عرصۂ دراز سے انسان زمین و آسمان کی تخلیق میں غور و فکر کرنے میں مصروف ہے۔ اس کے نتیجے میں دو طرح کے تصورات ابھرتے ہیں‘ ایک تصور مادے کی حقیقت اور اس کی ساخت کے بارے میں انسانوں کو غور و فکر کی طرف راغب کرتا ہے۔ اس عمل کے نتیجے میں مختلف سائنسی علوم معرضِ وجود میں آتے ہیں۔کیمیا کے علم کا تعلق مادے کی حقیقت اور ساخت پر غور و فکر کے ساتھ ہے‘ جس کے نتیجے میں بہت سے عناصر کی خصوصیات اور ان کے اثرات کے بارے میں معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ اس طرح مختلف عناصر سے مختلف طرح کے فوائد حاصل کرنے کے امکانات پیدا ہوتے ہیں۔ اس کے بالمقابل دوسرا تصورمادے کے بجائے تخلیقِ کائنات پر غور و فکر کرنے کی طرف راغب کرتا ہے۔ تخلیقِ کائنات پر غور و فکر کرنے سے کائنات کی حقیقت اور اس کی تخلیق کے مقاصد سمجھ میں آتے ہیں۔ اسلام اور دیگر آسمانی مذاہب اس باب میں سائنسی طرزِ فکر کے بجائے کائنات کی تخلیق کے مقاصدکو سمجھنے کی طرف توجہ مبذول کراتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں اس موضوع پر مختلف طرح کی باتیں ارشاد فرمائی ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ البقرہ کی آیت 164 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''بے شک آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے اور رات اور دن کے بدلنے میں اور ان کشتیوں میں‘ جو سمندر میں وہ چیزیں لے کر چلتی ہیں جو لوگوں کو نفع دیتی ہیں اور اس پانی میں جو اللہ نے آسمان سے اتارا‘ پھر اس کے ساتھ زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کر دیا اور اس میں ہر قسم کے جانور پھیلا دیے اور ہوائوں کے بدلنے میں اور اس بادل میں جو آسمان و زمین کے درمیان مسخر کیا ہوا ہے‘ اُن لوگوں کے لیے یقینا بہت سی نشانیاں ہیں جو سمجھتے ہیں‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ الغاشیہ میں بھی اس موضوع کو جامع انداز میں بیان کیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ الغاشیہ کی آیات 17 تا 20 میں ارشاد فرماتے ہیں ''تو کیا وہ اونٹوں کی طرف نہیں دیکھتے کہ وہ کیسے پیدا کیے گئے۔ اور آسمان کی طرف کہ وہ کیسے بلند کیا گیا۔ اور پہاڑوں کی طرف کہ وہ کیسے نصب کیے گئے۔ اور زمین کی طرف کہ وہ کیسے بچھائی گئی‘‘۔
سورۃ النحل قرآنِ مجیدکی ایک ایسی سورہ مبارکہ ہے جس میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی تخلیقات کا بہت خوبصورت انداز میں ذکر کیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ النحل کی آیات 10 تا 12 میں ارشاد فرماتے ہیں ''وہی ہے جس نے آسمان سے کچھ پانی اتارا‘ تمہارے لیے اسی سے پینا ہے اور اسی سے پودے ہیں جن میں تم (جانور) چراتے ہو۔ وہ تمہارے لیے اس کے ساتھ کھیتی اور زیتون اور کھجور اور انگور اور ہر قسم کے پھل اگاتا ہے۔ اس میں اُن لوگوں کے لیے یقینا بڑی نشانی ہے جو غور و فکر کرتے ہیں۔ اور اس نے تمہاری خاطر رات اور دن اور سورج اور چاند کو مسخر کر دیا اور ستارے اس کے حکم کے ساتھ مسخر ہیں۔ بے شک اس میں اُن لوگوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں جو سمجھتے ہیں‘‘۔
ان آیاتِ مبارکہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے زمین سے اُگنے والی زراعت کے ذکر کے ساتھ ساتھ رات اور دن اور اجرامِ سماویہ کی تسخیر کا ذکر کر کے اس بات کو واضح کیا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں کو کس انداز سے کائنات میں ایک نمایاں حیثیت عطا فرمائی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اسی سورت کی آیت 66 میں جانوروں کے وجود سے نکلنے والے دودھ کی فراہمی کا ذکر نہایت خوبصورت انداز میں کچھ یوں فرماتے ہیں ''اور بلاشبہ تمہارے لیے چوپائوں میں بڑی عبرت ہے‘ ہم ان چیزوں میں سے‘ جو ان کے پیٹوں میں ہیں‘ گوبر اور خون کے درمیان سے تمہیں خالص دودھ پلاتے ہیں۔ جو پینے والوں کے حلق سے آسانی سے اتر جانے والا ہے‘‘۔ اسی سورت کی آیات 67 تا 69 میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے پھلوں سے حاصل ہونے والے رزق کا بھی ذکر کیا اور شہد کی مکھی کے پیٹ سے نکلنے والے شہد کا بھی ذکر کیا جس میں انسانوں کے لیے بیماریوں کی شفا ہے۔ چنانچہ آیات 68 تا 69 میں ارشاد ہوا ''اور تیرے رب نے شہد کی مکھی کی طرف وحی کی کہ کچھ پہاڑوں میں سے گھر بنا اور کچھ درختوں میں سے اور کچھ اس میں سے جو لوگ چھپر بناتے ہیں۔ پھر ہر قسم کے پھلوں سے کھا‘ پھر اپنے رب کے راستوں پر چل جو مسخر کیے ہوئے ہیں۔ ان کے پیٹوں سے پینے کی ایک چیز نکلتی ہے جس کے رنگ مختلف ہیں‘ اس میں لوگوں کے لیے ایک قسم کی شفا ہے۔ بلاشبہ اس میں ان لوگوں کے لیے ایک نشانی ہے جو غور و فکر کرتے ہیں‘‘۔
