم اھد قومی فانھم لایعلمون‘‘ (اے اللہ! میری قوم کو ہدایت دے بیشک وہ مجھے نہیں جانتے)۔ یقینا نبی کریمﷺ کی زندگی ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے۔ ہمیں اپنی زندگی کی مشکلات اور تلخیوں کے دوران اولو العزم انبیاء کرام علیہم السلام کی سیرت اور اُن سے بڑھ کر نبی کریمﷺ کی سیرت سے راہ نمائی حاصل کرنی چاہیے۔ زندگی میں آنے والی تمام مصیبتوں اور مشکلات کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت لقمان علیہ السلام کی وصیتوں کا ذکر کرتے ہوئے اس بات کو بھی بیان کیا کہ حضرت لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو یہ وصیت کی تھی کہ نماز کو قائم کرو، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کردار ادا کرو اور ہر آنے والی تکلیف پر صبر کرو۔ بے شک مصائب پر صبر کرنا ہمت کے کاموں میں سے ایک کام ہے۔
اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں اس بات کو واضح کیا کہ مصائب درحقیقت اللہ کی طرف سے ہوتے ہیں اور جو شخص ایمان پر ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے مصیبتوں سے نکلنے کے راستے بنا دیتے ہیں۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سورۃ التغابن کی آیت 11 میں ارشاد فرماتے ہیں ''کوئی مصیبت نہیں پہنچی مگر اللہ کے اِذن سے اور جو اللہ پر ایمان لے آئے وہ اس کے دل کو ہدایت دیتا ہے‘‘۔
قرآنِ مجید کے ساتھ ساتھ کتب احادیث میں بھی صبر کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے دو اہم احادیث درج ذیل ہیں:
صحیح بخاری میں سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جب میں اپنے کسی بندہ کو اس کے دو محبوب اعضا (آنکھوں) کے بارے میں آزماتا ہوں (یعنی نابینا کر دیتا ہوں) اور وہ اس پر صبر کرتا ہے تو اس کے بدلے میں اسے جنت دیتا ہوں۔
صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: جب میں اپنے مومن بندے کی اہلِ دنیا سے کسی محبوب چیز کو اٹھاتا ہوں اور وہ اس پر صبر کرتا ہے تو اس کی میرے ہاں جزا جنت کے سوا اور کچھ نہیں‘‘۔
چنانچہ ہمیں زندگی میں آنے والی تمام تکالیف کا جوانمردی سے مقابلہ کرنا چاہیے۔ ترغیبات، تحریصات اور شہوات کو اپنے راستے کی زنجیر نہیں بننے دینا چاہیے بلکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے مسلسل کوشاں رہنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں صراطِ مستقیم پر استقامت عطا فرمائے اور زندگی کی تمام مشکلات اور تکالیف کو خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کرنے کی توفیق دے تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کی نصرت، اس کی معیت اور محبت کے مستحق بن سکیں، آمین!