انسانیت اور اسلام دشمنی کے حوالے سے یہود کا کردار ہمیشہ سے انتہائی بھیانک اور مکروہ رہا ہے۔ یہود نہ صرف یہ کہ اسلام اور پیغمبر اسلامﷺ کی مخالفت میں پیش پیش رہے بلکہ انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھی مسلسل اذیتیں اور تکالیف دیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں یہود پر کیے جانے والے بہت سے انعامات کا ذکر کیا لیکن یہ ناشکری کے راستے پرگامزن رہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورۃ البقرہ کی آیات 49 تا 52 میں یہود پر کیے گئے اپنے بہت سے احسانات اور انعامات کا ذکر کچھ یوں فرمایا ''اور (یاد کرو) جب نجات بخشی ہم نے تمہیں آلِ فرعون سے‘ جنہوں نے مبتلا کر رکھا تھا تم کو بدترین عذاب میں۔ ذبح کرتے تھے تمہارے بیٹوں کو اور زندہ رہنے دیتے تھے تمہاری عورتوں کو۔ اور اس حالت میں تمہاری آزمائش تھی تمہارے رب کی طرف سے بہت بڑی۔ اور جب پھاڑا ہم نے تمہارے لیے سمندر کو‘ پھر نجات دلائی تمہیں اور غرق کر دیا آلِ فرعون کو تمہارے دیکھتے دیکھتے۔ اور جب وعدہ کیا ہم نے موسیٰ سے چالیس رات کا‘ پھر بنا لیا تم نے بچھڑے کو (معبود) موسیٰ کے بعد اور تم ظلم کر رہے تھے۔ پھر معاف کر دیا ہم نے تم کو اس کے بعد تاکہ تم شکر گزار بنو‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے بہت سے مزید احسانات کا ذکر سورۃ البقرۃ کی آیات 55 تا 60 میں کچھ یوں کیا ''اور جب تم نے کہا: اے موسیٰ! ہرگز نہ یقین کریں گے ہم تمہارا جب تک (نہ) دیکھ لیں ہم اللہ کو اعلانیہ‘ تو آ لیا تم کو ایک کڑکے نے تمہارے دیکھتے دیکھتے۔ پھر زندہ کیا ہم نے تم کو‘ تمہاری موت کے بعد تاکہ تم شکرگزار بنو۔ اور سایہ کیا ہم نے تم پر بادل کا اور اتارا ہم نے تم پر من و سلویٰ۔ (اور کہا:) کھاؤ ان پاکیزہ چیزوں میں سے جو عطا کی ہیں ہم نے تم کو۔ اور (ناشکری کر کے) نہیں بگاڑا انہوں نے ہمارا کچھ بلکہ وہ رہے اپنی ہی جانوں پر ظلم کرتے۔ اور جب ہم نے کہا: داخل ہو جاؤ اس بستی میں اور کھاؤ وہاں‘ جہاں سے چاہو بافراغت اور داخل ہونا (بستی) کے دروازوں میں سجدہ ریز ہوتے ہوئے اور کہتے جانا: بخشش مانگتے ہیں‘ معاف کر دیں گے ہم خطائیں تمہاری۔ بلکہ اور زیادہ عطا کریں گے ہم نیکی کرنے والوں کو۔ مگر بدل دیا‘ ان ظالموں نے (اس کلمہ کو) ایسے کلمہ سے جو مختلف تھا اس سے جو کہا گیا تھا اُن سے‘ لہٰذا نازل کیا ہم نے ظلم کرنے والوں پر عذاب آسمان سے‘ بسبب اس کے کہ وہ نافرمانیاں کیے جاتے تھے۔ اور جب پانی مانگا موسیٰ نے اپنی قوم کے لیے تو کہا ہم نے کہ مارو اپنے عصا کو اس چٹان پر۔ سو پھوٹ نکلے اس میں سے بارہ چشمے۔ جان لیا ہر قبیلے نے اپنا اپنا گھاٹ۔ (ہم نے کہا:) کھائو اور پیو‘ اللہ کے دیے ہوئے رزق میں سے اور مت پھرو زمین پر فساد پھیلاتے ہوئے‘‘۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں اس بات کا بھی ذکر کیا کہ یہود نے من و سلویٰ کو چھوڑ کر زمین کی ترکاریوں اور سبزیوں کی فرمائش کی اور اعلیٰ چیزوں کو چھوڑ کر ادنیٰ کے پیچھے دوڑ نکلے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے جہاں اپنی نعمتوں کا ذکر کیا‘ وہاں یہود کی سرکشی کا بھی ذکر کیا کہ یہ احکامات الٰہیہ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی حیاتِ مبارکہ ہی میں انحراف کرتے رہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان کو گائے کو ذبح کرنے کا حکم دیا لیکن یہ مختلف حیلے بہانوں سے گائے کو ذبح کرنے سے انحراف کرتے رہے۔ بالآخر گائے کو ذبح کرنے پر مجبور ہو گئے حالانکہ وہ ایسا نہ کرنا چاہتے تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ یہود اپنے ہاتھوں سے تحریروں کو لکھتے اور اس کو اللہ تبارک وتعالیٰ کے ساتھ منسوب کر دیا کرتے تھے۔ یہود نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات کے بارے میں بھی منفی رویہ اختیار کیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ المائدہ کی آیت نمبر 64 میں ارشاد فرمایا ''اور کہتے ہیں یہودی کہ اللہ کا ہاتھ بندھا ہوا ہے۔ بندھ گئے ان کے ہاتھ اور لعنت پڑی ان پر اس (بکواس) کی بدولت بلکہ (یقینا) اس کے ہاتھ کھلے ہوئے ہیں‘‘۔
قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ یہودیوں پر ذلت اور مسکنت کو مسلط کر دیا گیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر 61 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اور مسلط ہو گئی ان پر ذلت اور محتاجی اور گھر گئے وہ غضب میں اللہ کے۔ یہ اس لیے ہوا کہ وہ انکار کرتے تھے اللہ کی آیات کا اور قتل کرتے تھے نبیوں کو ناحق۔ یہ اسی سبب تھا کہ وہ نافرمانی کیے جاتے اور حد سے بڑھے جاتے تھے‘‘۔
یہود نے جہاں بعثت نبوی سے قبل سنگین جرائم کا ارتکاب کیا‘ وہاں نبی کریمﷺ کی بعثت کے بعد بھی وہ اسلام دشمنی پر آمادہ رہے اور نہ صرف یہ کہ انہوں نے آپﷺ کی مخالفت کا راستہ اپنایا بلکہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کی دشمنی پر بھی تل گئے حالانکہ وہ وحی اپنی مرضی کے ساتھ نہیں بلکہ اللہ کے امر سے لے کر آتے تھے۔ سورۃ البقرۃ کی آیات 97 تا 98 میں ارشاد ہوا ''کہہ دو! جو شخص ہے دشمن جبریل کا (اسے معلوم ہونا چاہیے) کہ جبریل ہی نے تو اتارا ہے قرآن تمہارے قلب پر‘ اللہ کے حکم سے‘ تصدیق کرتا ہوا ان (کتابوں) کی جو ان کے پاس پہلے سے موجود ہیں اور (قرآن) ہدایت ہے اور بشارت ہے اہلِ ایمان کے لیے۔ جو ہے دشمن اللہ کا اور اس کے فرشتوں کا اور اس کے رسولوں کا اور جبریل اور میکائیل کا‘ تو بیشک اللہ بھی دشمن ہے کافروں کا‘‘۔
نبی کریمﷺ کی بعثت کے بعد یہود نے نبی کریمﷺ کی بھرپور مخالفت کی۔ آپﷺ کے ساتھ دفاعِ مدینہ کے لیے کیے جانے والے معاہدے سے انحراف کر کے غزوۂ احزاب میں مسلمانوں کا ساتھ چھوڑ دیا۔ نبی کریمﷺ پر جادو کے حملے کرنے کی کوشش کی اور آپﷺ کو ہر طرح کی اذیت دینے میں یہ لوگ پیش پیش رہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی کریمﷺ کی نصرت فرمائی اور یہود کے بڑے بڑے سردار مسلمانوں کے ہاتھوں کیفر کردار تک پہنچے۔ خیبر کے قلعے کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت علی المرتضیٰؓ کی قیادت میں فتح کرایا اور یہودی سردار مرحب اپنے برے انجام سے دوچار ہوا۔ یہود اپنی عہد شکنی کی وجہ سے مدینہ طیبہ سے بے دخل ہوئے اور حضرت عمر فاروقؓ نے نبی کریمﷺ کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے انہیں جزیرۃ العرب سے باہر نکال دیا۔ اس دن سے لے کر آج تک‘ یہود اپنی سازشوں کے تانے بانے بُننے میں مصروف ہیں۔
اسرائیلی ریاست کے قیام کے لیے یہودیوں نے طویل منصوبہ بندی کی تھی اور اپنی نقل مکانی کے ذریعے مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کر کے فلسطینی مسلمانوں کے حقوق کو غصب کرنے کے لیے سرتوڑ کوششیں کیں۔ مسلمان اسرائیل کے قیام سے لے کر آج تک یہود کی چیرہ دستیوں کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ گزشتہ چند مہینوں سے غزہ میں یہود کا ظلم اپنے عروج پر ہے۔ یہود کے اس ظلم پر مسلم امت کو جس انداز میں ردعمل دینا چاہیے تھا‘ افسوس کہ اس انداز میں ردعمل دینے سے وہ قاصر نظر آ رہی ہے۔ یہود کو مسلمانوں کی نسل کشی سے روکنے کے لیے مسلمانوں کے اجتماعی ضمیر کو جگانے کی ضرورت ہے اور اس حوالے سے جہاں دیگر تدابیر کو اختیار کرنا اہم ہے‘ وہیں یہود کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا بھی انتہائی ضروری ہے۔ اگر مسلمان مجتمع ہو کر یہودی سازش کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بننے کا فیصلہ کر لیں تو یہود کو شکست دی جا سکتی ہے اور اسرائیلی ظلم کے پنجے سے مظلوم فلسطینیوں کو نکالا جا سکتا ہے۔ یہود کی چیرہ دستیوں کے حوالے سے مسلم امت کو مؤثر کردار ادا کرنا چاہیے اور اس حوالے سے کسی بھی غفلت‘ لاپروائی اور کوتاہی کی کوئی گنجائش نہیں۔
اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ غزہ کے مظلوم مسلمانوں کی مدد فرمائے اور ان کو پنجۂ یہود سے رہائی عطا فرمائے، آمین!