سورۃ النحل میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے فضائے بسیط میں اڑنے والے پرندوں کی پرواز کا بھی ذکر کیا کہ فضا میں ان کو سنبھالنے والی فقط اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات ہوتی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ النحل کی آیت 79 میں ارشاد فرماتے ہیں ''کیا انہوں نے پرندوں کی طرف نہیں دیکھا‘ آسمان کی فضا میں مسخر ہیں‘ انہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں تھامتا۔ بلاشبہ اس میں اُن لوگوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں جو ایمان لاتے ہیں‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ الروم میں بھی اپنی بہت سی نشانیوں کا ذکر کیا جن میں انسانوں کی زبانوں اور رنگوں کا اختلاف‘ انسانوں کا راتوں کو سونا‘ دن کو اٹھنا اور کاروبار کرنا‘ بجلی کی کڑک کے ساتھ خوف اور امید کا پیدا ہونا اور آسمان سے حیات آفرین پانی کا اترنا اور مٹی سے انسانوں کی تخلیق اور انسانوں کی جنس سے بیویوں کی تخلیق‘ جن سے وہ سکون حاصل کرتے ہیں‘ اللہ تبارک وتعالیٰ کے امر پر مردہ زمین کا زندہ ہونا اور اسی طرح انسان کا مَر کے جی اٹھنا وغیرہ شامل ہیں۔ ان تمام باتوں پر غور و خوض کرنے کے بعد اگر انسان اپنے مقصدِ زندگی کو سمجھنے کی کوشش کرے تو وہ اس حقیقت کو پا لیتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ سب کچھ بغیر کسی مقصد کے تخلیق نہیں کیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ الانبیاء کی آیت 16 تا 17 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اور ہم نے آسمان اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے‘ کھیلتے ہوئے نہیں بنایا۔ اگر ہم چاہتے کہ کوئی کھیل بنائیں تو یقینا اسے اپنے پاس سے بنا لیتے‘ اگر ہم (ایسا) کرنے والے ہوتے‘‘۔ اسی طرح سورۃ المومنون کی آیات 115 تا 117 میں ارشاد ہوا ''تو کیا تم نے گمان کر لیا کہ ہم نے تمہیں بے مقصد ہی پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف نہیں لوٹائے جائو گے؟ پس بہت بلند ہے اللہ‘ جو سچا بادشاہ ہے‘ اس کے سوا کوئی معبود نہیں‘ عزت والے عرش کا رب ہے۔ اور جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو پکارے‘ جس کی کوئی دلیل اس کے پاس نہیں تو اس کا حساب صرف اس کے رب کے پاس ہے۔ بلاشبہ حقیقت یہ ہے کہ کافر فلاح نہیں پائیں گے‘‘۔
اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے سورہ آلِ عمران کی آیات 190 اور 191 میں تخلیقِ کائنات کے مقصدِ حقیقی کی طرف نہایت خوبصورت انداز میں راہ نمائی کی ہے۔ ارشاد ہوا ''بے شک آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے اور رات اور دن کے بدلنے میں عقل والوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں۔ وہ لوگ جو کھڑے اور بیٹھے اور اپنے پہلوئوں پر اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور و فکر کرتے ہیں۔ اے ہمارے رب! تو نے یہ بے مقصد پیدا نہیں کیا‘ تو پاک ہے‘ سو ہمیں آگ کے عذاب سے بچا‘‘۔ اسی حقیقت کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ الذاریات کی آیت 56 میں کچھ یوں بیان فرمایا ''اور میں نے جنوں اور انسانوں کو پیدا نہیں کیا مگر اس لیے کہ وہ میری عبادت کریں‘‘۔
اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں کائنات کی حقیقت کو غور و خوض کرنے کے بعد اپنے حقیقی مقصدِ تخلیق کو سمجھنے‘ اپنی بندگی اور ذکر اذکارکی اہمیت اور افادیت کو سمجھ کر اپنی آخرت کی تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے‘ آمین!